جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ مودی سرکار کالے دھن کے معاملے میں ابھی تک کچھ نہیں کر سکی ‘ان لوگوں کو کچھ تسلی ملے گی کہ مودی نے اب اسے بین الاقوامی پریشانی کا مضمون بنا دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ بلیک منی بھارت سرکار نے اپنی تجوریوں میں نہیں چھپا رکھی تھی،ورنہ مودی تو تخت پر بیٹھتے ہی اسے باہر نکال پھینکتے لیکن وہ تو جمع ہے ‘بیرونی ممالک میں !بیرونی سرکاریں اور بینک بھارت سرکارکے ملازم نہیں کہ اس کا حکم ملتے ہی اسے نافذ کر دیں ۔ کالے دھن کو چھپاکررکھنے سے انہیں جو فائدے ہوتے ہیں، ان سے وہ اپنے آپ کو کیا صرف اس لئے محروم کر دیں کہ کچھ دوسرے ملکوں کی خواہش پوری ہو جائے ؟اسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے مودی نے پہل کی ہے ۔اس نے آسٹریلیا میں جی ٹوینٹی ممالک کی اسمبلی کے اجلاس میں سر عام اپیل کی کہ سبھی ملک مل کر کالے دھن کے خلاف کارروائی کریں۔ٹیکس چوری بھارت میں ہی نہیں ہوتی‘ اس سبب سے اور بھی سرکاریں پریشان ہیں۔اس لئے مودی کی التجاکو سبھی رکن ممالک نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔اب وہ آپس میں ایسا اتحاد کریں گے‘جس کے سبب سبھی کھاتوں کی جانکاریاں وہ ایک دوسرے کو دے سکیں۔یہ کام اگلے دو تین سال میں پورا ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ تب کالے دھن کو بینکوں میں چھپا کر رکھنالگ بھگ ناممکن ہو جائے گا ۔جیسا کہ بھارت کے اپنے بینکوں میں ہمارے لوگ اپنا کالا دھن نہیں چھپاتے ہیں ‘ویسے ہی دوسرے ملکوں میں چھپانا پسند نہیں کریں گے ۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے سارا کالا دھن پکڑا جا سکے گا یا کالا دھن اکٹھا کرنے کا رواج بند ہو جائے گا؟جواب یہ ہے کہ کیا پتوں پر لسی ڈالنے سے جڑیں سوکھ سکتی ہیں ؟اگر جڑوں کو اکھاڑنا ہے تو لسی جڑوں میں ہی ڈالنی ہوگی۔ بلیک منی کی پیدائش ہی نہ ہو‘اس بارے میں سرکار نے ابھی تک کوئی پلاننگ تیار نہیں کی ہے ۔اس کا کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ اگر کالا دھن پیدا ہوگا تو وہ خود اپنے ملک میں تو دندنائے گا ہی‘ سر چڑھ کر بولے گا ہی لیکن باہر بھی جائے گا ۔وہ بینکوں میں نہ سہی‘ تجوریوںمیں‘لاتعدادملکیت میںاور بے نامی دھندوں میں لگا رہے گا۔ بیرونی ممالک سے کالے دھن کی واپسی اگر ہوگی تو کتنی ہوگی ؟مٹکے میں سے صرف چُلّو بھر !صرف اس چُلّو بھر کالے دھن کو پکڑنے کیلئے ساری طاقت خرچ کرنا اور کالے دھن کے مٹکے کا منہ کھلا رکھنا ‘کہاں کی عقلمندی ہے ؟بیرونی ممالک میں کالادھن چھپانے والوں کو ہم نادان سمجھے بیٹھے ہیں کہ اتنے شور وغل کے باوجود انہوں نے اپنے دھن کو انہی بینکوں میں سوتے رہنا دیا ہوگا ۔بھارت سرکا ریاتو کالے دھن کے مٹکے کو ہی پھوڑنے کا ارادہ کرے یا انکم ٹیکس ہی ختم کر دے!چلو بھر کالے دھن کیلئے الو بننے سے کیا فائدہ ہے ؟
بھارت آسٹریلیا :کئی امکانات
وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ آسٹریلیا ان کے دوسرے بیرونی دوروں کی طرح کافی خبریلا رہا ۔انہوں نے بھارت میں اور جن ممالک میں گئے ‘ان میں کافی خبریں پیدا کیں۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ ستمبر میں بھارت آئے تھے ۔ان سے پہلے 2009ء میں بھی آسٹریلیاکی وزیر اعظم جولیا گلارڈاور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی ملاقات ہوئی تھی،لیکن اٹھائیس برسوں میں پہلی بار بھارت کا کوئی وزیر اعظم آسٹریلیا گیا ہے ۔مودی یوں تو گئے تھے ‘ جی ٹوینٹی کے اجتماع میں حصہ لینے کیلئے لیکن انہوں نے آسٹریلیا کے سبھی خاص شہروں کا سفر کیا۔انہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا۔پچھلے کسی بھی وزیر اعظم نے بھارت کیلئے ایسا موزوں ماحول نہیں بنایا ‘جیسا کہ مودی بنا پائے ہیں ۔
جی ٹوینٹی کے لیڈروں کو وہ ملک سے باہر جمع کالے دھن کے خلاف تیار کر سکے۔اس بات نے مودی کو اپنی ملکی سیاست میں توپُر اعتماد بنایا ہی ہے ‘بین الاقوامی سیاست میں بھی ان کا سکہ چلوا دیاہے ۔انہوں نے آسٹریلیاکی پارلیمنٹ میں جو خطاب کیا، اگر اس پر بجی تالیوں سے اندازہ لگایا جائے توان کی تقریراوباما اور چینی صدر سے بھی زیادہ اثر دار رہی ۔متحد کانفرنس میں وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے انہیں 'بھائی ‘کہا۔مودی نے اپنے خطاب سے آسٹریلیا میں رہنے والے بھارتیوں کو اپنی اور کھینچ لیا۔ انہوں نے بھارت اورآسٹریلیا کے بنیادی تعلقات کو اچھے ڈھنگ سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے ان سبھی قابلیتوں کا ذکر کیا‘جن کی بنا پر بھارت آسٹریلیا تعاون کئی گنا بڑھ سکتا ہے ۔اس دورہ کے دوران پانچ سمجھوتوں پر دستخط ہوئے اور دونوں ملکوں نے مشترکہ تعاون کو بڑھانے کا ارادہ کیا ۔اس دورہ کے دوران یہ واضح ہو گیا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو سرد جنگ کی دیوار کھڑی رہتی تھی ‘ وہ اب ٹوٹ چکی ہے ۔اس کے علاوہ1974 ء کے پوکھران دھماکوں کے بعد اور 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعدسے جو باہمی دوریاں ہوئی تھیں ‘وہ اب مٹ گئی ہیں ۔دونوں ملک اب جوہری توانائی کیلئے آگے بڑھنے کو تیار ہیں ۔آسٹریلیا اپنے یورینیم کے ذخیرہ سے بھارت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے تیا رہے۔
یہ درست ہے کہ دو تین سال پہلے بھارت ‘جاپان ‘آسٹریلیا اور امریکہ کا ایک چوگٹا بننے کی ہوا چلی تھی لیکن ابھی وہ ہوا میں ہی ہے ‘پھر بھی یہ طے ہے کہ آسٹریلیا بھارت کو ایٹمی سپلائرز کلب کا رکن بننے میں مدد دے گا ۔اگرچہ دونوں ملکوں نے اپنی تجارت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی تک 2015 ء میں چالیس بلین ڈالرکا ہدف پورا ہونا ہی ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور دور کی کوڑی دکھائی پڑ رہا ہے ۔ابھی ہماری دوطرفہ تجارت صرف 15بلین ڈالر ہے جبکہ چین کے ساتھ آسٹریلیا کی تجارت 150 بلین ڈالر ہے۔ آسٹریلیا چین کو ناراض نہیں کر سکتا ، لیکن بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات گہرے ہوں گے تو جاپان اور امریکہ چاہیں گے کہ ان کے ذریعے سے وہ چین کو محدود کر سکیں۔ مودی کے اس دورہ آسٹریلیا نے باہمی تعلقات کے بے شمار امکانات کھول دیے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کو نمایاں ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے۔
مودی اور ملائم ایک راہ پر
ملائم سنگھ یادو نے سماج وادی پارٹی کی خواتین برانچ سے خطاب کرتے ہوئے ایک ہمت کی بات کہہ دی ۔انہوں نے کہا کہ عورتیں پردہ کیوں کریں ؟کیا سیتا ‘ساوتری اور دروپدی پردہ کرتی تھیں ؟انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ پردے کی حمایت کرنے والوں کو جیل میں بند کردینا چاہیے ۔
ملائم سنگھ اگر یہ نہ کہتے توبھی ان کی سیاست اچھی طرح چل رہی تھی ۔کوئی بھی لیڈر سماج سدھار بات کیوں کرے؟ اس کے بنا بھی ان کا نام چلتا رہتا ہے ۔اب سیاست کا ہدف بہت محدود رہ گیا ہے۔ ووٹ اور نوٹ کباڑنا ہی سچ ہے۔ باقی سب جھوٹ ہے۔ آج کے دور میں نوٹ اور ووٹ ہی سب سے سپریم ہیں۔سبھی لیڈر اسی ریاضت میں ڈوبے رہتے ہیں ۔وہ زمانہ گیا ‘جب سیاست کا ہدف سماج کا سدھار رہتا تھا ۔جدید دورکے لیڈر ان سب سماج سدھاروں کی جانب سخت دل ہوگئے ہیں۔ ایسے میں ملائم سنگھ نے پردہ کے خلاف بات کر کے اپنے لئے مصیبت مول لے لی ہے۔ ان کے بیان پر پوگا پنتھی ہندوبھی برس پڑیں گے ،'ملا ‘مولویوںکا تو کہنا ہی کیا؟وہ اب گوہار لگائیں گے کہ مسلمان ملائم کو ووٹ نہ دیں ۔اگر یہ خطرہ پیدا ہوگیا تو پتہ نہیں ملائم کیا کریں گے ؟
لیکن میرے خیال میں ملائم کو اب اپنا قدم پیچھے ہٹانے کے بجائے آگے بڑھانا چاہئے۔صرف پردہ کی مخالفت ہی نہیں‘ جہیز‘ بہو سے شادی‘زنا‘نشہ‘رشوت وغیرہ معاشی برائیوںکیخلاف بھی مشن چلا دینا چاہئے۔انگریزی کا بول بالا ہونے کے خلاف آج زبر دست مشن چلانے کی خاص ضرورت ہے لیکن ہمارے پِدی نُما لیڈروں میںاتنا دم بھی نہیں ہے کہ وہ ان برائیوں کے خلاف ذرا سا بھی منہ کھولیں ۔ملک کی بدقسمتی ہے کہ اخباروں اور چینلوں میں یہ ہی لیڈر چھائے رہتے ہیں ۔ہمارے سنتوں اور فقیروں کو اپنی آرتی اتروانے سے فرصت نہیں ۔ایسے میں ملک کو اچھی راہ پر لے جانے کیلئے ہدایت کون کرے گا؟
یہ ایک قدرتی اتفاق ہے کہ نریندر مودی اور ملائم نے ایک جیسی راہ پکڑی ہے‘ایک صفائی مشن چلا رہا ہے تو دوسرا پردہ ختم کرنے کی بات کر رہا ہے ۔اگر سبھی پارٹیاں اور سبھی لیڈر اسی طرح کچھ کچھ سماجی برائیوں کے پیچھے پڑ جائیں تو ملک کی ترقی کی رفتار کئی گنا ہوجائے۔