جموں‘ کشمیر اور جھاڑکھنڈ میں پہلے دورکی ووٹنگ بھارتی جمہوریت کا قابل تحریر حصول ہے ۔جموں وکشمیر میں علیحدگی پسندوں نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا اور جھاڑکھنڈ میں مائو وادیوں نے دھمکی دے رکھی تھی۔ بلیک میل کے دونوں پینترے ڈھیر ہوگئے۔ دونوں صوبوں میں لوگوں نے مکمل جذبہ کے ساتھ ووٹ دیا۔ جھاڑ کھنڈ میں ووٹنگ 62فیصد ہوئی اورجموں کشمیر میں72 فیصد!پچھلی گرمیوں میں جب لوک سبھا چنائو کیلئے ووٹنگ ہوئی تو وہ صرف 52فیصد رہی‘ جبکہ اب کچھ علاقوں میں زبردست ٹھنڈ کے باوجودووٹنگ80 فیصدہوئی۔سوسوسال کے لوگ ووٹ ڈالنے آئے۔ مریض بزرگوں نے ہمت کی اور ووٹ دینے کیلئے پہنچے۔ اتنی ووٹنگ آزادی کے بعد پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔امید ہے کہ اگلے دور کی ووٹنگ میں بھی یہی جوش دکھائی پڑے گا ۔
اس جوش کی کیا وجہ ہے اور اس کے مطالب کیا ہیں ؟اس کے سبب تو واضح ہیں ۔مودی کا جادو ابھی برقرار ہے۔ مودی نے اپنی دیپاولی کا دن کشمیر میں بِتایا۔ آج تک کس وزیر اعظم اور کس بھارتی لیڈر نے دیپاولی کا دن کشمیر میں بتایا؟ اس کے علاوہ سیلاب کے دوران وزیر اعظم کاکشمیر جانا اور بڑی امداد کا فوراً اعلان کرنا بھی ایساقدم تھا‘جس نے کشمیریوں کی بڑی حد تک دلجوئی کی اور نیشنل کانفرنس کی سرکار کو حاشیہ میں دھکیل دیا۔تیسری بات یہ بھی غور کے لائق ہے کہ آرٹیکل 370 کے بارے میں مودی نے شروع سے لچکیلا رخ اپنایاہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اس بارے میں کشمیر کے عوام کی رائے کے مطابق کام کریں گے۔ مودی کے اس رویہ کا نتیجہ ہے کہ ان کے بارے میں پھیلایا گیا خوف بے بنیاد ثابت ہوا ۔لوک سبھا انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کو غیر معمولی فتح ملی اور جموں کے علاقوں میں انہیں اتنی بڑھت مل گئی کہ بی جے پی صدر نے جموں کشمیرمیں 44 نشستیں جیت کرسرکار بنانے کا دعویٰ ظاہر کردیا ۔بی جے پی جموں کشمیرمیں سرکار بنا پائے یا نہیں ‘لیکن ایک بات پکی ہے کہ پہلی باروہاں وطن پرست قوتیں زوردار طریقے سے اپنی موجودگی درج کریں گی۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا تو صفایا ہی ہوگا۔ہاں پی ڈی پی کو ضرور زیادہ سیٹیں ملیں گی۔اگر وہ سب سے بڑی پارٹی ہوکر ابھری‘ تب بھی بی جے پی کے اتحاد بناوہ اپنی سرکار نہیں بنا پائے گی ۔
پاکستان کو چاہئے کہ وہ اب بات چیت کا راستہ اختیار کرے اور کشمیر کے سوال کو ہمیشہ کیلئے حل کر لے۔مشرف‘من موہن لائین کو تھوڑے بہت پھیر بدل کے ساتھ آگے بڑھانا اس وقت کی مانگ ہے۔
نیپال کا متحرک ہونا
سارک کانفرنس نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہوئی۔ جب پچھلی کانفرنس بارہ سال پہلے ہوئی تھی ‘تب نیپال کی سیاسی کیفیت نہایت خراب تھی ۔بادشاہ خاندان کا قتل ہو گیا تھا ۔نئے بادشاہ کے خلاف بغاوت چل رہی تھی ۔اقتدار ٹھپ تھا۔مائو وادیوں سے جنگ چھیڑ رکھی تھی ۔جیسے تیسے وہ کانفرنس اختتام کو پہنچی لیکن اس بار نیپال متحرک ہے ۔یہ کانفرنس کافی باجے گاجے کے ساتھ ہوئی۔ اس میں افغانستان سرکار کے نئے سربراہ بھی شریک ہوئے۔
نیپال کے زیادہ متحرک ہونے کی دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔پہلی‘ بھارت پاک مذاکرات کرانے کی کوشش اور دوسری چین کو سارک کا ممبر بنانے کی کوشش!جہاں تک نوازشریف اور نریندر مودی کی ملاقات کروانے کا سوال ہے ‘نیپال کی کوشش لائق تعریف ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دونوں ملکوں کے لیڈراپنی اپنی سرکار کی نادانی پر پچھتا رہے ہیں ۔حریت کے بہانے خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت مسترد کرنے والی دونوں حکومتوں کو شاید اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ انہوں نے جو راستہ پکڑا ہے ‘ وہ انہیں کسی اندھی سرنگ میں ہی لے جائے گا۔ اگر نیپال کے بیچ میں آنے سے دونوں ممالک میں بات ہو جائے تو جنوب ایشیاکی سیاست میں نیپال کا قد اونچا ہوئے بنا نہیں رہے گا۔
لیکن اپنا قداونچا کرنے کی یہ مشق خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے ۔نیپال چاہتا ہے کہ چین بھی سارک کا ممبر بن جائے۔شنہوا نیوزایجنسی کے اخبار 'ایشیا پیسفک ڈیلی‘ نے سارک کانفرنس کے موقع پربارہ صفحات کا ایک رسالہ نکالا‘ جس میں نیپال کے موجودہ اور ماضی کے وزراء نے چین کو سارک کا ممبر بنانے کی وکالت کی ہے ۔اسی موقع پر چین نے نیپال کو ایک کروڑ (ین) کی امدادبھی دی ہے ۔نیپال میں چین کا بڑھتا ہو ااثر تو سبھی کو معلوم ہے لیکن سارک میں گھسنے کی اس کی یہ کوشش بالکل بیجا ہے۔چین جنوب ایشیا کا انگ کبھی رہا ہی نہیں۔ وہ افغانستان سے اپنا موازنہ بالکل نہ کرے۔تاریخ میں افغانستان بھارت کا اور بھارت افغانستان کا حصہ رہا ہے ۔ابھی تو برما کوسارک کا ممبر بنانا زیادہ ضروری ہے۔ اگر چین سارک میں گھس گیا توسارک کے گلے میں ڈبل پھانس لگ جائے گی ۔ابھی پاک بھارت پھانس کو کھولنا مشکل ہو رہا ہے۔ پھر بھارت چین پھانس کھولنے میں ہی ساراکھیل ختم ہو جائے گا۔ اس لیے نیپال متحرک ضرور رہے لیکن وہ زیادہ کرنے سے بچے‘یہ اس کے مفاد میں بھی ہے۔
اوباما چکنی پھسل پٹی تو نہیں ؟
امریکی صدر بارک اوباما اس بار کے یوم جمہوریہ کے خصوصی مہمان ہوں گے۔ یہ خبر خوب اچھلی ہے۔ یہ اچھلنے لائق ہے‘اس لئے اچھلی ہے ۔ابھی تک کسی بھی وزیر اعظم نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ امریکہ کے صدر سے اس طرح کی گذارش کی جائے ۔پچھلے پچپن ساٹھ سال تک امریکہ سے بھارت کے تعلقات کھٹے میٹھے رہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ لمبے وقت تک فوجی اتحاد رہا ۔اب امریکہ نہ صرف پاکستان سے اپنی دوریاں بڑھا رہا ہے بلکہ اسے چین کے مقابلے میں بھی ایشیا میں ایک مضبوط ساتھی کی ضرورت ہے ۔اسی لئے بھارت کو امریکہ کی جتنی ضرورت ہے‘ اس سے کہیں زیادہ امریکہ کو بھارت کی ضرورت ہے۔ اوباما کو مودی کا دعوت نامہ کسی لو لیٹر سے کم نہیں لگا ہوگا ۔
اوباما دوبارہ بھارت آنے والے پہلے امریکی صدر ہیں لیکن اس بار آتے وقت ان کا بانکپن پہلے جیسا نہیں رہے گا ‘کیونکہ وہ کافی ہِل گئے ہیں ۔کانگریس کے چنائو میں ری پبلکن نے انہیں مات دے دی ہے اور رائے شماری میں وہ نیچے کھسکتے جا رہے ہیں ۔لیکن اس میں ہمیں کیا ؟ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ابھی ابھی امریکہ میں لاکھوں بھارتیوں کو جو سہولیات دی ہیں ‘اس سے کم ازکم چار لاکھ بھارتیوں کو سیدھا فائدہ ملے گا‘ وہ امریکہ سے بھگائے نہیں جائیں گے ۔اوباما کا استقبال کرنے کیلئے یہی وجہ کافی ہے ۔
اگراوباما افغانستان میں بھارت کے اہم کردار کو قبول کر سکیں اور پاکستان کو بھی اس کے لئے راضی کر لیں تو جنوب ایشیا کی لاٹری کھل جائے گی۔تیس سال سے لنگڑاتا رہا سارک اب دوڑنے لگے گا ۔اوباما چاہیں گے‘ بیچ میں لٹکا ہوا توانائی سودازمین پر اترے ۔ہم امریکہ سے جوہری توانائی کی سہولیات جلدی سے جلدی خریدیں ۔اس معاملے میں مودی کی طرف سے کوئی اڑنگا نہیں لگنے والا ہے ‘کیونکہ مودی بڑی بڑی چیزوں اور باتوں سے فوراً رضا مندی دکھاتے ہیں ۔یہاں میں اتنا ہی کہوں گا کہ‘ہرنا ، سمجھ بوجھ بن چرنا‘۔من موہن سنگھ کی طرح لٹو ہونا ٹھیک نہیں ہے ۔امریکی شرائط پر جوہری سودے کو نافذ کرنے کے پہلے ہماری سرکار کو سو بار سوچنا چاہئے ۔
اوباما کو مہمان بنانا کہیں حالیہ سرکار کیلئے چکنی پھسل پٹی ثابت نہ ہو ‘یہ ڈر بھی ہے‘ بیرون ممالک دوروں میں چکا چوند اور ڈھول باجوں میں ہم کہیں ملک کو یاد کرنا ہی بھول جائیں ۔سرکار بنے چھ ماہ ہو رہے ہیں لیکن حاصلات ابھی بھی کچھ نہیں دکھائی پڑتی ہیں۔ اگر عوام کے صبر کا پیالہ بھر گیا تو اوباما‘اے بے‘شن چن پنگ وغیرہ کوئی کام نہیں آئیں گے۔