پاکستان میں سیاحت کا مستقبل

مر ی کے اندوہناک واقعے نے پوری قوم کو افسردہ کر دیا ہے۔ تقریباً چار ہزار گاڑیوں کی گنجائش والے سیاحتی مقام پر سردیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے لوگوں کی کثیر تعداد نے ہلا بول دیا اور تین دنوں میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں داخل ہو گئیں۔ مسلسل برف باری کی وجہ سے راستے بند ہو گئے اور گاڑیاں اپنے سواروں سمیت‘ جن میں خواتین اور بچے بھی تھے‘ محصور ہو کر رہ گئیں۔ برفانی طوفان کی زد میں آئے قریب بائیس سیاح‘ جن میں دس بچے شامل تھے‘ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔اِس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر مری کے وا قعے کے تین پہلو زیرِ بحث ہیں۔ سب سے پہلے قدرتی آفت کا پہلو ہے۔ قدرتی آفت کی جدید سا ئنسی تکنیک کی مدد سے ایک محتاط پیش بینی ہوسکتی ہے اور اُس کو مد نظر رکھ کر کچھ پیش بندی اور جامع منصوبہ بندی بھی ہوسکتی ہے۔ قدرتی آفت کو ٹالا نہیں جاسکتا کہ انسان کواُن کا سامنا کرنا ہو تا ہے اور اُس کی وجہ سے پیدا شدہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے لیکن کچھ پیش بندی کر کے کسی بھی قدرتی آفت کے غیظ وغضب کو قدرے کم کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا اہم پہلوحکومت کی انتظامی استعدا د اور نااہلی کا ہے۔کیا انتظامیہ میں اتنی استعداد تھی کہ وہ اِس بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والی صورتِ حال پر قابو پا سکتی ؟اگر استعداد تھی تو اس ضمن میں غفلت اور نااہلی کیوں سامنے آئی؟ مثال کے طور پر اگر انتظامیہ کو اندازہ تھا کہ مری میں صرف چار ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے تو پھر ایک لاکھ چونتیس ہزار گاڑیوں کو کیوں داخل ہونے کی اجازت دی گئی؟ جب محکمۂ موسمیات کی جانب سے یہ پیش گوئی کی گئی تھی اور وارننگ بھی جاری کی گئی تھی کہ مری اور ملحقہ علاقوں میں چھ سے سات دن تک مسلسل بارش اور برف باری کا امکان ہے تو ہنگامی حالات سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ یوں سانحۂ مری میں ہونے والے جانی نقصان نے انتظامیہ کی اہلیت پر ایک سوالیہ نشان چھوڑاہے۔ تیسرا اور شاید سب سے اہم پہلو مری میں موجود ہوٹل مافیا کا غیر انسانی رویہ ہے۔ قوم ابھی تک سیالکوٹ سانحے کی بے حسی کو بھول نہیں پائی تھی کہ ہوٹل مافیا کی شدید بے حسی سامنے آگئی۔ سیاحوں اور عینی شاہدین کے مطابق ہوٹل مافیا نے جونہی محسوس کیا کہ شدید برفباری کے باعث لوگ سڑکوں پر محصور ہو گئے ہیں تو اُنہوں نے فوری طور پر رہائش اور خورونوش کی اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ مافیا نے سیاحوں سے‘ جن کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے‘ ایک رات کے لیے ہوٹل کے کمرے کا پچاس ہزار روپے تک کرایہ مانگ لیا جبکہ ایک انڈے کی قیمت تین سو سے پانچ سو روپے اور چائے کے ایک کپ کی قیمت پانچ سو سے سات سو روپے تک وصول کی گئی۔ کچھ سیاح خواتین کے زیورات گروی رکھوا کر وہ قیامت خیز رات گزارنے کے لیے کمرہ حاصل کر سکے۔کسی نے یہ تک نہیں سوچا کہ چھوٹی سی پرانی کا ر میں اپنی فیملی کو گھمانے پھرانے والا شخص ہوٹل میں ایک رات کا پچاس ہزار روپے کرایہ کیسے دے پائے گا؟
میں مری کے سانحہ کے تناظر میں پاکستان میں سیاحت کے مستقبل کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہ رہا تھا اور مذکورہ بالا پہلوؤں کا سیاحت کے فروغ سے گہرا تعلق ہے۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے۔ میں اوائلِ جوانی میں کے ٹو پر مہم جوئی کرنے والی سپین کی ایک دس رکنی کوہ پیما ٹیم کے ساتھ بطور رابطہ آفیسر گیا تھا‘ اس وجہ سے مجھے اس حوالے سے کچھ ایسے تجربات ہوئے جو میں یہاں شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اس ٹیم کے اکثر ارکان پہلی بار پاکستان آ ئے تھے لیکن ٹیم لیڈر پہلے بھی دو مرتبہ پاکستان آچکا تھا۔ ایک دن ہم کھانے کی میز پر بیٹھے تھے تو ٹیم لیڈر نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلند و بالا برف پوش پہاڑ پاکستان کے لیے ایک ایسی دولت ثابت ہو سکتے ہیں جیسے مشرقِ وسطی میں تیل کی دولت ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سیاحت کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرے تو صرف سیاحت سے ہی معیشت کے کئی بڑے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان دُنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک طرف برف پوش پہاڑ اور دوسری طرف تپتے میدانی علاقے اور صحرا ہیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی اور ملک ایسا ہو جہاں بیک وقت درجہ حرارت میں پچاس سے سو ڈگری تک کا فرق موجود ہو۔نہ صرف یہاں پہاڑ، میدان، ساحل اور صحرا موجود ہیں جو سیاحت کے لیے موزوں ہیں بلکہ پاکستان میں ہندوئوں، سکھوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے کئی مقدس مقامات بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے مذہبی سیاحت کے فروغ کا راستہ بھی نکلتا ہے لیکن اِس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہم اپنی سیاحتی پالیسی کو مؤثر بنا نے کے لئے عملی طور پر کیا کرتے ہیں۔
عام طور پر سیاحتی علاقے شہروں سے دُور ہوتے ہیں‘ اِ س لئے حکومتیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مؤثر اور ٹھوس اقدامات کرتی ہیں۔ دُنیا بھر سے مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جب کوئی سیاحتی مقام کسی قدرتی آفت کی زد میں آتا ہے تو وہاں کی انتظامیہ کس تندہی سے متاثرہ لوگوں کی مدد کو پہنچتی ہیں۔ یہ اِس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ سیاحتی علاقے کی انتظامی ساکھ متاثر نہ ہو اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کو یہ یقین ہو کہ وہ کسی بھی وقت بے یارومددگا ر نہیں ہوں گے۔ دوسرایہ پہلو بہت اہم ہے کہ سیاحتی علاقوں میں انتظامیہ تمام سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے، مثال کے طور پر مری ایکسپریس ٹول پلازہ سے لے کر کوہالہ پل تک پبلک ٹوائلٹس نہیں ہیں‘ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم نے سیاحتی علاقوں میں سیاحوں کی سہولت کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا۔ تیسرا اہم پہلو مقامی لوگوں کا سیاحوں سے رویہ ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ سیر کی غرض سے کسی دوسرے ملک میں جانے والے جب لوٹ کر آتے ہیں تو وہ سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر لوگ محبت کرنے والے، اچھے اخلاق سے پیش آنے والے اور مہمان نواز ہوں گے تو اُس سیاحتی مقام پر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
اگرچہ مری کے واقعے کے بعد‘ ملک کے وہ لوگ جو سیاحت کے فروغ کی اُمید رکھتے تھے‘ کو سخت مایوسی ہوئی ہے لیکن میں پُر اُمید ہوں کہ اگر ہم اب بھی کچھ بنیادی اقدامات کر پائیں تو اِس ملک کو سیاحوں کی جنت بنایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ایک جامع سیاحتی پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ ہمیں انٹر نیشنل سیاحت سے پہلے ڈومیسٹک سیاحت کو فروغ دینا ہوگا۔جس ملک کے اپنے لوگ اپنے وطن کے کسی خوبصورت مقام کا سفر اور وہاں سیاحت نہ کرسکیں یا ایسا کرتے ہوئے خود کو محفوظ نہ سمجھیں تو کسی دوسرے ملک سے آکر کون وہاں سیاحت کرے گا؟ اِس لیے ضروری ہے کہ ہم سیاحت کوسب سے پہلے اپنے عوام کے لیے معاشی، سماجی اور ثقافتی طور پر ساز گا ر بنائیں۔ اگر ہم یہ کر سکیں تو بہت بڑی تعداد میں اپنے ملک کے لوگوں کو سیاحت پر مائل کر سکیں گے۔ جن علاقوں کو سیاحتی مقام کا درجہ دے دیا جائے وہاں پر تمام سہولتوں کو یقینی بنایا جائے اور وہاں پر رہائش اور خورونوش کی اشیا کی قیمتوں کا تعین ایک ضابطے کے تحت کیاجائے اور اُس پر عمل درآمدکے لیے بھی ٹیم تشکیل دی جائے۔ وزیر اعظم صاحب کئی بار اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو فروغ دے کرمعیشت کو بہتر بنایاجائے گا لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ درست سمت میں قدم اُٹھایا جائے، مؤثر پالیسی سازی کی جائے اور اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ یہ کام بھی بہت اہم ہے کہ مری جیسے واقعات کو روکنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے تاکہ لوگوں کا ریاست اور انتظامیہ پر اعتماد بحال ہو۔ سات دہا ئیاں گزر چکی ہیں ‘ اب تک ہم صرف باتیں کر رہے ہیں‘ اب عمل کا وقت آن پہنچا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں