نریندر مودی کی حلف برداری جتنی کامیاب اور بامقصد رہی، اس سے پہلے بھارت کے کسی بھی وزیر اعظم کی نہیں رہی۔ وزرا کے چنائو اور انہیں وزارتیں تفویض کرنے کے بارے میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں۔ مجھے ڈر تھا کہ سارک ملکوں کے سربراہوں کے بھارت آنے پر کوئی ناپسندیدہ واقعہ نہ پیش آ جائے۔ اس لئے جب وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دہلی پہنچنے پر ٹی وی چینلوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ تقریب حلف برداری سے پہلے ہی پریس کانفرنس کی اجازت چاہتے ہیں‘ تو میرا فوری ردِ عمل یہ تھا کہ میاں صاحب کو ایسی کوئی پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اس صورتحال میں کوئی قابل مباحثہ مدعا نہیں اٹھائیں گے اور صحافی تو صحافی ہیں‘ وہ کوئی ایسا سوال بھی اچھال سکتے تھے‘ جو ان کے دورۂ بھارت کا مزا کرکرا کر دیتا۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اس مطالبے کو ٹال دیا۔ حلف برداری کے موقع پر سبھی پڑوسی ممالک کے سربراہان اور ماریشئس کے سربراہ کا آنا بہت اچھا رہا۔ سب کے ساتھ دوطرفہ امور پر ایک ہی دن میں بات چیت ہو گئی۔ بات چیت کی جو تفصیل وزارت خارجہ نے جاری کی‘ اس سے لگتا ہے کہ تعلقات کو بہتر بنانے والے معاملات زیر غور آئے۔ دوسرے لفظوں میں اس موقع کا فائدہ سبھی ملکوں کو حاصل ہوا ہے۔ باہمی تعلقات کے نئے کشادگی بھرے راستے بھی کھل گئے ہیں۔ سارک کے رکن ممالک کی تعداد بڑھانے کا ماحول بنا ہے۔ مناسب ہو گا کہ ایران اور برما کے ساتھ ساتھ ماضی کی سوویت یونین کے پانچ ایشیائی جمہوری ملکوں کو بھی اس تنظیم میں جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ ماریشئس کے تنظیم کے ساتھ جڑنے پر یہ تعداد 16 ہو جائے گی۔ اگر نریندر بھائی کی حلف برداری کا موقع ایسی عظیم سارک تنظیم کی بنیاد کا ستون بن جائے تو اچھا ہو گا۔ ایک مضبوط سارک مستحکم بھارت اور بہتر پاک بھارت تعلقات کے ساتھ اقوام متحدہ سے بھی بڑی چیز ہوگی۔ اگر ان سولہ ملکوں کا ساجھا بازار اور ساجھی پارلیمنٹ ہو تو یہ علاقائی تنظیم دنیا کی نہایت طاقتور تنظیموں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کا نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں آنا اہم ترین پیش رفت ہے۔ اس سے نہ صرف خود ان کا قد اونچا ہوا بلکہ مودی کو بھی تقویت ملی۔ پاکستان میں نریندر مودی کے حوالے سے جو سخت رویہ ہے، وہ بھی نرم پڑا ہو گا۔ نواز شریف سیاسی طور پر بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھارت آ کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ایسے ہر دل عزیز لیڈر ہیں، جس کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کے آنے سے پاکستان کی جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ وہ بھارت آ کر خوش ہوئے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کے بیچ بات چیت اچھی رہی۔ کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔ دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ اب بات چیت کا سلسلہ باقاعدہ آگے بڑھائیں گے۔ میاں نواز شریف اور نریندر بھائی اپنے اپنے ملکوں میں بھاری اکثریت سے جیتے ہیں اور دونوں ہی اپنے اپنے ملکوں کے وطن پرست لیڈر مانے جاتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ دونوں کی یہ جُگل بندی رنگ لائے گی اور جنوب ایشیا کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔
نریندر مودی اور ان کے نو منتخب وزرا نے پہلی بیٹھک میں ایک تاریخی فیصلہ کیا لیکن اس کے لیے پہلے مبارک ہمیں سپریم کورٹ کو دینی ہو گی اور پھر مودی سرکار کو۔ کورٹ نے مرکزی سرکار کو حکم دیا تھا کہ وہ بیرونی ممالک سے بلیک منی واپس لانے کے لیے ایک خاص جانچ کمیٹی قائم کرے۔ یہ حکم جولائی 2011ء میں دیا گیا تھا لیکن من موہن سرکار تین سال تک کنبھ کرن کی طرح نیند میں سوتی رہی۔ عدالت نے دوبارہ تین ہفتے کی مہلت دی۔ اس بار بھی وہ عمل نہ کر سکی۔ عدالت نے پھر ایک ہفتہ کا موقع دیا۔ من موہن سرکار چاہتی تو جانچ کمیٹی کوئی مشکل کام نہ تھا‘ لیکن یہ سہرا مودی سرکا ر کے سر بندھنا تھا سو بندھ گیا‘ اس لیے سپریم کورٹ کے ساتھ اس کو بھی بدھائی۔ بلیک منی نے اس ملک میں زبردست کھلبلی مچا رکھی تھی۔ بابا رام دیو کی تحریک نے من موہن سرکا ر کی وداعی طے کر دی تھی۔ رام جیٹھ ملانی جیسے تیز طرار وکیلوں کے وکیل کو بھی مبارک جن کی دلیلوں نے من موہن سرکار کو ڈھیر کر دیا اور عدالت کو مجبور کر دیا کہ وہ کالے دھن کو واپس لانے کے لیے سرکار کے کان کھینچے۔
اس مخصوص جانچ ٹیم میں ایسے سابق ججز اور افسر رکھے گئے ہیں جو بیرونی ملکوں میں چھپائی گئی بھارتی بلیک منی کو کھوج نکالنے میں کوئی کمی نہ چھوڑیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے تین سال میں کیا سارا کالا روپیہ خورد برد نہیں ہو گیا ہو گا؟ کیا کالے دھن والوں کو من موہن سرکار نے اپنے نکمے پن سے جو موقع دیا‘ اسے انہوں نے گنوا دیا ہو گا؟ اگر ایسا ہو چکا ہے تو بھی ایک اندازے کے مطابق ہمارا کئی لاکھ کروڑ کا کالا دھن دوسرے ممالک کے بینکوں
میں جمع ہے۔ اگر وہ ضبط کر لیا جائے تو مودی سرکار کے پاس اتنا پیسہ اکٹھا ہو جائے گا کہ اگلے دس سال تک بھارتی عوام کو کسی بھی طرح کا ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ اس جانچ ٹیم سے عدالت کی توقعات یہ بھی ہیں کہ وہ کالے دھن کی پیداوار روکنے کے طریقے بھی بتائے۔ میرے خیال میں اس جانچ ٹیم کو کوئی ڈیڈ لائن بھی دے دی جاتی تو اچھا رہتا۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر کالے دھن کے محتاج رہے ہیں۔ نئی سرکار کے راستے میں بھی طرح طرح کے روڑے اٹکائے جائیں گے لیکن نریندر مودی سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اقتصادیات کو ایسی صورت دیں کہ لوگوں کی کالا دھن پیدا کرنے کی دلچسپی ہی ختم ہو جائے۔
نریندر مودی سرکار نے اپنے سرکاری کام کاج کی شروعات کے سلسلے میں جس مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے بہت امیدیں بندھی ہیں۔ سارک ملکوں کا پروگرام، کالے دھن کے لئے جانچ ٹیم، ریل حادثہ پر ریلوے وزیر کو دوڑانا وغیرہ وہ اقدامات ہیں، جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کئی بڑے معجزاتی کام کر سکتی ہے۔ آج پتہ چلا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر سے سبھی منسٹروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں کو ذاتی مدد کے لئے اپنی وزارت میں نہ رکھیں۔ یہ حکم لاثانی ہے۔
سونیا، من موہن عہد میں بربادی کی ایک وجہ کرپشن بھی ہے۔ بے ایمانی اور فریب کو بڑھاوا دینے میں چوری چھپے سرگرمیوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ دور اندیشی فریب کی دشمن ہے۔ پارلیمنٹ اور وزرا اپنے رشتے داروں کو ذاتی مدد کے لیے عہدے اس لیے دیتے ہیں کہ ان کی بے ایمانی، کرپشن اور بدسلوکی پر پردہ پڑا رہے۔ پچھلی سرکار میں ڈیڑھ دو سو اراکین پارلیمان ایسے تھے، جو اپنے رشتے داروں کو سرکاری پوسٹوں پر لگواتے تھے‘ ان کے نام پر تنخواہ وغیرہ لیتے تھے۔ ایسی تقرری کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے؛ تاہم پچھلے سال اکتوبر میں راجیہ سبھا کی انجمن نے تجویز منظور کر کے رشتے داروں کو سرکاری عہدوں سے دور رکھنے کی سفارش کی تھی‘ لیکن سفارش کون مانتا ہے۔ حکومت کا کام تو ڈنڈے سے ہی چلتا ہے۔ جو لوگ ڈنڈے سے حکومت چلاتے تھے، اب مودی نے انہی پر ڈنڈا مار دیا ہے۔ دیکھیں‘ اب کس کی ہمت ہوتی ہے کہ وہ اپنے سگے رشتے داروںکے دم پر کرپشن کرے۔ مودی کی ہی ہمت ہے کہ انہوں نے اپنے وزرا اور دوسرے سیاسی رہنمائوں کو آگے نہیں آنے دیا۔ کرپشن صرف روپے پیسے کے لین دین سے نہیں ہوتی‘ حد سے تجاوز کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ منسٹر کا پرسنل سیکرٹری بھارت سرکار کے سیکرٹری کے مقابلہ میں بہت چھوٹا ملازم ہوتا ہے‘ لیکن اگر وہ وزیر کا بھائی ہے تو وہ کسی کی بھی نہیں سنتا۔ ہمیشہ اپنی بات منواتا ہے۔ من موہن سنگھ کے وزرا اور پارلیمنٹ کے ارکان کو اسی وجہ سے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔
مودی سرکار کا یہ اقدام بھی تعریف کے لائق ہے کہ سرکاری ٹھیکے وغیرہ بھی اپنے رشتے داروں میں نہ دیے جائیں۔ امید ہے کہ نریندر مودی کی ہدایات نئے وزرا لفظ بہ لفظ مانیں گے‘ ورنہ میڈیا اتنا خبردار ہے کہ حکومت سے جواب طلبی کرے۔ اراکین پارلیمان کو دی جانے والی پوری رقم پر کڑی نگرانی رکھی جائے تو مودی سرکا ر کی چمک بڑھ جائے گی۔ مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب سے اپنی والدہ اور بھائیوں کو بھی دور رکھا۔ اسی لیے مودی کے احکامات، میرے لیے احکامات نہیں ہیں‘ نئی تقاریر نہیں ہیں‘ ٹھوس ہدایات ہیں، کرپشن کے خلاف اٹھا پہلا قدم ہے۔