"DVP" (space) message & send to 7575

بالا تر کون؟ پارلیمنٹ یا سیاست

یہ 15ویں لوک سبھا بھی کیا لوک سبھا ہے ؟ ایسی لوک سبھا تو چینی حملے کے بعد، ایمرجنسی یا بوفورس گھوٹالے(سکینڈل) کے دوران بھی نہیں رہی۔ اس حکومت میں اقتدارکی خواہش اتنی کم ہوگئی ہے کہ اس کے اپنے ارکان پارلیمنٹ نے رواں اجلاس میں اس کی رمق ختم کردی ہے۔کیا آپ نے کبھی سناہے کہ برسراقتدار جماعت کے ارکان پارلیمنٹ اپنی حکومت کے خلاف ہی نعرے لگارہے ہوں؟ اتناہی نہیں،اپنی ہی سرکارکے خلاف عدم اعتمادکی تجویز بھی لارہے ہوں۔ پارلیمنٹ کے اس آخری اجلاس کی جو بری حالت ہورہی ہے اسے پورا ملک دیکھ رہا ہے ۔ یہ کیسی حکومت ہے جس نے تلنگانہ کے پھٹے(تنازع) میں اپنا پاؤں پھنسا لیاہے اوراتنا تیز دوڑنا چاہتی ہے کہ اس مختصر اجلاس میں وہ تلنگانہ کا بل پاس کرانے پر آمادہ ہے ۔ تلنگانہ پرکانگریس پارٹی کی اندورنی بغاوت کا مزہ مخالف جماعتیں جم کراٹھا رہی ہیں۔ حکمران جماعت کی حامی جو جماعت اس بل کے حق میں ہے وہ بھی تماشا دیکھ رہی ہے ، وہ کانگریس کوذرا سا بھی کریڈٹ لینے دینا نہیں چاہتی ۔ سیماندھر تو کانگریس کے ہاتھ سے نکل ہی گیا ، مخالف جماعتوں کی دلی آرزوہے کہ تلنگانہ میں بھی اس کو پاؤں ٹکانے کی جگہ نہ ملے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس اِدھر ساحل، اُدھر طوفان، دونوں سے ٹکرا جائے ۔
مخالف جماعتوں کی اس خواہش میں بربریت جھلکتی ہے ، لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس کی ساری ذمہ داری کانگریس کی ہے ۔ تلنگانہ کو علیحدہ ریاست بنانا اسی وقت کیوں ضروری ہے؟ انتخابی سال میں کانگریس شاید اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھناچاہتی ہے، سیماندھر اورتلنگانہ دونوں کو خوش کرکے اس بار موجودہ آندھرا کی تمام سیٹوں پر قبضہ کرناچاہتی ہے لیکن چوبے جی، چھبے جی بننے لگے ۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ملک کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی پارٹی کی قیادت غیر سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں ہے ۔ اس حکومت کا بھی یہی حال ہے ، پرناب مکھرجی جیسے تجربہ کار رہنما کی رہنمائی سے محروم ہونے کی وجہ سے حکومت اور کانگریس کا دوطرفہ نقصان ہے ۔ اگر کانگریس کے پاس دوربین سیاسی نظر ہوتی تو وہ تلنگانہ کا اعلان کرنے سے قبل دونوں فریقوں کو ہمنوا بنالیتی اور آندھرا کی تقسیم کی لگام انہی کے ہاتھوں میں تھما دیتی ۔ اس کے باوجود اگر پارلیمانی جماعت میں کچھ بے اطمینانی ہوتی تو وہ اپنے آزمائے ہوئے پرانے داؤ کا استعمال کرتی، لیکن ابھی وہ بیٹھے بیٹھے اپنا سرد ھن رہی ہے ۔
مخالف جماعتیں بھی کمر کسے ہوئے ہیں کہ انتخابات کی اس گھڑی میں کانگریس کو کوئی ایسا قانون پاس نہیں کرنے دینا ہے جس کے تحت وہ ووٹوں کی فصل کاٹ سکے ۔ ابھی گیارہ جماعتوں نے پارلیمنٹ میں جو تیسرا مورچہ بنایا ہے، اس کا فی الحال مقصد یہی ہے ۔ سب کی اپنی اپنی سیاست ہے ، اس کے لیے پارلیمنٹ خود مختار تو ہے لیکن سیاست اس سے بھی بڑی ہے ۔کسی بھی جماعت نے یہ خیال نہیں کیا کہ اس 15ویں لوک سبھا نے اب تک صرف 165بل پاس کیے ہیں، ابھی126بل زیرالتوا ہیں۔ اس دو ہفتے کے اجلاس میں یہ پارلیمنٹ کتنے بل پاس کرے گی؟ وہ جوبھی بل پاس کرے گی کیا اس کے ساتھ انصاف کرے گی؟ اس کے علاوہ مارچ کا مہینہ سرپر ہے، مطالبات زر بھی پاس کراناہیں ۔ اس کے بغیر 31مارچ کے بعد حکومت کیسے چلے گی؟ مطالبات زر تو جیسے تیسے
