بھارت پاک سرحد پر آج کل اتنی جھڑپیں ہو رہی ہیں کہ دونوں ملکوں کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر سب سے بڑی خبروں کے طور پر چھپ رہی ہیں۔ قطعی نہیں مانا جا سکتا کہ یہ جھڑپیں بڑے لیڈروں کے اشارے پر ہو رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے رہنما اپنی بے تکی بیان بازیوں کے باوجود رشتوں کو سدھارنا چاہتے ہیں لیکن فوجی مٹھ بھیڑوں کی خبروں کے سبب دونوں ملکوں کے عوام کے دل میں غصہ پیدا ہونے لگتا ہے اور نادان لوگ جذباتی بیان دینے لگتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی فوجوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ دوسرے ملک کی فوج کو سبق سکھائیں۔
بھارت پاک سرحد پر ہونے والی گولا باری میں گاؤں والے بے قصور لوگ بھی مارے جا رہے ہیں۔ خوف کی وجہ سے گاؤں کے گاؤں خالی ہو رہے ہیں۔ تناؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ 2003ء میں نافذ کی گئی جنگ بندی ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ سرحد پر امن بنائے رکھنے کے لیے جو انتظام دونوں ملکوں نے کیا تھا اور جو کم و بیش ٹھیک ٹھیک چل رہا تھا‘ ہوا میں اڑتا محسوس ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے چیف اور فیلڈ کمانڈروں کے بیچ قائم کی گئی 'ہاٹ لائن‘ کس کام آ رہی ہے؟ دونوں طرف کے ان افسروں کی فوراً ملاقات کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ آج کی دنیا میں ان فوجی کمانڈروں کو تو کیا‘ وزرائے اعظم کے بیچ بھی فوراً ٹیلی فون پر بات ہو سکتی ہے۔
دونوں ملکوں کے بیچ بات چیت کا سلسلہ توڑنے والی مودی سرکار کو چاہئے کہ ماحول کو زیادہ بگڑنے نہ دے۔ خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت تو اس نے اگست میں رد کر دی تھی۔ اب مودی چاہیں تو دفاعی سیکرٹریوں کی آپس میں بات کرائیں۔ دونوں ملکوں کے دفاعی سیکرٹری اور وزرائے داخلہ 'منہ توڑ جواب دینے‘ جیسے بیانات بند کر دیں۔ ذمہ داری سے کام لیں۔ کانگریس کو چاہئے کہ اس نازک معاملے کو مذاق کا مضمون نہ بنائے۔ وہ وزیر اعظم کے 56 انچ کے سینے کو 5.6 انچ کا نہ بتائیں۔ وہ سرکار کو حملے کیلئے نہ اکسائیں بلکہ من موہن‘ مشرف پہل کو آگے بڑھائیں۔ افغانستان سے امریکی واپسی کے دور میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی ذمہ داری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اپنے آپسی تعلق بگڑنے نہ دیں۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟
شام اور عراق میں 'داعش‘ کیلئے لڑنے والوں نے اپنے منہ پر چوتھی بار سیاہی مل لی ہے۔ ایلن ہیننگ کی گردن کاٹنے سے پہلے وہ تین گوروں کی گردن کاٹ چکے ہیں۔ گردن کاٹنے کا وہ وڈیو بھی جاری کرتے رہے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں دو امریکی ہیں اور دو برطانوی۔ دو صحافی تھے اور دو سوشل ورکر۔ ان چار افراد کے بارے کسی کو بھی شک نہیں کہ وہ اسلامی سٹیٹ کے خلاف تھے یا اپنے اپنے ملکوں کی طرف سے جنگ میں شامل تھے یا جاسوسی کر رہے تھے۔ دور دور تک ان کا کوئی گناہ نہیں تھا۔ جو صحافی تھے‘ وہ اپنا فرض نبھا رہے تھے‘ اپنی جان پر کھیل کر لڑائی کی خبریں بھیج رہے تھے‘ ایک طرح سے ساری دنیا میں اسلامی سرکار کی تبلیغ کر رہے تھے۔ دوسرے دونوں لوگ انتہائی معتبر سوشل ورکر تھے۔ وہ اپنے ملک‘ اپنے خاندان اور اپنا سکھ چین چھوڑ کر لڑائی کے میدان میں آخر کیوں آئے تھے؟ کیونکہ ان کے دل میں رحم تھا۔ خدمت کا جذبہ تھا۔ وہ پناہ گزینوں اور لڑائی سے متاثر لوگوں کی خدمت کر رہے تھے۔ ان دریا دل غیر ملکیوں کا داعش اور اس کے مخالفین‘ دونوں کو احسان مند ہونا چاہئے لیکن انہی لوگوں کو پکڑ کر داعش کے جوانوں نے مغوی بنا لیا اور یہ کہہ کر ان کے سر کاٹتے جا رہے ہیں کہ وہ امریکہ اور برطانیہ سے بدلہ لے رہے ہیں۔
اگر داعش کے ان ''کارناموں‘‘ میں ذرا بھی معقولیت ہوتی تو اسلام کے بڑے بڑے مولانا ان کی سخت الفاظ میں مذمت کیوں کرتے؟ قتل کی وارداتوں کو انہوں نے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت میں بڑا ہی بزدلانہ کام ہے۔ داعش کے لڑاکو جوان اگر بمباری کرنے والے امریکی اور برطانوی فوجیوں کو پکڑ لیتے تو بات سمجھ میں آ سکتی تھی‘ لیکن خالی ہاتھ صحافیوں اور سوشل ورکروں کو موت کے گھاٹ اتارنا بزدلانہ کام تو ہے ہی‘ بلیک میلنگ بھی ہے۔ کیا انہیں پتہ نہیں کہ ایسے اقدامات سے وہ خوف نہیں بلکہ اپنے خلاف نفرت پیدا کریں گے۔ وہ لوگ بھی ان سے نفرت کرنے لگیں گے‘ جو امریکہ اور برطانیہ کے خلاف ہیں۔ ان کے اپنے حامیوں کو بھی شرم آئے گی کہ مذہب کے نام پر یہ کیسا وحشیانہ کام ہو رہا ہے؟ اس طرح کے قتل اور ان کی تبلیغ فوراً بند ہونی چاہئے‘ ورنہ داعش والے اپنی جڑیں خود ہی کھودیں گے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری وزارت خارجہ اس معاملے میں چپ کیوں ہے؟ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ مالدیپ اور افغانستان جیسے دیگر مسلم ممالک کو اس معاملے میں آگے ہو کر اپیل جاری کرنی چاہئے۔
پی ایم بننا آسان، لیڈر بننا مشکل!
وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کے رہنما موہن بھاگوت نے بھارت کے عوام کے نام جو بلاوا بھیجا ہے‘ وہ نہایت ہی قابل تعریف ہے لیکن کیا وہ اشاراتی نہیں ہیں؟ کھدر پہننا‘ صفائی کرنا‘ ملکی چیزوں کا استعمال کرنا‘ گائے کی حفاظت کرنا‘ نشے سے پاک بھارتی بننا وغیرہ‘ ایسے کام ہیں جو صرف سرکار اور نوکر شاہی کے ذریعے نہیں ہو سکتے۔ سخت قانون کافی مدد کر سکتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے‘ ان کاموں کیلئے عوامی تحریکوں کا چلنا!
عوامی تحریکیں کیسے چلتی ہے؟ سب سے پہلے عوام کو بیدار ہونا پڑتا ہے۔ عوام کو جاگنے کے لئے آپ کے پاس ایسے لاکھوں کارکنوں کا اجتماع ہونا چاہئے‘ جو گھر گھر پہنچیں اور عام لوگوں کو ان تحریکوں کے ہدف سے متعارف کرائیں۔ کلاس لیں‘ اجتماع کریں‘ جلوس نکالیں‘ پرچے اور کتابیں بانٹیں۔ یہ کام نوکر شاہی نہیں کر سکتی۔ حقیقت میں بھارت میں نوکر شاہی نہیں‘ مالک شاہی ہے۔ ابھی تک نہ تو ایسا کوئی وزیر اعظم آیا ہے اور نہ ہی سرکار جو ان نوکر شاہوں کو عوام کا خدمتگار بنا سکے۔ یہ نوکر شاہ‘ نوکر کم‘ شاہ زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کی بجائے سیاسی پارٹیوں کے کارکنان یا معاشرتی‘ تہذیبی جماعتوں کے خدمت گار یہ کام بخوبی کر سکتے ہیں‘ لیکن کیا ان جماعتوں کو متحرک کیا گیا ہے؟ بالکل نہیں۔ صرف ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں خوب پرچار ہو رہا ہے۔ اس کاغذی اور ہوائی پرچار کی عمر کتنی ہے؟ صرف کچھ گھنٹے! ایک دن ہاتھ میں جھاڑو اٹھا لینے اور ایک دن کھدر پہن لینے سے کیا ملک میں صفائی اور ملکی پہناوا آ جائے گا؟ اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی مجبوری ہے۔ وہ آپ کی خبر اس لئے دے رہے ہیں کہ آپ ایک عہدے پر بیٹھے ہوئے ہیں‘ اس لیے نہیں دے رہے ہیں کہ لوگ آپ کی بات مانتے ہیں۔ آپ کی کرسی میں وزن ضرور ہے لیکن آپ اپنے آپ میں اور اپنی بات میں وزن پیدا کیجئے۔ آپ کی بات میں وزن تب پیدا ہو گا‘ جب آپ جو کہتے ہیں‘ وہ خود کرنے لگیں گے۔ اگر وزیر اعظم اپنا کمرہ اور کموڈ روز خود صاف کریں اور خود کھدر تیار کریں اور پہنیں تو کروڑوں نہ سہی‘ لاکھوں لوگ ان کی پیروی کرنے لگیں گے۔ تب وہ عوام کے سچے لیڈر بنیں گے۔ وزیر اعظم بننا آسان ہے‘ عوام کا لیڈر بننا خاصا مشکل ہے۔
(ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بھارت کی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین ہیں)