سارک کی اٹھارہویں کانفرنس کٹھمنڈو میں اختتام کو پہنچی لیکن یہ سوال سارک لیڈروں سے پوچھا جانا چاہئے کہ یہ علاقائی جماعت کیا اٹھارہ قدم بھی آگے بڑھ پائی ہے ؟یہ ٹھیک ہے کہ ممبر ملکوں کے بیچ 'تو تو میں میں‘ نہیں ہوئی لیکن تصوری معاہدوں کے علاوہ کیا ہوا؟سارک کو بنے اب تیس سال ہو رہے ہیں لیکن ان تیس سالوں میں وہ اپنا نام بھی نہیں ڈھونڈ پائی۔ابھی بھی اسے 'سارک ‘کہا جاتا ہے ۔کیا جنوب ایشیاکی ساری زبانیں اتنی کمزور ہیں کہ وہ اسے ایسا نام بھی نہ دے سکیں جو عام آدمی کی سمجھ میں آ سکتا ہو؟ جنوب ایشیائی علاقائی جماعت (دکشیس) نام اب سے تیس سال پہلے میں نے لکھنا شروع کیا تھا ۔یہ ضروری نہیں کہ اس کا نام ہندی میں ہی ہو‘ کسی بھی جنوب ایشیا کی زبان میں ہونا چاہئے ۔اسے حقیقی شکل سے قبول کرنا تو دور رہا‘ ہمارے وزرائے اعظم کو سارک کانفرنس میں انگریزی جھاڑتے ہوئے ذرا بھی جھجک نہیں ہوتی ۔سارک کے سبھی لیڈروں سے میرا سوال ہے کہ ان کی تقاریر کیا عوام سمجھ پاتے ہیں ؟اگر وہ اپنی زبانوں میں بولیں تو ان کے عوام کی حوصلہ افزائی تو ہوگی ہی‘ ان کے فوراً ترجموں سے سارک کے ایک ارب ستر لاکھ لوگ بھی سارک میں سیدھی دلچسپی لینے لگیں گے۔ آج کی جدید تکنیک میں یہ آسانی سے ممکن ہے ۔پچھلے تیس سالوں میں صرف ایک مالدیپ کانفرنس میں میری گذارش پر وزیر اعظم چندر شیکھر نے ہندی میں تقریر کی تھی‘ جس کی تعریف بھارت ‘پاکستان ‘نیپال ‘بنگلہ دیش اور بھوٹان میں جم کرہوئی تھی۔ جب تک سارک کے عمل کوعوام کی زبان میں عوام سے نہیں جوڑیں گے‘ اس کی رفتار بے ڈھنگی بنی رہے گی ۔
کٹھمنڈو میں بھی کئی معاہدے ہوئے جیسے باہمی تجارت‘ آمدو رفت ‘سرمایہ کاری وغیرہ بڑھانا‘ دہشتگردی کا مشترکہ مقابلہ کرنا‘ کاشت‘ علاج‘ اطلاعات‘ پبلک ریلیشن‘ تعلیم‘ بجلی وغیرہ کے معاملات میں تعاون بڑھانا‘ کالادھن‘ نقلی کرنسی ‘جرائم کو روکنا؛ لیکن ان سب مدعوں پر کئی بار معاہدے ہونے کے باوجود ٹھوس کارروائی کیا ہوئی ؟اگر سبھی آٹھوں ملک ٹھوس کارروائی کرتے تو پورا جنوبی ایشیا فری ٹریڈ علاقہ بن جاتا۔2004 ء میں یہ معاہدہ پاس ہو اتھا۔پہلے تین سال میں بیس فیصد ٹیکس کم کیا گیا ہوتااور آٹھ سال میں وہ صفر ہو گیا ہوتا تو آج سبھی ملکوں کی آپسی تجارت ان کی ساری دنیا کے ساتھ تجارت کی کیا صرف پانچ فیصد رہتی؟ سارک کے مقابلے میں یورپی یونین اور آسیان کے ملک آپس میں بیس سے تیس فیصد تجارت کرتے ہیں۔ بھارت کے پڑوسی ملک اگر چاہیں تو وہ اپنی پچاس فیصد تجارت آپس میں کر سکتے ہیں ۔ٹیکس کی نجات سے جتنی بچت ہوگی‘ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔آجکل صرف بھارت اور سری لنکا کے بیچ فری ٹریڈ ہوتا ہے ۔دونوں ملکوں کی تجارت نے غیر معمولی چھلانگ لگائی ہے۔ اگر یہی روایت آگے بڑھے تو ہم اپنے ممبر ملکوں میں سینکڑوں کارخانے لگا سکتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں مزدور ایک دوسرے کے ملکوں میں جاکر کام کر سکتے ہیں ۔
لیکن سارک کا جب سے آغاز ہوا ہے ‘دو بھوت اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ آج تک ان کا علاج کرنے والا کوئی شاہی حکیم جنوبی ایشیا میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ پہلا بھوت ہے ‘بھارت کو گھیرنے کا ارادہ!بنگلہ دیش کے صدر ضیا الرحمٰن نے سارک کی بنیاد رکھتے وقت کہیں نہ کہیں یہ کہہ ڈالا تھا کہ بھارت اس علاقہ کا بڑا طاقتور ملک ہے۔ اس کے سامنے سبھی چھوٹے موٹے پڑوسی ملکوں کو ایک جٹ کرنا ضروری ہے ۔یہ مشترکہ خوف سبھی میں زندہ ہے ۔یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ نیپال نے اس خوف ِبھارت کو بڑھانے میں اس بار خاص کوشش کی۔بھارت کے وزیر اعظم نے نیپال کو ایک بلین ڈالر کی امداد دی اورکئی سمجھوتے کئے‘جن کا سیدھا فائدہ نیپالی عوام کو ملے گا لیکن اس کے باوجودنیپال نے بھرپور کوشش کی کہ وہ چین کو سارک میں گھسا لے۔ نیپال کے ساتھ ساتھ پاکستان ‘سری لنکا اور مالدیپ کے لیڈروں نے بھی گھما پھراکر وہی بات کہی ۔اس وقت چین‘ سارک میں امریکہ‘ برما اور ایران کی طرح صرف مبصر کی حیثیت میں شرکت کرتا ہے۔ اسے یہ ملک سارک میں اس لیے لانا چاہتے ہیں کہ وہ بھارت کی کاٹ کر سکے۔ دنیا کی ساری علاقائی جماعتوں میں سارک کی یہ خوبی ہے کہ اس کا ایک ملک بھارت سبھی ملکوں سے بہت بڑا ہے اور ایسا واحدملک ہے‘ جس کی سرحدیں سبھی ممبر ملکوں
سے ملتی ہیں۔ چین نے سارک کانفرنس میں اس بار اپنے نائب صدر کو مشاہدے کیلئے بھیجا ہے ‘جوکہ عام بات نہیں ہے۔ جنوب ایشیائی ملکوں سے چین اپنی تجارت ڈیڑھ سو بلین ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے ۔وہ ان ملکوں میں تیس بلین ڈالر بھی لگانا چاہتا ہے ۔پاکستان کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات تو کافی وقت سے ہیں ہی‘اب اس نے بھارت کے سبھی پڑوسیوں کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو نئی اونچائیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ وہ اپنی 'شنگھائی تعاون کمیٹی‘ میں بھارت کو مبصر کے درجہ سے اونچا اٹھاکر ممبر کا درجہ دینا چاہتا ہے لیکن بدلے میں وہ سارک کا ممبر بننا چاہتا ہے ۔اس نے کٹھمنڈو کانفرنس کرنے کیلئے نیپال کو کافی امداد بھی تھی تاکہ اس کا ڈنکا بجتا رہے۔
چین کو سارک کا ممبر بنانا بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے ۔وہ جنوب ایشیا کا حصہ نہیں ہے ۔ابھی زیادہ ضرورت ایران اور برما کو ممبر بنانے کی ہے۔ سارک کے سارے ملکوں کا بھارت سے رشتہ جڑا ہوا ہے۔ تاریخ میں وہ کبھی بھارت کا حصہ رہے ہیں یا بھارت ان کا حصہ رہا ہے۔ اس قدیم آریہ ورت میں چین کا مقام کہاں ہے؟چین کے ممبر بننے پر سارک ختم ہو سکتا ہے‘ چین آگیا تو سارک لڑائی کا میدان بن جائے گا ۔
سارک کا دوسرا بھوت ہے ‘ بھارت پاک روڑا۔بھارت پاک تعلقات ہمیشہ اتنے خراب رہے ہیں کہ وہ پورے سارک کو ٹھپ کر دیتے ہیں ۔دونوں ملک دہشتگردی سے سب سے زیادہ جکڑے ہوئے ہیں لیکن ان کا باہمی کوئی تعاون نہیں ہے۔ آمدورفت اور ریل کے راستے کے بارے میں اس بار پاکستان نے اپنی نااہلیت جتا دی۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان کسے ہوگا؟ پاکستان کو ۔اگر پاکستان کا زمینی راستہ سارک ملکوں کیلئے کھل جائے تو اس کے ذریعے ہونے والی آمدورفت اور آمدنی کروڑوں روپیہ روزانہ ہوگی۔مغربی ایشیا کو تیل اورگیس کی پائپ لائن جنوبی ایشیا کو بجلی سے بھر دیں گی ۔پاکستان کو پیسہ تو ملے گا ہی ‘جنوبی ایشیا کے ٹینٹوے پر بھی اس کی انگلیاں دھری رہیں گی۔ جنوبی ایشیا کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب غریب ‘دیہاتی‘ لاعلم لوگوں کے لیے نئے آفتاب کا طلوع ہوگا ۔وسطی ایشاکی کھدانیں ان کے لیے سونا‘ چاندی‘ گیس‘ تیل اور لوہا حاصل کرائیں گی۔ سچ پوچھا جائے تو جنوبی ایشیا کے تالے کی چابی پاکستان کے ہاتھ میں ہے ۔اگر پاکستان اس تالے کو کھولتا ہے تو سب سے زیادہ فائدہ اس کا ہی ہے ۔
جہاں تک بھارت کا سوال ہے ‘جیسے اس نے سری لنکا کے ساتھ کیا ‘ویسا ہی سمجھوتہ وہ ہر سارک ممبر ملک کے ساتھ کرلے گا۔بھارت اور باقی سارک ملک تو آگے نکل جائیں گے لیکن پاکستان جہاں کھڑا ہے ‘وہیں کھڑا رہ جائے گا ۔نیپالی لیڈروں کو ہمیں شاباشی دینی ہوگی کہ انہوں نے مودی اور نواز کے بیچ مصافحہ کروادیا۔کیا اسی بہانے اب دونوں ملکوں میں بات چیت شروع نہیں ہو جانی چاہئے؟ ہو سکتا ہے کہ کشمیری چناؤ کے بعد یہ آسانی سے ممکن ہو جائے۔ اگر ایسا ہوگا تو سارک کی 19ویں کانفرنس‘ جوکہ اسلام آباد میں ہوگی‘ اب تک کی سبھی کانفرنسوں میں زیادہ نتیجہ خیز اورزیادہ کامیاب ہوگی۔