"DVP" (space) message & send to 7575

مودی کا دورہ ڈھاکہ

وزیر اعظم نریندر مودی کے سبھی بیرونی دوروں کے مقابلے دورہ ِ بنگلہ دیش سب سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کامیابی کی بنیاد بھی من موہن سنگھ سرکار نے رکھی تھی۔ اگر کانگریس اور ترن مول کانگریس کے تعلق اچھے ہوتے اور ممتا بینرجی ڈاکٹرمن موہن سنگھ کے ساتھ ڈھاکہ چلی جاتیں تومودی کو سرحدی معاہدہ کرنے کا نہ توموقعہ ملتااور نہ ہی کریڈٹ ملتا۔
کانگریس سرکار نے اس سمجھوتے کی پوری تیاری کر لی تھی لیکن ممتا کی مخالفت کے سبب وہ بیچ میں لٹک گیا۔کانگریس سرکار نے بنگلہ سرکار کو ایک ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا ۔اب دو ارب ڈالر دیے گئے ہیں‘ یعنی بی جے پی سرکار نے کانگریس سرکار کی روایت کو ہی آگے بڑھایا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کامیاب دورے میں مودی کا کردار گنتی سے باہر ہے ۔حقیقت میں مودی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ممتا کو پٹایا ۔اگر ممتا تیار نہیں ہوتیں تووہ بھی من موہن کی طرح خالی ہاتھ لوٹتے ۔بھارتی ایوان میں سبھی پارٹیوں نے اس سمجھوتے کی مکمل حمایت کی تھی ‘برابر ویسے ہی بنگلہ دیش میں بھی ہوا۔
بیگم خالدہ ضیااور جماعت اسلامی نے بھی خیرمقدم کیا۔مودی کی اس خوبی پر ہماری نظر جائے بنا نہیں رہتی کہ وہ عوامی رابطے کے ماہر ثابت ہوئے ہیں ۔انہوں نے شیخ حسینہ واجد کا دل جیت لیاہے ۔انہوں نے خالص سبزیوں کا طعام بنوا کر بنگالی لوگوں کو تھوڑا ناامید کیا۔وہ ان کو اپنے مچھلی کے کئی اقسام کے کھانے کھلانا چاہتے تھے‘ لیکن مودی نے بنگالی مٹھائیوں کی زبردست تعریف کر کے بھر پائی کر دی ۔اسی طرح سرحدی معاہدہ ‘دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ۔کولکاتہ‘ ڈھاکہ اور اگر تلاگوہاٹی سے بس سروس ‘دونوں ملکوں کی 54 ندیوں کے پانی کا بٹوارہ ‘بجلی تیار کرنا اور چٹ گاؤں بندرگاہ کا بھارتی جہازوں کیلئے کھل جانااور تجارت کو متوازن کرنایہ سب وہ حقیقتیں ہیں ‘جو اس دورے کو غیر معمولی بناتے ہیں ۔لگ بھگ 4000 کلومیٹر کی سرحد پر تار لگانے اور غیر قانونی مداخلت کو روکنے کے بارے میں بھی بات ہوئی ہے ۔مودی نے اپنے دورے کے ماحول کو بنگلہ دیش کی مکتی کے ماحول سے برابری کر کے کثرت کا تعارف ضرور دیا‘ لیکن اس طرح کی کثرت بہتر عوامی رابطے کیلئے کافی کار آمد ہوتی ہے۔
یوگ :مسلمان نقصان میں کیوں رہیں ؟
بھارت سرکار کی پہل پر اقوام متحدہ نے 21 جون کو یوم یوگ کا اعلان کیا ہے۔ ساری دنیا میں یوگ کی دھوم مچے گی‘ لیکن بھارت کے شریعت بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ اگر سکولوں میں مسلمان بچوں کو یوگ کروایا گیا تووہ اس کی مخالفت کرے گا۔بھارت سرکار اور مختلف صوبائی سرکاریں اس پروگرام کو بڑے پیمانے پر چلانے والی ہیں۔ شریعت بورڈ نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اس غیر ضروری یوگ مشن کے خلاف وہ عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے گا‘کیونکہ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے ۔بورڈ کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ نریندر مودی کا یہ مشن بھارت کے وزیر اعظم کا نہیں بلکہ آر ایس ایس کے پرچارک کا معلوم پڑتا ہے ۔
یوگ کے بارے میں یہ غلط فہمی ہونا فطری بات ہے‘ کیونکہ یوگ ہندو دھرم یاہندوئوں کی زندگی کا اٹوٹ انگ رہا ہے۔اسلام ‘عیسائیت یایہودی روائت میں یوگ کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔لیکن یہ کیسے مان لیا جائے کہ یوگ اسلام کے خلاف ہے؟ اگر کوئی مسلمان یوگ کی ریاضت کرے گا تو کیا وہ مسلمان نہیں رہے گا ؟کیا وہ کمتر مسلمان ہو جائے گا؟یوگ میں ایسی کون سی بات ہے ‘جو اسلام کے خلاف ہے ؟بھارت کے کروڑوں مسلمان توے کی روٹی کھاتے ہیں ۔کرتا پاجامہ یا دھوتی کرتا پہنتے ہیں ۔وہ عربوں اور ایرانیوں کی طرح تندوری یا خمیری روٹی نہیں کھاتے ۔جیسی ہندو کھاتے ہیں ‘ویسی کھاتے ہیں۔ تو کیا ان کی مسلمانیت میں کوئی کمی ہو گئی ہے؟ بھارت کے مسلمان افغانیوں اور پاکستانیوں کی طرح شلوار قمیض یا عربوں کی طرح گترا‘جبہ اور کندورا نہیں پہنتے‘ وہ ہندوئوں کی طرح کرتہ پاجامہ یا پینٹ شرٹ پہنتے ہیں تو کیا وہ ہندو ہو گئے ہیں ؟ہمارے کتنے مسلمان بھائی ہیں‘جو عربی اور فارسی بولتے ہیں ؟کروڑوں ایسے ہیں جو اردو بھی نہیں جانتے ۔اردو تو ہندوی زبان ہے۔ ہمارے مسلمان ہندی‘اردو‘گجراتی ‘مراٹھی ‘تامل ‘تیلگواور ملیالم مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ تو کیا ہم یہ مان لیں کہ وہ اسلام سے بھٹک گئے ہیں؟بنگلہ دیش کے مسلمان تو بنگلہ ہی بولتے ہیں ۔
اسلام یا عیسائی مذہب جہاں جہاں گئے ہیں ‘وہاں وہاں انہوں نے ملک اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا ہے۔ یوگ ابھیاس بھارت میں ہزاروں سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ ہندو دھرم کے پیدا ہونے کے بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ ساری دنیا اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ہم اپنے مسلمانوں کو نقصان میں کیوں رکھیں؟ انہیں صحتمند کیوں نہ بنائیں وہ لمبی عمرتک کیوں نہ زندہ رہیں ؟
یوگ کرتے وقت 'اوم‘ لفظ کے اچارن کا سوال ہے‘ آپ اوم کی جگہ 'اللہ‘ کہہ لیجئے۔بات تو ایک ہی ہے ۔وہ اوپر والا تو ایک ہی ہے اور سب کا ہے ۔حالانکہ آج کل 'اللہ ‘اور 'خدا‘ کے الفاظ پر بات ہو رہی ہے۔ عربی لوگ 'اللہ حافظ ‘ بولتے ہیں جبکہ ایرانی‘ بھارتی ‘پاکستانی اور بنگالی مسلمان 'خدا حافظ‘۔ ان حالات میں اوم اور سوریہ نمسکار پر تو اعتراض ہوگا ہی !میں اپنے مسلمان لیڈروں سے کہتا ہوں کہ وہ لفظوں کی پونچھ پکڑ کر ان پر لٹکے نہ رہیں ۔اپنے کروڑوں مسلمانوں کے بھلے اور ترقی کی باتیں سوچیں ۔وزیر اعظم تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان پر ضرورت سے زیادہ توجہ نہ دیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں