راجیہ سبھا میں سارے مخالفین ایک ہو گئے ۔کیوں ہو گئے؟ اس لیے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے غیر ملکی دورے کے دوران عوامی اجتماع میں ملک کی اندرونی سیاست کو بھی گھسیٹا۔ وہ ایک بدنامی کا باعث بنا ہے۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کی شان کو کم کیا۔وہ بھارت کے وزیر اعظم نہیں ‘نریندر مودی کی طرح بول رہے تھے ‘اس نریندر مودی کی طرح جو بی جے پی کے لیڈر ہیں یا آر ایس ایس کے کارکن۔ جو پارٹیاں اور جو لیڈرایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کی کھنچائی کرنے کیلئے مشہور ہو چکے ہیں‘ وہ مودی سے شان اور شوکت کی بات کر رہے ہیں ۔
ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ دیکھیں کہ مودی نے وہاں کہا کیا تھا؟مودی نے بیرونی ملکوں میں رہنے والے بھارتیوں کے اجتماع میں کہا تھا کہ بھارت 'سکیم انڈیا‘ کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔اب وہ اسے 'سکل انڈیا‘ کے نام سے مشہور کریں گے ۔مخالفین کا کہنا تھا کہ بھارت کو بد عنوان اور بد عنوان کو بھارت کا نعم البدل کہناغلط ہے اور یہ کہناتو اور بھی غلط کہ پچھلے ساٹھ سال میں پھیلی گندگی کواب مودی ہٹائیں گے۔مخالفین کا غصہ فطری ہے ۔انہیں پورا حق ہے کہ وہ ایوان میں اسے ظاہر کریں ۔وہ اپوزیشن میں ہیں‘ مخالفت کرنا ان کا کام ہے لیکن تین چار باتوں پر انہیں ضرور دھیان دینا چاہئے۔
پہلا‘ مودی نے یہ باتیں غیر ملکیوں کے ہجوم سے نہیں کہیں۔ ان کا مقصد بھارت کو بدنام کرنا نہیں تھا۔انہوں نے یہ باتیں بھارتیوں کے جلسے میں کہیں۔ غیر ملکی میڈیا اور لوگوں تک یہ باتیں لگ بھگ پہنچی ہی نہیں ۔دوسرا‘کیادوسرے ملکوں میں رہنے والے بھارتیوں کو ہمارے لیڈروں کے کارناموں اور غبن کے بارے ساری باتیں پہلے سے پتا نہیں تھیں ؟وہ پہلے سے بدنام نہ ہوتے تو ان کی نشستیں اتنی کم کیوں ہو گئیں؟مودی نے کس کی بدنامی کی؟ ان کی بدنامی کو دہرایا‘جن کے کالے کارناموں سے بھارت بدنام ہوا تھا۔ تیسرا‘ جن سیکڑوں ہزاروں بھارتیوں سے مودی روبرو مخاطب ہوتے ہیں‘ ان کے بہانے اسی خطاب کوکروڑوں بھارتی بھی ٹی وی پر دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اس لیے مودی یا مودی کی جگہ جو بھی ہوگا‘وہ اندرونی معاملات کو ضرور اٹھائے گا۔جب سننے والے اندرونی ہوں گے تو معاملے بھی اندرونی ہوں گے۔چوتھا‘ اس انٹر نیٹ اور ٹی وی کے زمانے میں جگہ کی قید ختم ہو چکی ہے ۔اندر باہر کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ بھارت کے باہر جا کر بھارت کے بارے میں کوئی کیا بول رہا ہے ‘یہ بے مطلب ہے ۔
ان مثالوں کے باوجودمیں یہ نہیں مانتا ہوں کہ مودی کو اب چناو ی مشن کے 'موڈ‘ سے باہر آنا چاہئے ۔کہنا بہت ہوگیا۔ اب کچھ کر کے دکھانا چاہئے۔
گجیندر کی موت‘ بُدھو بکسا اور لیڈر حضرات
عام آدمی پارٹی کی ریلی میں گجیندر سنگھ کی جو موت ہوئی‘ اسے کیا کہا جائے ؟خود کشی یا موت؟حادثہ یا سوچی سمجھی سازش؟ گجیندر خود کسان تھایا ناامید لیڈریا پگڑیوں کا تاجر؟اس وقت پولیس کیا کر رہی تھی ؟
یہ سب سوال ایسے ہیں کہ ان کا جواب ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ یہ گجیندر سنگھ کون تھا؟جیسے ہی اس کی موت کی خبر آئی صحافیوں نے اس کا ٹھکانہ ڈھونڈنکالا۔وہ راجستھان کے پوسا ضلع کے ایک گاؤں کامقیم تھا۔ اس کے خوشحال خاندان میں کھیتی باڑی ہوتی ہے لیکن وہ خود پگڑیوںکی تجارت کرتا تھا۔وہ پگڑی پنڈت تھا۔اسے پگڑی باندھنے کی ایسی مہارت حاصل تھی کہ کہتے ہیں کہ پندرہ بیس سیکنڈ میں کسی کے بھی سر پر پگڑی باندھ سکتا تھا ۔اس نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن ‘اٹل بہاری واجپائی اور پتا نہیں کس کس لیڈر کے سر پر آناً فاناً پگڑی باندھ کر شہر ت حاصل کی تھی۔اس کی کئی تصاویر اب اخباروں میں بھی چھپ رہی ہیں ۔شہرت کا یہ جنون اسے سیاست میں بھی کھینچ لایا۔لیڈروں کو جیسے اخباروں میں 'چھپاس‘ اور ٹی وی پر 'دکھاس‘کی بیماری ہوتی ہے ‘ویسے ہی اس کو بھی تھی۔ سیاسی لیڈروں کو جتنی سینت میت میں شہرت ملتی ہے ‘کسی کو نہیں ملتی ۔کوئی بھی کوڑی پتی راتوں رات کروڑ پتی بن جاتا ہے ۔اس لیے پہلے گجیندر نے بی جے پی میں جاکر ایم ایل اے کا چناؤ لڑا لیکن ہار گیا۔ دوبارہ ٹکٹ نہ ملنے پر وہ سماج وادی پارٹی سے لڑا لیکن پھر شکست نصیب ہوئی ۔پھر کانگریس میں اس نے اپنی قسمت آزمائی۔ وہاں دال نہ گلنے پر اب عام آدمی پارٹی سے نتھی ہو گیا۔
عاپ میں بھی وہ جلوہ نہیں دکھا پایا۔وہاں اس سے بھی کہیں زیادہ خواہش مند لوگ بھرے پڑے ہیں ۔اس سے بھی بڑے نوٹنکی باز!اس نے اپنے لیڈروں کو مات کرنے کے لیے یہ ترکیب نکالی تھی۔ لیڈر سٹیج پر چڑھے تو وہ درخت پر چڑھ گیا۔درخت ظاہر ہے کہ سٹیج سے بھی اونچا تھا۔اس نے لیڈروں سے بھی زیادہ اونچی آواز میں چلاناشروع کردیا لیکن لائوڈ سپیکر کے شور میں اس کی آواز ڈوب گئی۔ ناامید ہوکراس نے اپنے گمچھہ (تولیہ نما کپڑا) اپنی گردن کے گرد لپیٹ لیاتاکہ پھانسی لگانے کے اس ناٹک کو تو ٹی وی چینل دکھائیں‘ لیکن کہتے ہیں کہ اس کا پاؤں پھسل گیا اور گمچھہ پھانسی کا پھندا بن گیا۔سارا ملک سن ہو کر رہ گیا۔ٹی وی چینلوں کے پنکھ نکل آئے ۔وہ اڑنے لگے۔ لیڈروں کی چاندی ہوگئی ۔وہ ایک دوسرے پر سازش ‘لاپروائی ‘بے رحمی اور ظالم ہونے کے الزام لگارہے ہیں۔ کسانوں کی بری حالت پر آنسو بہا رہے ہیں لیکن کوئی ایسا کام نہیں کر رہے ‘جس سے کسانوں کا فائدہ ہو ۔اس بات کی تفتیش کیے بنا کہ گجیندر کون تھا‘ اس کے ارادے کیا تھے‘ اس کی موت کا کون ذمہ دار ہے‘ لیڈر لوگ ٹی وی کی انگلی پکڑ کر اندھیرے میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ہزاروں سچے کسانوں کی خود کشی سے ان کے سر پر جوں بھی نہیں رینگتی لیکن ایک پگڑی پنڈت کی موت نے انہیں ہمدردی کا ہمالیہ بنا دیا ہے۔ہمارے ٹی وی چینل لیڈروں کی عقل کیسے چُرا لیتے ہیں اور انہیں کیسا ناچ نچاتے ہیں ‘اس کا ثبوت یہ واقعہ ہے۔ امریکی لوگ ٹی وی کو ''بدھو بکسا‘‘(ایڈیٹ باکس)یونہی نہیں کہتے۔
بم بم بھولے راہول بابا
راہول گاندھی کو اس عمر میں کیا سوجھی ؟کیدارناتھ کی زیارت!یہ ان کے کھیلنے کھانے کی عمر ہے یا کیدار اور بدری ناتھ جانے کی ؟آج سے چالیس پچاس سال پہلے جو بھی ان زیارتی مقامات پر جاتا تھا‘وہ یہ مان کر چلتا تھا کہ وہاں سے لوٹے تو اچھا اور نہ لوٹ پائیں تواور بھی اچھا؟اس لیے کہ وہاں سے وہ سیدھے جنت کو جائیں گے۔اب یہ دوسرا چارہ ختم ہو گیا ہے ‘کیونکہ ان مقدس مقامات کی زیارت کافی آسان اور محفوظ ہوگئی ہے ۔ان پاک جگہوں سے سیدھے جنت پہنچنے کی بات بھی کورا اندھا عقیدہ ہی ہے ۔یہ مقدس مقام تو خود جنت ہیں‘ ہوبہو جنت کی طرح خوبصورت۔ راہول جی اس خوبصورتی کے لیے کیدارناتھ گئے ہیں کہ سارا ملک ان کی پشت تھپ تھپائے گا‘کیونکہ بے رحم کانگریسیوں نے انہیں ایک دن بھی چین نہیں لینے دیا۔وہ 56 دن کی ریاضت اور خاموش روزہ کے بعدبھارت لوٹے توانہیں 19 اپریل کی کسان ریلی میں جھونک دیا۔انہیں جو تقریر رٹائی گئی تھی اس کی 'ڈلیوری‘انہوں نے اتنی زوردار کی کہ ان کا مذاق اڑانے والے بھی دیکھتے ہی رہ گئے ۔لوگ پوچھتے رہے کہ کہیں راہول بھی مودی کی طرح 'ٹیلی پرامٹر‘ کے غائب پردے پر سے تو اپنی تقریرپڑھتے نہیں رہے ۔شاید انہیں پتا نہیں ہے کہ راہول جی کے لیے بولنا آسان ہے۔پڑھنے میں انہیں مشکل ہو سکتی ہے۔ جوبھی ہو‘ دوسرے دن راہول نے پارلیمنٹ بھی ہلادی لیکن افسوس ہے کہ ان کے ہم عمر گجیندر کی موت پرلیڈروں کی جو نوٹنکی چل رہی ہے اس میں حصہ لینے کے لیے دلی میں موجود نہیں ہیں۔ وہ دلی میں کیسے رہتے؟نربھیہ کی موت کے وقت بھی وہ غائب تھے‘ اور اب تو خود بھگوان شنکر کا دعوت نامہ تھا۔وہ منع کیسے کرتے؟
مندر کے اندر سے لوٹنے پر انہوں نے کہا کہ مجھے لامحدود طاقت ملی ہے ۔مجھے آگ سی محسوس ہوئی ۔کیا خوب ؟کیسی آگ‘ انہوں نے بتایا نہیں ۔کسی زیارتی کو کیا کبھی آپ نے ایسا کہتے ہوئے سنا ؟بھگوان شنکر نے یہ آگ راہول جی کو اس لئے دی ہے کہ وہ پورے ملک کو گرم کر دیں ۔بھولے ناتھ نے اپنے آشیرواد کے لیے اب ایک دوسرے بھولے ناتھ کو چن لیا ہے۔بھولے ناتھ سارے ملک میں 'بابا‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔کیا عجیب اتفاق ہے کہ راہول جی کو بھی لوگ راہول بابا کہتے ہیں ۔دونوں باباؤں کی کیسی طلسماتی جوڑی ہے‘ بھولے بابا‘ راہول بابا!بم بم! بھولے بھولے !کچھ خاص ٹی وی چینل خود بم بم ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس بم بھولے کو دکھانے کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں ۔بیچارے کانگریسی خاموشی سے یہ امرت پی رہے ہیں۔ ان کا سیکولرزم اندر ہی اندرکھد بدا رہا ہے ۔بھگوا دھاری (اورینج کپڑے والے فقیر)کے ہاتھوں سے تلک لگواکر ہمارے بھولے بھنڈاری راہول کیا سنگھ والوں پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ 56 دن کی ریاضت پتا نہیں ‘کیا کیا رنگ دکھائے گی۔