کیا بھارت کی وفاقی سرکار اور سبھی صوبائی سرکاریں تلنگانہ سرکار کو اپنا بنائیں گی؟بھارت ہی نہیں ہمارے پڑوسی ملکوں کی سرکاروں کو بھی چندر شیکھرراؤ سرکار سے بڑا سبق سیکھنا چاہئے ۔ایسا کیاکر دیا ہے ‘تلنگانہ کی اس نئی نویلی سرکار نے ؟یہ بھارت کا ایک دم نیا صوبہ ہے اور چندر شیکھر زندگی میں پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے ہیں ۔
تلنگانہ سرکار نے کیازبردست اصول بنایا ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی صنعت کولگانے کی اجازت میں دیری کرنے پر متعلقہ افسرکو روز ایک ہزار روپیہ جرمانہ بھرنا پڑے گا۔دوسو کروڑ کے صنعت کو پندرہ دن میں اور چھوٹی صنعت کو ایک ماہ میں اجازت دینی ہوگی ۔اگر اس عرصے میں اجازت نہ دی گئی تومان لیا جائے گا کہ اجازت مل گئی ہے ۔اسی طرح ساری فائلیں ایک ہی کھڑکی سے پاس ہوں گی‘سارے معاملات کا رینیوئل اپنے آپ ہوگااور خود ہی مستند مانا جائے گا۔
بد عنوانی ہو تی ہی اس لیے ہے کہ سرکاری افسروں کو معاملات لٹکائے رکھنے کی چھوٹ ہوتی ہے ۔لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے منہ مانگی رشوت دیتے ہیں ۔وہ حساب لگاتے ہیں کہ دیر کی وجہ سے ہونے والا نقصان رشوت سے کافی بڑا ہوگا تورشوت دے کر اپنی جان کیوں نہ چھڑائیں؟دیری کرنے کے کئی بہانے ہوتے ہیں۔اب یہ بہانے بازی نہیں چلے گی ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود افسر کو ہزار روپے روزانہ اپنی جیب سے بھرنے پڑیں گے۔ تلنگانہ سرکار کو میں مبارک دیتا ہوں لیکن خبردار بھی کرتا ہوں کہ کہیں اس کے افسر نوکری چھوڑ کر بھاگ نہ جائیں ؟پندرہ دن اور ایک ماہ کا وقت کس تاریخ سے طے ہوگا؟اگر کوئی عرضی دینے والا عرضی کے سبھی سوالات کا جواب دینے میں ایک ماہ لگا دے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔ اس کے علاوہ‘ اگر اس انقلابی اصول کے چلتے سیکڑوں صنعت کی درخواستیں ایک ساتھ آئیں توکیا پندرہ دن اور ایک ماہ کا وقت ٹِک پائے گا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہزار روپیہ روز جرمانے کے خوف سے اندھا دھند اجازتیں جاری ہو جائیں؟اگر ایسا ہوا توبد عنوانی کئی گنا بڑھ جائے گی ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جلدبازی میں بنا سر اور بنا پیر کے کاموں کو ہری جھنڈی مل جائے ‘جو بعد میں جا کر مقدمے بازی میں پھنس جائے ۔
جو بھی ہو یہ نیاطریقہ ہے اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے ۔اگر یہ کامیاب ہو گیا تواس سے صنعتکاروں کو ہی نہیں‘ سبھی سرکاری اجازت ناموں پر کم و بیش لاگو کیا جانا چاہئے تاکہ ہماری سرکاریں حقیقت میں عوام کے حاکم نہیں خادم بن سکیں ۔
پاکستان کا ردعمل
بھارت سرکار کے کچھ وزیروں کے بیانات کو لے کر بھارت کے اندراور باہر غیر ضروری طوفان اٹھا ہوا ہے۔ ایک وزیر نے کہہ دیا کہ پاکستان ڈر کے مارے چلا رہا ہے کیونکہ بھارت کی فوج نے برما کے اندر گھس کر باغیوں کو مارا ہے۔ پاکستان کے جن لیڈروں نے اس بیان پر رد عمل ظاہر کیا‘ ان میں پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ سابق جنرل مشرف بھی شامل ہیں ۔انہوں نے کہہ دیا کہ تم پاکستان کو برما مت سمجھ لینا،یہاں تک تو ان کی بات ٹھیک ہے‘ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہاں ایٹم بم بیچ میں کیسے آ گئے؟
نواز شریف اور مشرف‘ دونوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ یاد رکھنا ‘ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں ۔ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے۔ ہماری خود مختاری پر کوئی حملہ کرے گا تودیکھ لیں گے۔ان پاکستانی لیڈروں کو ایسے بیانات جاری کرنا ہی چاہئیں تھے‘ لیکن انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ کس کے بیانوں پر اپنا رد عمل دے رہے ہیں؟جن دو وزیروں نے یہ بیان دیے ‘وہ وفاقی سرکار میں پہلی بار آئے ہیں اور انہوں نے یہ بیان کسی پالیسی کے تحت نہیں دیے تھے‘ عادت کے مطابق ذاتی رد عمل دیا‘ نہ وزیراعظم نے نہ وزیر خارجہ نے اور نہ ہی سرکاری ترجمان نے اس حوالے سے کوئی بات کی۔
بھارت سرکار کو پتا ہے کہ وہ چین اور پاکستان میں ایسی کوئی کارروائی کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ پڑوسی ملک میں گھس کر کوئی فوجی کارروائی تب کرتا ہے ‘جب یا تو اس کی رضامندی ہو یا وہ بالکل کمزور ہویا آپ پر مدار رکھتا ہو۔پاکستان پر یہ تینوں باتیں نافذ نہیں ہوتیں!یہ جانتے ہوئے بھی پاکستانی لیڈروں نے ردعمل ظاہر کیا۔ ڈھاکہ میں مودی نے پاکستان پر دہشتگردی پھیلانے کا چلتے چلتے جو الزام لگایاتھا‘ اس پر بھی پاکستانی ایوان میں قراردادپاس کی گئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ دوسرے ملک میں جا کرتیسرے ملک کی مذمت کرناسیاسی نظریہ سے نامناسب ہے ‘پھر بھی پاکستان کو اتنا سخت ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا۔
پاکستان اور چین نہیں ‘برما!
بھارتی فوج کے کمانڈوز نے وہ کام کر دکھایا ہے ‘جس کی وکالت میں اب سے چالیس سال پہلے سے کرتا رہا ہوں ۔انہیں مبارک!اس معاملے میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور قومی دفاعی صلاح کار اجیت ڈوبھال کا کردار اہم ہے ۔خارجہ سیکرٹری جے شنکر نے بھی برما کو سادھے رکھا۔ ان کی اس حوصلہ مند کارروائی کا اثر بھارت کے دوسرے علاقوں میں متحرک باغیوں پر بھی پڑے گا۔ جنوبی ایشیا کی بڑی قوت ہونے کا پہلا فرض یہی ہے کہ بھارت اپنے باغیوں کو اڑوس پڑوس میں پناہ نہ لینے دے ۔اس بار ہماری فوج نے برما میں گھس کر ناگاغداروں کا صفایا کر دیا۔بین الاقوامی قانون میں اسے 'ہاٹ پرسوئٹ‘ کہتے ہیں۔ لیکن قاتل باغیوں یا دہشتگردوں کا پیچھا تبھی ہو سکتا ہے جب پڑوسی ملک راضی اور اس کی طرف سے خاموش منظوری ہو۔ بین الاقوامی قانون تو اس کی اجازت دیتا ہے لیکن جس پڑوسی ملک میں پناہ لے کر باغی حملے کرتے ہیں ‘اگر وہ آپ کے خلاف ہیں تو
لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں ۔آپ اپنے دو چار درجن باغیوں کو مارنے کیلئے پڑوسی کی سرحد میں گھسیں اور اس گھسنے کے سبب دونوں ملکوں کے بیچ سیدھی مٹھ بھیڑ یا جنگ چھڑ جائے تو یہ سودا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے ۔برما سرکار کا رخ تعاون کا تھا‘ اس لیے اس معاملے نے طول نہیں پکڑا۔اگر ہم ایساہی قدم چین یا پاکستان کی حد میں گھس کر اٹھاتے تو ظاہر ہے ہمیں منہ توڑ جواب دیا جاتا۔
چین اور پاکستان ایسے پڑوسی ہیں ‘جن کی برابری دیگر پڑوسی ملکوں سے نہیں کی جا سکتی ۔ایک تو یہ دونوں ملک بڑے ہیں ‘ایٹمی طاقت سے بھرپور ہیں اور دونوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات دوستانہ نہیں ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی سرحد میں گھس کر بھارت اپنے باغیوں یا دہشتگردوں کا صفایا تبھی کر سکتا ہے جبکہ ان دونوں ملکوں کے ساتھ بھارت کے تعلق دوستانہ ہوں ۔اگر ان ملکوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات اچھے ہوں تویہ ملک اتنے طاقتور ہیں کہ وہ اپنی زمین کا استعمال بھارت کے خلاف ہونے ہی نہیں دیں گے۔ان دونوں پڑوسیوں کے ساتھ آج بھارت کے جیسے تعلق ہیں‘ ان کے متعلق بھارت کے لیڈر صرف ڈینگ مار سکتے ہیں۔ اپنے 56 انچ کے سینے کو اپنی بنڈی کے نیچے پھلاتے جھولاتے رہ سکتے ہیں ۔بھارت کی سبھی سرحدوں کی حفاظت کرنے کیلئے فوجی مستعدی تو ضروری ہے لیکن ماہرانہ انداز سیاست ‘چالاکی ‘دور اندیشی اور خارجہ پالیسی کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے پرچار کی رفتار میں جوتیزی آئی ہے اس میں بنیاداور دور اندیشی کا شامل ہونا بے حد ضروری ہے۔