پاس ہوجائیں گے کیونکہ اس میں سب کا برابر کا مفاد ہے لیکن تقریباًتین درجن بل ایسے ہیں جن کا موجودہ سیاست سے گہرا تعلق ہے ۔ اگر انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل اور اینٹی کرپشن بل پاس ہوگئے تو وہ کانگریس کی ڈوبتی کشتی کا سہارا بن سکتے ہیں۔ لیکن مخالف جماعتوں کا کہناہے کہ جس پارٹی نے آزاد ہندوستان میں سب سے زیادہ بدعنوان ہونے کا خطاب حاصل کیا ہے ، وہ اس پارٹی کو یہ کریڈٹ کیوں لینے دیں؟ جہاں تک انسدادفرقہ وارانہ تشدد بل کا سوال ہے ، اس میں اب تک کئی ترمیمات ہوچکی ہیں، صرف بی جے پی ہی اس کی جم کر مخالفت نہیں کررہی بلکہ تیسرے مورچہ کی خاص جماعتیں بھی اسے قابل اعتراض سمجھتی ہیں۔ اس میں سماج وادی پارٹی اور مارکسوادی پارٹیاں بھی شامل ہیں ، اس لیے لگتاہے کہ پارلیمنٹ کا یہ اجلاس سیاست کی نذر ہوجائے گا۔
پارلیمنٹ نیچے اور سیاست اوپر۔۔۔ اس شور کا نتیجہ کیا ہوگا؟ جو بل برسوں سے التوامیں تھے وہ قانون بننے کی منزل پرآئے تو ان پر اب پالا پڑجائے گا۔ وہ اب نئے سرے سے لوک سبھا میں دوبارہ پیش ہوں گے ، یعنی آئندہ پارلیمنٹ کا وقت ضائع کیاجائے گا۔ پارلیمنٹ کا وقت تو خراب ہوگا ہی ، ان بلوں کے پاس ہونے سے جو فائدہ شہریوں کو ابھی سے ملنے لگتا اب وہ پتا نہیں کب سے شروع ہوگا؟ ذرا خیال کریں۔۔۔ معذوروں ، ریڑھی پٹاری والوں سے متعلق بلوں کا
التوا میں پڑنا کیا ایک طرح کی بربریت نہیں ہے ؟ اسی طرح بدعنوانی کو روکنے سے متعلق تقریباً نصف درجن بل ہیں مثلاً شہریوں کو معینہ وقت میں سرکاری خدمت دینا، عوامی شکایت کا حل نکالنا، رشوت لینے اوردینے کی ممانعت ، غیرملکی سرکاری افسروں کو رشوت دینے پر پابندی وغیرہ کئی ایسے بل ہیں جن کے پاس ہوجانے پر لوک پال قانون میں ناخن اوردانت اُگ آئیں گے ۔ ورنہ لوک پال نہیں، دھوک پال یا جوک پال بن کر رہ جائے گا۔ حکومت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپوزیشن سے کھل کر بات کرے اور انہیں بھی ان بلوں کو قانون بنانے کا پوراکریڈٹ لینے دے ۔ اگر ورک کیٹا لاگ میں بتائے گئے 39بلوں میں سے 25-30بھی پاس ہوگئے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی اورسمجھاجائے گا کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کے وقار کا تحفظ کیا ہے ۔ مخالف جماعتوں کو میں ایک مشورہ اور بھی دیناچاہوں گاکہ انہیں یہ تومعلوم ہی ہے کہ کانگریس اس وقت کوئی بل پاس کروالے ، کوئی بھی چمتکار کردے ، یا عوام کے منہ میں کتنا ہی بڑا رس گلہ رکھ دے عوام ان انتخابات میں اسے کچا چبا ڈالیں گے ۔ مخالف جماعتوں کے دونو ں ہاتھوں میں لڈو ہی لڈو ہیں ، تو پھر وہ کیوں نہیں پارلیمنٹ چلنے دیتیں اور ملک کے مفاد کے لیے قانون پاس کیوں نہیں ہونے دیتیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں