سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں

معیشت کی سوجھ بوجھ رکھنے والے دانش مندوں کے خیال میں کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری‘ برآمدات اور ترسیلاتِ زر بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سرمایہ کاری ان تین عناصر میں ایک اہم عنصر ہے کہ اس سے معاشی ترقی کے بیشتر اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ سرمایہ کاری سے معیشت میں استحکام لایا جا سکتا ہے‘ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں‘ مختلف نوع کی صنعتوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جا سکتا ہے‘ ملک کی مجموعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ جو لوگ پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے جنت قرار دیتے ہیں‘ وہ بھی درست سوچتے ہیں۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان کسی بھی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی فیورٹ ملک ہو سکتا ہے کہ یہاں توانائی سے لے کر زراعت‘ آئی ٹی سے لے کر ہر طرح کی صنعت میں سرمایہ کاری کے وافر مواقع موجود ہیں مگر اس کے لیے ہمیں ملک میں سیاسی‘ معاشی اور سماجی فضا کو ساز گار بنانے کی طرف سنجیدگی سے پیش رفت کرنا ہوگی کیونکہ ساز گار ماحول میں ہی سرمایہ کاری کا فروغ ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر آپ دنیا کے کسی ملک بھی میں ہونے والی معاشی ترقی کا تناسب دیکھیں تو آپ کو اس ملک میں سرمایہ کاری کا داخلی حالات کے ساتھ گہرا تعلق نظر آئے گا۔ کاروباری برادری کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں اور ان کو دُور کیے بغیر ہم ملک میں سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیا ب نہیں ہو سکتے اور ملک کو معاشی اعتبار سے مضبوط کرنے کے اہداف بھی حاصل نہیں کر سکتے۔
کاروبار اور سرمایہ کاری کا عمومی تعلق نجی شعبے سے ہوتا ہے اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے مفادات اور اُمیدیں بھی ہوتی ہیں اور ایک طرح سے یہ اُس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں کہ حکومتی سرپرستی‘ حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے بغیر ملک میں سرمایہ کاری کے لیے مناسب فضا قائم ہو سکے۔ حکومت کا بہرطور ایک ریگولیٹر یا سٹیک ہولڈر کے طور اپنا اہم کردار ہوتا ہے اور اِس ضمن میں حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ اُن تمام مسائل کا ادراک کرے جو سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہیں اور اُن مسائل کے حل کے لیے مناسب اقدامات بھی کرے۔
سرکاری سطح پر سرمایہ کاری کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کے افراد کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پاکستان سرمایہ کاروں کی جنت ہے اور یہاں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ضرورت پڑنے پر بہت سے ضروری اقدامات بھی اُٹھائے جاتے ہیں جبکہ سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کا خیال ہے کہ گو کہ پاکستان سرمایہ کاروں کی جنت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے کثیر مواقع بھی موجود ہیں لیکن اِس ضمن میں بہت سے اہم اقدامات کی اب بھی ضرورت ہے جو ملک میں سرمایہ کاروں کے جائز کاروباری مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اُن کا اعتماد بحال کرنے کے لیے از حد ضروری بھی ہیں۔
پاکستان میں کچھ ایسی پالیسیاں اور آپریشنل سطح کی پیچیدگیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے ملک کے اندر سرمایہ کاری کے حوالے سے تحفظات جنم لیتے ہیں جس سے اکثر اوقات ملک میں کاروبار سے منسلک لوگ نالاں دِکھائی دیتے ہیں۔ بیرونِ ملک سے آنے والی ممکنہ سرمایہ کاری پر بھی اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ سرمایہ کاری نہ ہونے یا کم ہونے کی بہت سی تکنیکی وجوہات ہیں جن میں کم آمدنی‘ کمزور مالیاتی منڈی‘ ٹیکس کے مسائل‘ غیر رسمی معیشت اور بہت سے قانونی پیچیدگیاں شامل ہیںل یکن میری رائے میں اس راہ میں دو بڑے مسائل حائل ہیں اور جن کے حل کے لیے اگر کوشش کی جائے تو رفتہ رفتہ باقی مسائل کے حل کی طرف بھی بڑھا جا سکے گا۔ وہ دو بڑے مسائل سکیورٹی اور کاروبار کرنے کی آسانی اور سہولت کاری کا میکانزم ہیں۔
سکیورٹی سرمایہ کاری کے لیے پہلی اور نہایت ضروری شرط ہے۔ سکیورٹی کو دو تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ سکیورٹی کا مطلب کہیں بھی لگائے جانے والے سرمائے کا تحفظ ہے۔ یعنی وہ میکانزم ہے جس کے تحت کسی بھی ملک میں سرمایہ محفوظ ہو اور سرمایہ کار کے مفادات کو یقینی بناتا ہو۔ دوم یہ کہ اُس ملک میں عمومی طور پر وہاں پر لوگوں کے تحفظ اور امنِ عامہ کی صورتِ حال کیا ہے۔ کوئی بھی سرمایہ دار کسی ایسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کر ے گا جہاں امن و امان قائم نہ ہو اور جہاں اُس کی جان اور مال کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہو۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ملک میں متعدد بار مختلف مواقع پر چین کے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا جس سے چین سے گہری دوستی کے باوجود چینی سرمایہ کاری پر منفی اثر پڑا ہے۔ چند دن پہلے بیرون ِملک سے آئے ایک بزنس مین نے مجھ سے کہا کہ آپ کے ملک میں سکیورٹی کے حوالے سے دِکھائی دینے والے مناظر ٹھیک نہیں ہیں۔ جس ملک میں شہر کے ہر بڑے چوراہے پر ایک بندوق بردار کھڑا رہے گا وہا ں کوئی بھی بزنس مین یا سرمایہ کار آنے سے کترائے گا۔ امن و امان اور سیاسی استحکام کی بہتر صورتِ حال سے ہی سرمایہ کاروں کو باور کروایا جا سکے گا کہ یہ ملک کاروبار کے لیے سازگار ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں کاروبار کرنے کی آسانی اور سہولت کاری کا فقدان ہے۔ کاروباری طبقہ سمجھتا ہے کہ اِس ملک میں کاروبار کرنا آسان نہیں ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کچھ ادارے ہیں جو اِس کام پر مامور ہیں کہ وہ ملک میں بزنس کے فروغ کے لیے کام کریں لیکن وہی ادارے کاروبار کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ کاروبار کے لیے پیچیدہ قوانین‘ رشوت‘ بدعنوانی اور کسی مسئلے کے حل کے لیے کوئی موثر پلیٹ فارم نہ ہونا بھی مشکلات کا سبب ہے۔ کوئی بھی شخص جو کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے یا وہاں کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ چاہے گا کہ اُس کو وہاں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور متعلقہ ادارے اُس کی مدد و معاونت کریں اور ترجیحی بنیادوں پر اُس کے مسائل حل کریں۔ کاروبار کی آسانی کے لیے چند عناصر بہت اہم ہیں‘ اُن میں سیاسی استحکام‘ موثر ریگولیٹری فریم ورک‘ صحت مند مقابلے کی فضا‘ ہنر مند لوگ‘ انفراسٹرکچر اور کاروبار کرنے والوں کے لیے ایسے قوانین کو رائج کرنا جو اُن کے لیے اپنے کاروبار کو شروع کرنے اور اُسے جاری رکھنے میں معاون ہوں اور یہ سب ریاستی اداروں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
حکومت اور کاروباری طبقہ کاروبار اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کاروباری برادری سے مل کر ایک ایسا موثر فورم تشکیل دے جس میں ملک کے اندر متعلقہ اداروں اور کاروباری طبقے کی نمائندگی ہو۔ یہ فورم ملک کے اندر کاروبار اور سرمایہ کاری کی عمومی فضا کو مثالی بنانے کے لیے فریم ورک بنائے اور ایسے اقدامات کرے جس سے سرمایہ کاروں کے تحفظات دُور ہوں اور ان کا ریگولیٹری فریم ورک پر اعتماد بڑھے۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاری صرف اُس صورت میں ممکن ہوگی جب ملک میں بسنے والے کاروبار سے منسلک لوگوں کا نظام پر اعتماد پختہ ہوگا۔ ہمیں بیرونِ ملک دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کو یقین دلانا ہوگا کہ پاکستان میں ان کے جان ومال محفوظ ہیں‘ ان کا سرمایہ محفوظ ہے اور ان کی پاکستان میں سرمایہ کاری ان کے لیے منفعت کا باعث ہوگی ۔ بصورتِ دیگر پاکستان کو سرمایہ کاروں کی جنت گرداننے والے احمقوں کی جنت کے باسیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں