ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں

بہت سادہ زمانہ تھا۔ اسلام آباد سے تقریباً پچاس کلو میٹر دُور واقع میرے گاؤں میں بودوباش ابھی بہت سادہ تھی۔ابھی تک بیل جوت کر کھیتوں میں ہل چلانے کا رواج تھا ۔ صبح کی نماز کے بعد لوگ بیلوں کی جوڑیاں لے کر کھیتوں کی طرف روانہ ہوجاتے۔ ابھی تک جدیدیت نے سر نہیں اُٹھایا تھا۔گاؤں کو شہر سے ملانے والی سڑ ک نہیں تھی اور سڑک کی جگہ ابھی تک پگڈنڈیاں تھیں یا کچا ٹریک تھا۔ بجلی ابھی نئی نئی آئی تھی ۔ لوگ ابھی تک ٹی وی جیسی شے سے نا واقف تھے اور لالٹین کی جگہ جلنے والے بلب کو دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔
بجلی آنے کے کچھ ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ کراچی میں سرکاری ملازمت کرنے والے ہمارے ایک بابا جی بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن لے کر آگئے‘پھر یوں ہوا کہ دس گھروں پر مشتمل ڈھوک میں بسنے والے بچے ‘بوڑھے‘ جوان اور خواتین سورج ڈھلتے ہی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور رات گئے تک ٹیلی ویژن پر چلنے والے مختلف پروگرامز سے لطف اندوز ہوتے رہتے‘ پھر چند ہفتوں میں کچھ ٹیلی ویژن پروگرامز کا انتظار بھی شروع ہو گیا۔ چند دیگر ڈراموں کے ساتھ' ' نیلام گھر‘‘ کا بھی ایسے انتظار ہوتا ‘جیسے وہ بھی کوئی بہت ہی مقبول ڈراما ہے اور ہر کوئی ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کے ''نیلام گھر‘‘ کے شروع ہونے کا انتظار کرتا۔'' نیلام گھر‘‘ کا خاصا تھا کہ اُس کا آغاز بہت خوبصورت ' 'ابتداہے رب ِجلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے... د یکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘ ‘ اور اختتام بھی بہت پُر جوش اور منفرد گرجدار آواز میں' 'پاکستان زندہ باد‘ ‘ سے ہوتا ۔ ''نیلام گھر ‘‘ کا یہ بھی خاصا تھا کہ یہ شو‘ تمام عمر کے لوگوں میں یکساں مقبول تھا‘ پھر یوں ہوا کہ طارق عزیز کی مانوس آواز باقاعدہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئی۔ کئی دہائیوں تک لوگوں کے دلوں کو گرمانے والی آواز17 جون2020ء کو اچانک خاموش ہو گئی اور طارق عزیز اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر کر رخصت ہو گئے ۔ عہدِ کورونا میں جہاں ملک کے طول و عرض میں پہلے ہی خوف وہراس کی فضا قائم ہے ‘طارق عزیز کی رحلت کی خبر بجلی بن کر گری۔ بہت سے لوگ جو طارق عزیز کی شخصیت سے آشنا ہیں اور پاکستان کیلئے اُن کی خدمات سے واقف ہیں ‘وہ اُن کے ایسے اچانک رخصت ہو جانے کی وجہ سے اُداس ہیں ۔ ہر بڑے آدمی کی زندگی کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں ‘جو اُس کو تاریخ میں تادیر زند ہ رکھتے ہیں‘ ایسے ہی طارق عزیز بھی ایک ہما جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے گہری محبت ‘ پاکستان کے ساتھ عشق کی حد تک لگاؤ‘ اُن کی دانش‘ حاضر دماغی اور ادب نوازی جیسے اوصاف اُن کی شخصیت کا خاصا تھے۔
طارق عزیز '' سیلف میڈ‘ ‘ قبیلے کے سرخیل تھے ۔ اُن کی جدوجہدِ زندگی جو اُن کی پُر قار شخصیت سے ہما وقت جھلکتی رہتی تھی‘ نئی نسل کے لیے ایک بہترین مثال بھی تھی۔1936ء میں جالندھر (ہندوستان)میں پیدا ہونے والے طارق عزیز تقسیم ِ ہند کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ ساہیوال منتقل ہو گئے ۔ پاکستان میں اُن کے ابتدائی سال اُن کی کسمپرسی کا زمانہ تھا۔ وہ خود بتایا کرتے تھے کہ جب وہ لاہور میں منتقل ہوئے‘ تو اُن کیلئے بہت مشکل وقت تھا۔ بھوک اور افلاس تو تھے ہی ‘اُن کے پاس رہنے کو چھت تک نہ تھی‘ تاہم وہ عموماً ذکر کرتے تھے کہ جہاں لاہور شہر نے انہیں کچوکے دئیے اور زندگی کی اُونچ نیچ سکھائی‘ وہاں اسی شہر نے انہیں سر پر بھی بٹھایا‘ جس شہر نے انہیں گلیوں اور فٹ پاتھوں کی زندگی سے روشناس کرایا‘ اُسی شہر نے اُن کو قومی اسمبلی کا رُکن منتخب کر کے پارلیمنٹ تک پہنچایا۔ طارق عزیز کی زندگی سے سبق ملتا ہے کہ اگر اخلاص اور محنت کا راستہ اختیار کیا جائے تو بہت سی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔ 
طارق عزیز ایک عظیم محب وطن تھے۔ اپنے وطن سے محبت اُن کے انگ انگ میں رچی بسی ہوئی تھی‘ جس کا اظہار کرنے میں وہ کبھی تامل کا مظاہرہ نہ کرتے۔ وطن سے بے پناہ اُنس ہر وقت اُن کے چہرے اور ان کی آواز سے جھلکتا تھا‘ جس محبت سے وہ''پاکستان زندہ باد‘ ‘کا نعرہ بلند کرتے ‘وہ اُنہی کا خاصا تھا۔ ''پاکستان زندہ باد‘ ‘ کے ساتھ اُن کی وابستگی کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ جہاں کہیں وہ مہمان کے طور پر مدعو کیے جاتے تو اُن سے یہ نعرہ بلند کرنے کی استدعا کی جاتی۔ اپنے وطن سے اُن کی بے مثال محبت کی مثال یہ بھی تھی کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی خدمت کرنے والوں اور دُنیا بھر میں وطن کا نام روشن کرنے والوں کو اپنے پروگرامز میں بطورِ خاص مدعو کیا اور فخر سے انہیں پاکستان کے سپوت کے طور پرمتعارف کروایا۔ خود بہت مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود طارق عزیز کے لبوں پر کبھی حرفِ شکایت نہ آیا۔ وہ وطن ِ عزیز (پاکستان )کو بہت اہمیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اُن کی عزت ‘ شہرت ‘دولت‘ حیثیت ‘ آزادیٔ پاکستان کے دم سے ہے۔وطن سے بے لوث محبت کا اظہار انہوں نے ایسے کیا کہ وصیت کر دی کہ اُن کی تمام تمام جائیداد پاکستان کے نام کر دی جائے۔ 
طارق عزیز اللہ پر بھروسہ کرنے والے انسان اور ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ وہ اپنی زندگی کی ساری کامیابیوں کو اپنے اللہ کا کرم گردانتے تھے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی دین سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ تو مالک کا کرم ہے کہ اُس نے مجھے نوازا ہے اور مجھے کمال کی آواز دی ۔ یہ اُس کی دین ہے کہ وہ مجھے گونگا بھی بنا سکتا تھا ‘مگر اس نے مجھے طارق عزیز بنا دیا۔ طارق عزیز اس اعتبار سے عاجزی اور انکساری کی مثال تھے ۔ وہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے محبت اور ایمان کی بدولت زندگی کے سفر میں عزت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ طارق عزیز کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے ۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ 1964ء میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو اُن کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سب سے پہلے اُن کی تصویر اور آواز ٹیلی ویژن کی سکرین پر اُبھری ۔ چالیس برس تک ''نیلام گھر‘‘ اور بعد ازاں ''طارق عزیز شو‘‘ کو عوامی دلچسپی کا محور بنائے رکھا۔ فلموں میں کام کیا اور دو نگار ایوارڈز حاصل کیے۔ لکھاری کے طور پر سامنے آئے تو کالموں کا مجموعہ ''داستان‘‘ اور خوبصورت پنجابی شاعری کی کتاب ''ہمزاد دا دُکھ‘‘ منظر عام پر آئے۔ طارق عزیز رُخصت ہو گئے‘لیکن وہ ایک بہت بڑا ورثہ چھوڑ گئے‘یقین و ایمان کا ورثہ کہ یہ سب کمال ربِ ذوالجلال کا ہے۔عشق و وفا کا ورثہ کہ پاکستان زندہ باد اُن کی رگ رگ میں دوڑتا تھا۔فخر و اطمینان کا ورثہ‘جو سیلف میڈ لوگوں کا ورثہ ہو تا ہے۔طارق عزیز نے اپنے آخری ٹویٹ میں ٹھیک کہا '' وقت رُک گیا ہے ‘رواں دواں زندگی رُک گئی ہے‘ نجانے پُرانا وقت کب لوٹ کے آئے گا‘۔طارق عزیز آپ ٹھیک کہہ گئے ہیں ۔ وہ وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور زندگی پھر کبھی ویسی ہو نہیں سکتی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں