"DVP" (space) message & send to 7575

ریزرویشن : تیسرا راستہ

ریزرویشن کو لے کر جتنی بڑی تحریک گجرات میں چھڑی ہے‘ شاید پہلے کہیں بھی نہیں چھڑی ۔
بیس لاکھ لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ملک کے کسی بھی لیڈر کے بس کی بات نہیں ہے ۔گجراتی پٹیلوں کے لیڈر ہاردک پٹیل کو گرفتار کر کے سرکار نے اسے ملک کا سب سے جوان لیڈر بھی بنا دیا ۔تشدد بھی ہوا‘ دس سے پندرہ لوگ ہلاک بھی ہوئے ۔یہ تحریک اب پھیلے بنا نہیں رہے گی ۔سارے ملک میں پھیلے گی ۔بہار کے کُرمی‘ راجستھان کے گوجر ‘ہریانہ کے جاٹ ‘مہاراشٹر کے مراٹھے (مرہٹے)‘ آندھرا اور تلنگانہ کے کما اور ریڈی ‘کرناٹک کے ووکلیگا اور کچھ محروم اقلیتیں بھی زور لگائیں گی کہ انہیں بھی ریزرویشن ملے‘ مالِ مفت دلِ بے رحم ۔بہتی گنگا میں کون نہیں ہاتھ دھوئے گا؟
گجرات میں چلی یہ تحریک ٹھیک سے سنبھالی نہ گئی تو مان لیجیے بھاجپا کا تو بھٹا ہی بیٹھ جائے گا۔ گجرات کے پٹیلوں کے پاس تعداد اور وسائل اتنے ہیں کہ وہ مودی اور آنندی بین پر بہت بھاری پڑ سکتے ہیں ۔انہی پٹیلوں نے لگ بھگ تیس سال پہلے ریزرویشن کے خلاف تحریک چلائی تھی ۔اس وقت کانگریس کے وزیر اعلیٰ مادھو سنگھ سولنگی نے 'کھام ‘ ذات والوں کو ریزرویشن دیاتھا ۔اسکی مخالفت میں لگ بھگ 100 لوگ مارے گئے تھے ۔بھاجپا کے پاس ابھی دو ہی راستے ہیں ۔یا تو وہ کچھ نئی ذات والوں کیلئے ریزرویشن کے دروازے کھول دیں یا تحریک کو بندوق سے دبا دیں ۔یہ دونوں راستے دماغی دیوالیہ پن کے ثبوت ہوں گے۔ ایک تیسرا راستہ بھی ہے ۔وہ یہ کہ وہ ملک میں ریزرویشن کی مکمل مراعات پر ایک بار پھر سے سوچیں اس کیلئے فی الفور کمیشن کا اعلان کرے ‘ جس کا کام یہ جانچنا ہو کہ آج تک ریزرویشن سے کیا کیا فائدے ہوئے کیا ذات کی بنیاد پر آنکھ بند کر کے ریزرویشن دینا مناسب ہے ؟ریزرویشن کا مقصد کیا ہے؟ اس کی درست بنیاد کیا ہو؟ کیا تھوک ریزرویشن ضروری ہے؟کیا ریزرویشن کو جاری رکھنا ضروری ہے ؟اگر تھوک ریزرویشن دینا ہے تو کن نئی ذات والوں کو جوڑا جائے اور کن کو ہٹایا جائے ؟کیا سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن دینا ضروری ہے؟ اگر ہاں تو فوج ‘عدالتوں ‘نجی نوکریوں میں کیوں نہیں ؟کیا صرف اصلی محروم لوگوں کو صرف تعلیم میں ریزرویشن دینا کافی نہیں ہے؟
یہ صحیح وقت ہے‘جبکہ ریزرویشن کے بندوبست کے بارے میں یہ بنیادی سوال کھڑے کیے جائیں ۔اگر ریزرویشن کی تحریکوں کو لاٹھیوں اور گولیوں سے دبانے کی کوشش کی گئی تو ہمارے لیڈر ہی دب مریں گے۔
بد عنوانی کے سب سے بڑے اڈے
سیاسی پارٹیوں کو اطلاع کے حق کے نیچے لانا ہماری سرکار کو بالکل بھی پسند نہیں ہے ۔سپریم کورٹ نے جب سرکار سے پوچھا کہ اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے تو سرکار نے کہا کہ اگر ملک کی سبھی پارٹیاں اس حق کے تلے رکھ دی گئیں تو وہ ٹھیک سے کام نہیں کر پائیں گی ۔اپوزیشن اور اقتداری ایک دوسرے کے خلاف خبریں نکال کر ایک دوسرے کا جینا حرام کر دیں گی ۔
سرکار نے ٹھیک کہا ہے لیکن کافی کم کہا ہے ۔میں یہ مانتا ہوں کہ اگر انکے سرکاری شعبوں کی طرح ان پارٹیوں کے بارے میں بھی لوگوں کو سب باتیں معلوم پڑنے لگیں تو یہ پارٹیاں کام کرنا ہی بند کر دیں گی۔ ان کی دکانوں پر تالے پڑ جائیں گے ۔ہماری سیاسی پارٹیاں ہی بد عنوانی کے سب سے بڑے اڈے ہیں ۔سرکار میں جتنی بد عنوانی ہوتی ہے ‘اسکی جڑ ان پارٹیوں میں ہی ہوتی ہے ۔آجکل سیاست کی تجارت سبھی تجارتوں میںسب سے بڑی اور منافع بخش تجارت ہے۔ اس میں کروڑوں اربوں روپیہ روز آتا اور روز جاتا ہے ۔کوئی حساب رکھا نہیں جاتا‘ نہ کھاتہ نہ بہی۔جو لیڈر کہہ دے ‘وہی صحیح ۔پارٹیوں کے لیڈر‘ وزراء ‘ارکان پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز سے بھی باقاعدہ وصولی کرتے ہیں ۔یہ لوگ سرکاری افسروں سے 'چوتھ‘ وصولتے ہیں ۔افسر بھی بے خوف ہو کر ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔مکمل انتظامیہ میں بد عنوانی ہی سسٹم بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں ان پارٹیوں کی ساری آمدنی کا اعلان کرنا بھارتی سیاست کی صفائی کا پہلا حل ہے ۔
سیاسی پارٹیوں کو پبلک اتھارٹی نہ ماننا سب سے بڑا ڈھونگ ہے۔ سرکاری شعبوں سے بھی زیادہ کھلے عام کوئی ہے تو یہ سیاسی پارٹیاں ہیں۔انکی مالی پوزیشن ہی نہیں انکی اندرونی بحث ‘فیصلے اور اسکے عمل بھی سر عام کیے جانے چاہئیں ۔ان میں اندرونی جمہوریت کو بڑھاوا تبھی ملے گا ۔ابھی ہماری پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح کام کرتی ہیں ۔جیسے کمپنیاں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو اپنا جھوٹا سچا حساب دے دیتی ہیں ‘یہ پارٹیاں بھی دے دیتی ہیں ۔انفارمیشن کے حق سے سبھی پارٹیوں کو بڑا پرہیز ہے ‘کیونکہ سبھی پارٹیاں بد عنوانی کے پہاڑ پر سوار ہیں ۔یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن ان پارٹیوں پر نگرانی رکھتا ہے۔ انکم ٹیکس اور الیکشن کمیشن کو کون چلاتے ہیں ؟افسر لوگ !ان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ ان ہاتھیوں کا محاسبہ کریں؟ ان پارٹیوں کی سبھی حرکتوں پر آمدنی اخراجات‘ پارٹی انتخابات ‘پارٹی فیصلے وغیرہ کا اگر پتا سیدھا عوام کو چلتا رہے تو یہ پارٹیاں شفاف‘ تندرست اور مضبوط ہوں گی اوربھارت کی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی ہی نہیں ‘سب سے اچھی جمہوریت بن جائے گی ۔
راجستھان ہائی کورٹ کا مشکل فیصلہ
راجستھان ہائی کورٹ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اس نے اپنے فیصلے میں کہہ دیا کہ سنتھارااور سلیکھنا(اپنی مرضی سے زندگی خود ختم کرنا) اور خود کشی میں کوئی فرق نہیں ۔سنتھارا اور سلیکھنا جین مذہب کی ایسی روائت ہے‘ جس کے دائرے میں رہ کر جینی لوگ روٹی اور پانی ترک کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔اسے سمادھی میں موت بھی کہا جاتا ہے ۔اب اگر یہ فیصلہ نافذ ہو گیا تو سنتھارا کرنے والے ہر جین کو وہی سزا بھگتنی ہوگی جو خود کشی کرنے والے کوحاصل ہوتی ہے ۔عدالت کے اس فیصلے کے خلاف الگ الگ شہروں میں ہزاروں جین سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔
اگر عدالت نے یہ فیصلہ ان لوگوںکو دھیان میں رکھ کر کیا ہے‘ جنہیں زبردستی یا معاشی دباؤ میں سنتھارا کیلئے پابند کیا جاتاہے تو مانا جائے گا کہ اس فیصلے کے پیچھے خاص مطلب رحم کا ہے یا زندگی کے حق کا ہے لیکن ایسی ایک بھی مثال آج تک سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی‘ بلکہ اس کے اُلٹ بھارت کا جین سماج ساری دنیا میں اس نظر سے بے جوڑ ہے کہ اس کے بچوں کو بچپن سے ہی روزوں کے ذریعے خود پر برداشت کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔سال میں ہر جین کم از کم ایک مرتبہ تو روزہ رکھتا ہی ہے لیکن دوسرے مواقع پر جین لوگ ایک ایک ماہ تک کھانا تو دور رہا‘پانی بھی نہیں پیتے ۔اس عمل کا نام سنتھارا ہے ۔اپنی مرضی اور خوشی سے جسم کا خاتمہ کرنے کو خود کشی کہنا بالکل نامناسب ہے ۔خود کشی کیوں کی جاتی ہے؟ گناہ کی یاد‘ بے عزتی کو برداشت نہ کرنا اور ناکامی کے سبب! غصہ‘ ناامیدی‘ ہمت کے ٹوٹ جانے کے سبب !کیا سنتھارا کے اسباب بھی یہی ہوتے ہیں؟ نہیں۔ سنتھارا کرنے والاجوش‘عزت ‘نیک کام‘ خدمت اور ترک عمل سے مکمل ہوتا ہے ۔اگر سنتھارا خود کشی ہے تو تاحیات بھوک پر بیٹھے رہنا کیا ہے؟گاندھی ‘ونوبا ‘کرپاتری جی اور کئی شنکرآ چاریوں کو خود کشی کیلئے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ۔؟
عدالت کا یہ کہنا کہ سنتھارا یا سمادھی میں موت جین مذہب کا بنیادی اصول نہیں ہے ‘عجیب سا ہے ۔یہ کون طے کرے گا؟جین آچاریہ کریں گے یا انگریزی قانون کے جج لوگ ؟خاص اصول کسی کا قتل نہ کرناہے چاہے وہ جانور ہو یا آدمی اور سنتھارا تو اس کے برتاو ٔمیں نافذ کرنا ہے۔ موت جیسے سب سے مشکل وقت کو خوشی میں تبدیل کرنے سے بڑی اہنسا اور کیا ہو سکتی ہے ؟جسم کے خاتمے کی یہ عجیب بھارتی روایات بھگوان رام ‘‘مہاویر ‘ اور بھیشم پتاما کے زمانے سے چلی آ رہی ہیں۔ اپنے دماغ سے جسم کے غرور کو آزاد کرنا تو نجات ہی ہے ۔کسی کی روحانیت کو پاش پاش کرنا کسی بھی قانون کے بوتے (بس) کی بات نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں