"DVP" (space) message & send to 7575

سانحۂ لاہور بھاری پڑ سکتا ہے

میں نے دودن پہلے لکھا تھا کہ وزیراعظم میاں نوازشریف پاکستان کے عظیم رہنما بننے جا رہے ہیں اور پاکستان کو اب دنیا کے دیگر ملک بھی عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں گے کیونکہ پاکستانی فوج نے دہشت گردوںکے خلاف اپنی کمر کس لی ہے۔اس مشن کے حوالے سے پاکستان کی سبھی پارٹیوں نے سرکار کی حمایت کر دی ہے ‘جیسا کہ جنگ کے دنوں میں ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی اور عمران خان کی تحریک انصاف بھی اب مکمل حمایت کرنے لگی ہیںلیکن تین روز قبل لاہور میں معاملہ ایک دم الٹ گیا ۔سارے ملک کی توجہ دہشت گردی کے مشن سے ہٹ کر لاہور کے ایک علاقے ماڈل ٹاؤن پر مرتکز ہو گئی۔اس محلہ میں وزیراعظم میاں نوازشریف کا گھر تو ہے ہی‘ ڈاکٹر طاہر القادری کا گھر بھی ہے۔ قادری صاحب آج کل کینیڈا میںہیں اور 23 جون کو لاہور آنے والے ہیں۔ ان کے جلسوں میں لاکھوں لوگ آتے ہیں ۔ انہوں نے آج کل ایک تحریک چلا رکھی ہے ۔کل ان کے گھر کے سامنے پولیس نے گولیاں اور لاٹھیاں چلائیں‘جس میں آٹھ لوگ مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔فساد اس لئے ہو ا کہ قادری صاحب کے گھر کے اردگرد ان کے لوگوں نے حفاظت کے لئے کچھ باڑ وغیرہ لگا دی تھی جسے پولیس ہٹا دینا چاہتی تھی،لوگوں نے اس کی مخالفت کی تو انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اس کا نتیجہ کیا ہوا؟دہشت گردی کے خلاف فوجی مشن کی خبریں حاشیے میں سرک گئیں۔سارے مخالفین جو دو دن پہلے آپریشن کی وجہ سے سرکار کی حمایت کر رہے تھے‘ ایک جُٹ ہو گئے اور سرکار پر تنقید کے تیر برسانے لگے۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اس کے وزیر اعلیٰ‘ میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہیں۔ تنقید کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ بڑے بھائی نے ملک کو سیاسی نظریے سے جوڑا جبکہ چھوٹے بھائی نے توڑ دیا۔شہباز کو لوگ نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے انہیں پاکستان کا نریندر مودی قرار دیا ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں بے حد افسوس کا اظہار کیا۔ جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کیلئے تیس تیس لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا گیا اور ایک عدالتی جانچ کمیشن بٹھا دیا گیا۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر ان کا تھوڑابھی گناہ ہوا تو وہ فوراً استعفیٰ دے دیں گے ۔سیاسی لوگ پلٹ وار کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں ‘یہ سب ڈھونگ ہیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے اشارے کے بغیر پنجاب میں پتہ بھی نہیں ہلتا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطابق یہ خونریزی اس لئے کروائی گئی کہ حکمران ملک کی توجہ فوج کی کامیابی سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن کا سانحہ رام لیلا میدان کے واقعے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔جیسے بابا رام دیو کے خیمہ پر سرکاری حملے نے سونیا من موہن سرکار کی قبر کھود دی تھی‘ویسے ہی لاہور کا واقعہ بھی مسلم لیگ (ن) پر اب کافی بھاری پڑے گا۔مجھے حیرانی ہوئی تھی کہ ایسے ماحول میں وزیراعظم میاں نواز شریف دو دن کے لیے تاجکستان کیوں جا رہے ہیں۔ وہ اگر پاکستان میں ہوتے تو شاید لاہور خون میں نہیں نہاتا۔پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں نے عوام کا خون پہلے بھی بہایا لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دل میں ایسا خون پہلی بار بہا ہے۔ اس کے نتائج کا شمار آسان نہیں ہو گا۔ 
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پارلیمنٹ میں نہایت ہی پُراثر اور تاریخی خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ اب دہشت گردوں کومکمل ختم کئے بنا آرام نہیں کریں گے‘ پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔پاکستانی فوج کو آپریشن کے حوالے سے عوام کی زبردست حمایت مل رہی ہے لیکن یہاں پاکستان میں یہ بحث بھی چل پڑی ہے کہ کیا پاک فوج صرف ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرے گی‘ جو پاکستانی سرکار اور عوام پر حملہ کرتے ہیں یا وہ ان دہشت گردوں کی بھی خبر لے گی‘جو پڑوسی ملکوں کو بھی تنگ کرتے ہیں؟اکثرٹی وی چینلوں اور اخباروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے۔
یہ ٹھیک ہے کہ جب دہشت گردوں سے بات کرنی ہوتی ہے تو ان میں 'نرم‘اور 'گرم‘کا فرق کیا جاتا ہے اور یہ فرق بھی اکثر کیا جاتا ہے کہ کن دہشت گردوں کو کسی کی پناہ حاصل ہے۔یعنی کون کسی کی مدد سے پڑوسی ملکوں میں دہشت گردی کرتے ہیں اور کون خود سرکار پر حملے کو تیا ر رہتے ہیں۔یہ فرق ایک دم غلط نہیں ہے‘ حقیقی ہے۔ ذرا گہرائی تک جائزہ لیں تو یہ نرم گرم اور اندرونی باہری کا فرق سطحی رہ جاتا ہے۔ کون سا گروہ کب نرم اور کب گرم ہو جاتا ہے اور کون سا گروہ اپنا کردار کب اندر کر لیتا ہے اور کب باہری کر لیتا ہے ‘کچھ پتہ نہیں چلتا ہے۔ جو گروہ افغانستان اور بھارت کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں‘ وہی گروہ پاکستان کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے‘ بلا تفریق۔ 
فوج کی کارروائی سے کانپتی ہوئی 'تحریک طالبان پاکستان‘ نے دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ظاہر ہے کہ پاک فوج کے آگے ان کا ٹکنا مشکل ہے لیکن اب وہ لوگ اسے اور ہی رُخ دیناچاہتے ہیں۔ فوج جن علاقوں میں دہشت گردوں کو بھگا رہی ہے ‘وہ عموماً پہاڑی علاقے ہیں۔ لیکن کیا طالبان کو یہ پتہ نہیں ہے کہ اس دہشت گردی کے خلاف مشن کی وجہ سے سارا پاکستان وزیراعظم میاں نوازشریف اور فوج کے پیچھے آکھڑا ہوا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ طالبان تشدد کا راستہ چھوڑ دیں‘جنگ بند کروا دیں اور سرکار سے بات چیت کا کوئی حل نکالیں۔ اس آپریشن کو اگر وہ کسی اور طرح کی لڑائی کی شکل دینا چاہیں گے توانہیں نا امیدی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
آج پاکستان کا ماحول خاصا بدلا بدلا سا لگ رہا ہے ۔ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں سانحہ لاہور کے ذمہ داران کی اتنی مذمت ہو رہی ہے کہ بھارت میں ایسی مذمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ٹی وی چینلوں پر بولنے والے سخت زبان کا استعمال کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز اور وزیر اعظم میاں نوازشریف نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں ہوئی خونریزی پر گہرے افسوس کا اظہار کیا لیکن تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ افسوس دکھاوے کا ہے‘ جو جانچ بٹھائی گئی ہے وہ وزیر اعلیٰ کو بچانے کا زرہ بکتر ہے‘ ابھی تک گنہگاروں کو پکڑا کیوں نہیں گیا۔مخالفین نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف تاجکستان سے لوٹ آئے ہیں‘ اس کے باوجود معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا ہے ۔پارلیمنٹ میں اور چینلوں پر ان کے خلاف سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ پاکستان 
کی سیاست آج سرخیوں کے گھیرے میں آ گئی ہے ۔
اب سرکار کا سب سے بڑا سر درد یہ ہے کہ 23 جون کو کیا ہوگا؟ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے 23 جون کو اسلام آباد پہنچیں گے اور وہاں سے وہ جلوس بناکر لاہور جائیں گے۔ پچھلے سال ان کے جلسے میں ایک ایک لاکھ افراد اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس دفعہ سانحہ لاہور کے بعد سرکار کو خوف ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے جلوس میں کہیں لاکھوں لوگ جمع نہ ہو جائیں۔ یہ لوگ کاروں اور بسوں کا قافلہ لے کر سات آٹھ گھنٹے تک سڑکوں پر رہیں گے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔پولیس کے بس میں نہیں ہے کہ اتنے لوگوں کو قابو کر سکے۔پاکستان کی فوج آج کل دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میںپوری طرح مصروف ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر قادری پاکستانی فوج کے بڑے مداحوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔کئی ریٹائرڈ فوجیوں نے بتایا کہ لاہور میں جو کچھ ہوا‘اس سے فوج بھی خوش نہیں ہے۔ 
یہاں کے سیاسی اور سرکاری اداروں میں کافی پریشانی کا ماحول بن گیا ہے۔کئی معزز لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ سرکار ایک کے بعد ایک غلطیاں کرتی جا رہی ہے ۔فوج تو اس سے ناراض ہے ہی‘اب عوام بھی اس سے ناراض ہوتے جا رہے ہیں۔ اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن)کا مستقبل جو بھی ہوگا سو ہوگا لیکن کہیںایسا نہ ہو کہ اس کے پہلے ہی اتنی لا قانونیت پھیل جائے کہ فوج کو حکومت سنبھالنی پڑ جائے۔یہ نازک سیاسی ماحول پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بھی اثرات مرتب کرے گا۔ پڑوسی ملکوں میں غیر یقینی صورتحال بنتی جا رہی ہے۔ اگرشریف برادری نے23 جون کے حالات کو ٹھیک سے سنبھال لیا اور فوج کو وزیرستان میںٹھوس کامیابی مل گئی تو وزیراعظم میاں نواز شریف کی سرکار اور پارٹی میں نئی جان پڑجائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں