کانگریس کے دو جنرل سیکرٹریز کی کھلی بحث نے اب اس حقیقت پر مہر لگا دی ہے کہ اقتدار کے ایک نہیں، دو مراکز ہیں۔ دوسرے سیکرٹری نے پہلے سیکرٹری کے بیان پر جرح ضرور کی ہے لیکن اس نے بھی اقتدار کے دو مراکز کی بات کو صحیح بتایا ہے۔ پہلا سیکرٹری کہتا ہے کہ اس ملک میں اقتدار کانگریسی صدر اور وزیراعظم میں منقسم ہے۔ یہ دونوں مرکزی ماڈل ناکام ہوگئے ہیں، جو بھی وزیراعظم ہو، اسے کام کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ دوسرے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ کانگریسی صدر اور وزیراعظم کے تعلقات کا یہ ماڈل مثالی ہے۔ یہ اب بھی صحیح ہے ا ور مستقبل میں بھی شاید صحیح ہو۔ سب سے پہلے تو میں دونوں جنرل سیکرٹریز دگ وجے اور جناردن ودویدی کو مبارک باد دوں گا کہ انہوں نے ایک صحت مند بحث کی شروعات کی، ہندوستان کے لیے ہی نہیں، دنیا کی دیگر جمہوریتوں کے لیے بھی اس بحث کی بڑی افادیت ہے۔ جن جن حکومتوں میں اقتدار کے متوازی مرکز ہیں، وہ کیوں ہیں؟ کیا وہ صحیح ہیں؟ اور ان سے کیا کیا فوائد اور نقصانات ہیں؟ ان سب سوالات کے حل اس بحث سے نکل سکتے ہیں۔ جہاں اقتدار کے متوازی مرکز ہوتے ہیں، وہاں زبردست مقابلہ چلتا ہے اور ہمیشہ تختہ الٹ پلٹ جانے کا امکان رہتا ہے لیکن ہندوستان میں کچھ عجوبہ ہی ہورہا ہے۔ یہاں نہ تو مقابلہ ہے اور نہ ہی تختہ الٹ پلٹ جانے کا خدشہ، تو پھر یہ کھیل کیا ہے؟ صرف ہندوستان میں ہی نہیں‘ کئی ملکوں میں اقتدار کے ایک سے زیادہ مراکز رہے ہیں مثلاً پاکستان میں آصف زرداری اور بلاول، نیپال میں پرچنڈ اور بھڑائی، افغانستان میں ظاہر شاہ اور سردار دائود، اتر پردیش میں ملائم سنگھ اور اکھلیش وغیرہ کی صورت میں ایک سے زیادہ نمونے ہمیں دستیاب ہیں۔ ہندوستان کا معاملہ تو سچ مچ ’منفرد‘ ہے کہ یہاں اقتدار کے مرکز دو نہیں‘ ڈھائی ہیں۔ ڈھائی مراکز کا یہ اقتدار اب ماں، بیٹے اور سردار میں بٹا ہوا ہے۔ دویدی جی ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ مثالی ہے۔ ان ڈھائی مراکز میں آج تک کوئی تصادم کی خبر نہیں ملی، ہر مرکز اپنی حدود میں رہا، کسی نے بھی اپنی حدود نہیں پھلانگی۔ اختلافات ہوئے، ہند امریکہ جوہری سودے پر‘ منریگا پر، بہت سے دوسرے چھوٹے موٹے مسائل پر بھی‘ لیکن دل صاف تھے، کبھی جھگڑا نہیں ہوا، مگر ڈھائی مراکز کے اس اچانک اقتدار کا راز کیا ہے؟ دنیا کے اس آٹھویں عجوبے کے پیچھے کونسی ریاضی کام کررہی ہے؟ یہ ریاضی ہے، عرفانی یعنی خداداد علم۔ جہاں یہ علم آ جائے، وہاں ریاضی صفر ہو جاتی ہے، سونیا اور منموہن دونوں ہی روشن خیال ہیں، دونوں کو بھلی سمجھ ہے کہ یہ جو اقتدار ان کے پاس ہے، یہ خام خیالی ہے۔ یہ ان کے پاس ان کی وجہ سے نہیں ہے، کسی اور وجہ سے ہے۔ قسمت سے ہے۔ اس کو فلسفہ میں ’کوے کا انصاف‘ کہتے ہیں کہ جیسے ہوا کے ایک جھونکے سے شاخ گر جائے، جیسے کوے کے وزن سے تال کی ڈال ٹوٹ جائے، جیسے چنے کے چبانے سے داڑھ کا چورا ہوجائے۔ جو اس اتفاق کو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں، وہ اقتدار کے نشہ میں مست ہوجاتے ہیں، اقتدار کے مرکز میں نہیں، حاشیہ پر رہتے ہوئے بھی وہ ہاتھ پائوں مارتے رہتے ہیں اور اگر وہ مرکز میں یا اس کے قریب آجائیں تو ہمیشہ تختہ پلٹ کے فراق میں رہتے ہیں، یہاں تو تخت ہی نہیں ہے۔ تخت پر کوئی بیٹھا ہی نہیں ہے، آپ الٹیں گے کیا؟ جنہیںآپ رہنما کہتے ہیں، وہ رہنما کا کردارادا کررہے ہیں۔ جیسے ادب میں شاعری ہوتی ہے، ویسے ہی سیاست کو ہندوستان نے لیڈر دیئے ہیں، وہ اپنی صلاحیت کے مطابق جو کچھ بہترین کرسکتے ہیں، کررہے ہیں۔ اگر وہ واقعی لیڈر ہوتے تو اس سے پہلے کہ عدالت منہ کھولتی، وہ اپنے بدعنوان وزیروں پر ٹوٹ پڑتے، اپنی طاقت کا استعمال کرتے، نربھیا کی عصمت دری سے بلبلائے ملک کو وقت پر تسلی دیتے، رام لیا میدان کے عدم تشدد ستیاگر ہویو پر جان لیوا حملہ کرنے سے باز آتے اور دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے لیکن ہمارے لیڈر روشن خیال ہیں، بے فکر ہیں، لاتعلق ہیں۔ ان کی بلا سے اقتدار آئے یا جائے، وہ خام خیالی ہے، اقتدار تو زہر ہے، یہ روشن خیالی انہیں پہلے سے دستیاب ہے، کیا اقتدار کا یہ ماڈل دنیا میں کہیں اور نظر آتا ہے؟ اس لیے جو جناردن ودویدی کہتے ہیں وہ صحیح کہتے ہیں۔ تو کیا دگوجے غلط ہیں؟ نہیں نہیں، وہ بھی درست ہیں، ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے کانگریس کی دکھتی رگ پر انگلی دھر دی ہے، اقتدار ناشناس قیات کی تصویر روزانہ پتلی ہورہی ہے، ہر عام کانگریسی کارکن اسے اچھی طرح سمجھ رہا ہے لیکن وہ بولے کس سے؟ وہ روئے کہاں جا کر؟ یہ تو ظاہر ہے کہ اقتدار کے مرکز کی لکشمن ریکھا نہیں پار کررہے ہیں لیکن ریکھا تو وہ تبھی کھینچیں گے، جب وہ چل پھر سکتے ہوں۔ وہ تو مجبور ہوگئے ہیں، مفلوج ہیں۔ اقتدار کے بٹ جانے کا مطلب بالکل الگ تھلگ ہوجانانہیں ہے۔ دگی دادا مطالبہ کررہے ہیں کہ وزیراعظم کے پاس مکمل اقتدار ہونا چاہیے۔ یعنی وزیراعظم کا اقتدار صفر کیوں ہے؟ کانگریسی صدر کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی بات کہنے کا حوصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کانگریسی صدر کی پاسداری کے قصیدے پڑھے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا، جو ہم نے اس مضمون میں اوپر کہا ہے یعنی جنہیںاقتدار کا استعمال کرنا چاہیے، انہیں کوئی روک نہیں رہا ہے، پھر بھی وہ اس کا استعمال نہیں کررہے ہیں؟ تو کیا اقتدار کا موثر استعمال تبھی ہوتا ہے جب پارٹی اور حکومت کا لیڈر ایک ہی ہو؟ کانگریس کا صدر اگر مختلف ہو تو بھی وہ دیوکانت بروا جیسا ہوگا جو کہے کہ اندرا ہی ہندوستان ہے۔ کانگریس کی یہی روایت ہے۔ اگر وہ راہول کو اسی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ وہ مستقبل کی آواز بول رہے ہیں، لیکن کانگریس کا مستقبل کتنا روشن ہے؟ مستقبل کے لیڈر کی نظر میں اقتدار تو زہر ہے۔ اگر کانگریس تیسری بار اقتدار میں آگئی تو یہ زہر بانٹ کر ہی پینا ہوگا، تب پتہ نہیں، یہ کس کس میں تقسیم ہوگا؟ کیا اب نہرو، اندارا، راجیو اور نرسمہا رائو کے دن واپس آسکتے ہیں؟ ڈر یہی ہے کہ سال بھر بعد کانگریس میں اقتدار کے مراکز کی نہیں بلکہ وجود کے بحران کی بحث کہیں شروع نہ ہوجائے۔آئی این ایس انڈیا (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)