بھارت کا سیکولر تشخص

علمی حلقوں میں اب یہ بحث عام ہوتی جا رہی ہے کہ کیا بھارت کبھی ایک سیکولر ملک تھا؟ اور اگر واقعی ایک سیکولر ملک تھا تو کیا اُس کا سیکولر تشخص اب مسخ ہو چکا ہے؟ بھارت کے سیکولر تشخص کو یکسر بدلنے اور اُس میں بڑی نظریاتی تبدیلیاں لانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی موجودہ حکومت کا اہم کردار ہے‘ جو بھارت کو محض اکثریتی ہندو قومیت کے زاویے سے دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اکثریتی ہندو قومیت ہی بھارت کی حاکم ہو۔ ویسے تو انڈین نیشنل کانگریس کے ادوارِ حکومت کے دوران بھی بھارت میں بسنے والی مختلف اقلیتوں بشمول نچلی ذات کے ہندوؤں سے اجنبیوں جیسا سلوک روا رکھا گیا اور اُن سے ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا لیکن بی جے پی کی حکومت نے بھارت کے سیکولرازم کا بھانڈا سرِعام پھوڑ دیا۔ بی جے پی کی قیادت کا یہ خیال ہے کہ بھارت کی نظریاتی اساس چونکہ اکثریتی ہندو قومیت پر قائم ہے‘ اِس لیے اِس کو عام کرنے اور اِس کا پرچار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اِسی نظریے کے تحت باقی قومیتیں اپنی اپنی حیثیت کا تعین کریں۔ بی جے پی نے 2014ء سے جس انداز سے اپنے ''ہندوتوا‘‘ کے فلسفے پر عمل داری کو یقینی بنایا‘ اُس کا اندازہ بھارت میں مقیم اقلیتوں کی ناگفتہ بہ صورتِ حال سے کیا جا سکتا ہے۔
جدوجہد آزادیٔ ہند کے مرکزی رہنما موہن داس گاندھی بھارت کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جس میں کسی ایک مذہب کا اجارہ نہ ہو۔ ایسی ریاست جس میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی کی مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی اجارہ داری نہ ہو۔ گاندھی اِس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ بھارت میں سیکولرازم مذہبی، ثقافتی اور لسانی ہم آہنگی کے اعتبار سے بہت اہم ہے کیونکہ بھارت میں مختلف نوع کی متعدد قومیں‘ جو مختلف مذاہب و ثقافتوں سے متعلق ہیں‘ اِنہی بنیادوں پر تقسیم ہوتی چلی جائیں گی اور معاشرہ مسلسل تنازعات کا شکار رہے گا۔ گاندھی کی طرح بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی سیکولرازم کے زبردست حامی تھے۔ نہرو بھی یہ سمجھتے تھے کہ بھارت میں بسنے والی تمام قومیں اور قومیتیں‘ جو خواہ کسی بھی مذہب یا ثقافت کی نمائندگی کرتی ہوں‘ ایک چھتری کے نیچے زندگی گزاریں۔ جامع اور کثیر جہتی معاشرتی زندگی درحقیقت بھارت کی بڑی طاقت ہو سکتی ہے اور تمام طبقات مل کر بھارت کی ترقی اور خوشحالی میں حصہ ڈالیں۔ آزادی کے وقت یہ ایک مناسب حکمتِ عملی تھی کیونکہ برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کی آزادی کی بڑی وجہ مذہب، ثقافت اور معاشرتی اقدار تھیں اور بھارت کی سیاسی قیادت یہ ادراک رکھتی تھی کہ ایسی ہی سوچ مستقبل میں بھارت کو مزید تقسیم کر سکتی ہے اِس لئے سیکولرازم کا نظریہ اِس کا بہتر حل ہو ثابت سکتا ہے۔
1976ء میں بھارت کے آئین میں بیالیسویں ترمیم کا نفاذ عمل میں لایا گیا جس میں آئینی طور پر بھارت کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا۔ یوں اِس ترمیم کے بعد بھارت کا آئین مذہب کو ریاست کے معاملات سے الگ معاملہ تصور کرتا ہے یعنی بھارت کے ریاستی معاملات میں مذہب کی کوئی اہمیت نہیں اور آئین کی رو سے اگر مرکزی یا ریاستی حکومت کوئی ایسے فیصلے کرے جس سے سیکولر طرزِ عمل کی نفی ہو تو وہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہو گی۔ آئینی طور پر بھارت ایک ایسی ریاست ہے جس کا کوئی ریاستی یا سرکاری مذہب نہیں ہے۔
جب موہن داس کرم چند گاندھی اور جواہر لعل نہرو بھارتی سیکولرازم کا پرچار کر رہے تھے تو ہندو قوم پرست بھی اپنے سیکولرازم مخالف ہندوتوا نظریات کی ترویج کر رہے تھے۔ وہی ہندو قوم پرست‘ جو آر ایس ایس کے فلسفے کے پیروکار تھے‘ بتدریج اپنی جڑیں مضبوط کرتے رہے اور 2014ء میں انتخابی سیاست کے ذریعے اکثریت کے ساتھ حکومتی ایوانوں میں آ گئے۔ سیکولرازم کے خاتمے کا کریڈٹ بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کو جاتا ہے کہ وہ ہندو قوم پرستوں کے نمائندہ اور بھارت میں ہندو بالا دستی کے سرخیل ہیں اور نہایت تندہی سے سیکولر روایات کا قلع قمع کر رہے ہیں۔
اپنا بین الاقوامی تشخص بہتر کرنے کے لیے گزشتہ چند دہائیوں سے بھارت میں آنے والی حکومتیں اِس تاثر کو عام کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں کہ بھارت ایک سیکولر نظریہ رکھنے والا ملک ہے جہاں لوگ مختلف مذہبی عقائد رکھتے ہیں اور سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ انڈیا میں لوگ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کسی بھی ریاست کی خوبصورتی ہوا کرتی ہے۔ بھارت کی جانب سے بھی یہ بیانیہ عام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ بھارت میں مختلف مذاہب، ثقافتوں، زبانوں اور قومیتوں کا تنوع بھارت کا حُسن ہے۔ اب بھی دُنیا بھر میں بھارت اپنی سفارت کاری کی بنا پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ انڈیا ایک خوبصورت ملک ہے جہاں ہر رنگ و نسل اور مذہب و ثقافت کے لوگ مکمل ہم آہنگی سے زندگی گزارتے ہیں۔ بھارت کا سیکولرازم ایک خوبصورت نظریے یا نعرے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن گزشتہ کئی دہائیوں کے ریاستی رویے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں سیکولرازم صرف آئین کی حد تک موجود ہے اور زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کو ہر طرح کے مذہبی، گروہی، سماجی، معاشی اور ثقافتی امتیاز اور پُرتشدد رویوں کا سامنا ہے۔ گروہی اور مذہبی بنیادوں پر تشدد کے واقعات بھی عام ہیں جس کی بڑی مثالیں 1984ء میں سکھ مخالف تحریک، 1983ء، 1992ء اور 2002ء میں مسلم کش فسادات، 2008ء میں عیسائی مخالف فسادات ہیں۔ اِس کے علاوہ نچلی ذات کے ہندوؤں ساتھ امتیازی سلوک اور پُرتشدد واقعات بھی عام ہیں۔ علاوہ ازیں علیحدگی اور آزادی کی متعدد تحریکیں بھارت کے ریاستی تشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35اے کی منسوخی اور نہتے کشمیریوں پر مظالم اور بدترین ریاستی تشدد بھارت میں اقلیتوں کی صورتِ حال کو بے نقاب کرنے اور بھارتی سیکولرازم کی اصلیت دکھانے کے لیے کافی ہیں۔
بی جے پی کی انتہا پسندانہ روش اور حکمتِ عملی کی وجہ سے بھارت کی تمام اقلیتوں کے حقوق سلب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے بھارت میں سماجی تفاوت روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں بھارت کے اِس رویے کے خلاف دُنیا بھر میں آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھارت میں بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دُنیا بھر میں بھارت کا امیج بر ی طرح متاثر ہو رہا ہے اور یہ بھارت جیسے ملک کے لیے کسی بھی طور مناسب نہیں جو دُنیا بھر میں ایک بڑی منڈی سمجھا جاتا ہے۔
یہ بہت اہم وقت ہے، دُنیا کی بڑی طاقتوں، بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی پر توجہ دینا ہو گی اور اِس اہم مسئلے پر آواز بلند کرنا ہو گی کیونکہ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی مستقبل میں کسی بڑے انسانی المیے کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارت کو بھی ادارک ہونا چاہیے کہ زیادہ دیر تک دُنیا کی آنکھوں میں دُھول نہیں جھونکی جا سکتی۔ کئی سالوں سے جاری ریاستی مظالم اور اقلتیوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک اور اُن کے بنیادی حقوق کی سلبی کے ساتھ سیکولر ریاست ہونے کا راگ نہیں الاپا جا سکتا۔ بھارت کے سیاسی حلقوں، فیصلہ سازوں اور دانشوروں کو اِس ضمن میں سوچ بچار کرنی چاہیے کہ بھارت کے اندرونی استحکام کا راز سیکولرازم میں ہے یا ہندوتوا میں؟کیا ملک کی ترقی میں شریک اقلیتو ں کے حقوق کی پامالی ایک احسن قدم ہو گا؟ بھارت جیسے ملک میں‘ جہاں اکثریتی ہندو برادری بھی ذات پات کے کلچر میں بری طرح لت پت ہے‘ وہاں ''ہندوتوا‘‘ کا پرچار ضروری ہے یا سیکولرازم کی چھتری؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں