"DVP" (space) message & send to 7575

لاہور : مودی کا جوأ

وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک لاہور پہنچ کر کرشماتی کام کیا ہے ۔وہ گئے تھے روس اور افغانستان ‘اب پاکستان بھی اس دورے میں جڑ گیا ۔ان تینوں ملکوں کا ایک ساتھ دورہ آج تک کسی بھی لیڈر نے کبھی نہیں کیا!بھارت ‘روس ‘افغانستان اور پاکستان کی بات جانے دیجئے ‘ کسی امریکی یا یورپی لیڈر نے مندرجہ بالا تینوں ملکوں کا دورہ ایک ساتھ کبھی نہیں کیا ۔اس نظریے سے مودی کا یہ دورہ غیر معمولی رہا ۔وہ اس نظر سے بھی غیر معمولی تھا کہ جنوب ایشیاکے تین بڑے بیٹوں کی ولادت اسی دن تھی ۔محمدعلی جناح ‘اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف!یعنی یہ ڈبل اتفاق ہوا۔
یہ بھی شاید پہلی بار ہوا کہ ہمارے بھارتی لوگوں کا صبح کا ناشتہ کابل میں ‘لنچ لاہور میں اور ڈنر دلی میں ہوا ۔میرے خوابوں کا جنوب ایشیا‘جسے میں آریہ ورت کہتا ہوں ‘وہ یہی ہے۔گزشتہ پچاس برس سے میں اسے ہی کامیاب کرنے کی کوشش کر رہاہوں۔کیا کل تک کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک ہی دن میں کوئی وزیراعظم تین ملکوں میں جا سکتا ہے ؟وزیراعظم کے ساتھ گئے سو لوگوں سے کسی نے لاہور ہوائی اڈے پر یہ نہیں پوچھا کہ آپ کے پاس ویزا ہے یا نہیں ؟ہم سارے جنوب ایشیا کے ڈیڑھ ارب لوگوں کو یہ سہولت کیوں نہیں دے سکتے ؟مودی کے اس چند گھنٹے کے دورے نے پاکستان کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔چھو لیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس کا وقت مودی نے اپنی نادانی کے سبب گنوادیا‘ امید ہے کہ ‘اب اسکی بھرپائی ہو جائے گی ۔مودی نے میاں نواز کی والدہ کے پاؤں کیا چھوئے ‘سارے پاکستان کے دل کو چھو لیا۔ میاں نواز نے بھی ‘جیساکہ میں انہیں برسوں سے جانتا ہوں ‘اپنی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں رکھی ۔
لیکن ضروری یہ ہے کہ مودی اس غیر معمولی بات کو صرف نوٹنکی بناکرنہ چھوڑ دیں جیسے کہ انہوں نے اپنی حلف برداری تقریب کو بنا دیا تھا ۔پھر بھی ڈیڑھ برس اسلئے کھو گئے کہ مودی کو خارجہ پالیسی کی باریکیوں کی سمجھ نہیں ہے ۔اس غیر معمولی پہل سے جذبات کی زمین تیار ہوئی ہے ‘اس پر بہتر تعلقات کے پودے کو لگانے میں مکمل سیاست کی تیاری کی جانی چاہیے ۔اسلئے مودی کو اپنی پرانی کھال اتارنی ہوگی ‘افسروں کی گھیرا بندی توڑنی ہوگی اور دوراندیش سوچ سے کام لینا ہوگا ۔اگر ان کا یہ لاہور دورہ صرف ٹی وی اور اخبار کا واقعہ بن کر رہ گیا تو مودی کا رتبہ پیندے میں بیٹھے بنا نہیں رہے گا ۔انہوں نے یہ زبردست خطرہ مول لیا ہے۔جوا کھیلا ہے۔اگر اس معاملے میں وہ کامیاب ہوگئے تو اگلی بار بھی ان کا وزیراعظم بننا طے ہے ۔
بھارت اور جاپان کے مفادات کی جگل بندی
گزشتہ ڈیڑھ برس میں وزیراعظم نریندر مودی نے جتنے بیرونی دورے کیے اور بیرونی ممالک کے لیڈر بھارت آئے شاید آزاد بھارت کی تاریخ میں اتنے دورے پہلے کبھی نہیں ہوئے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ جاپانی وزیراعظم شنزوآبے کا یہ دورہ بھارت سب سے زیادہ کارآمد معلوم پڑتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ جاپان اچانک بھارت پر مہربان ہو گیا ہے ‘یا بھارت میں اسے کوئی کرشماتی کشش دکھائی پڑ گئی ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ آبے کے استقبال میں بھارت نے اپنی آنکھیں بچھا دی ہوں اور انہوں نے خوش ہو کر تیس بلین ڈالر کی دولت بھارت پر قربان کر دی ہو۔ اسکے پیچھے مودی کی پہل تو ہے ہی لیکن اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کے زمانے میں جو بیج بوئے گئے تھے ‘وہ اب پھل دے رہے ہیں ۔
حقیقت میں یہ وہ وقت ہے ‘جبکہ بھارت اور جاپان کے مفادات کی جگل بندی اپنی آخری منزل کی طرف ہے ۔یوں تو بھارت اور جاپان فطری دوست ہیں ‘ایک تو بودھ مذہب ہے‘دونوں ملکوں کو دل سے جوڑتا ہے ‘دوسرا ‘دونوں ملکوں میں ایشیائی جذبہ ہے ‘جس پہ چلتے جاپان نے 1904 ء میں روس کو ہرایا تھا اور 1947 ء میں بھارت نے برطانیہ کو باہر دھکیلا تھا ‘تیسرا چانکیہ کا کہنا ہے ‘جس کے مطابق پڑوسی کا پڑوسی ہی سچا دوست بن سکتا ہے ۔چین بھارت کا پڑوسی ہے اور چین کا پڑوسی جاپان ہے۔ویسے ہی جیسے کہ ہمارا پڑوسی پاکستان ہے اور اس کا پڑوسی افغانستان ہے ۔نیتا جی سبھاش چندر بوس کو آزاد ہند فوج بنانے میں ان دونوں ملکوں ‘افغانستان اور جاپان نے دل کھول کر مدد کی تھی ۔
اب تک بھارت اور جاپان کے تعلقات تو نہایت ہی گہرے ہو جانے چاہئیں تھے لیکن دوسری عالمی جنگ میں ہارے جاپان کی خارجہ پالیسی پر امریکہ کا قبضہ ہو گیا تھا ۔بھارت کسی حد تک غیر جانبدار رہا اور روس کا حمایتی رہا ۔اسلئے سرد جنگ کے دوران دونوں ملکوں میں دوریاں بنی رہیں۔اس کے علاوہ جاپان کو اس بات کا بھی ملال رہا کہ وہ ایٹمی قوت سے بھرپور ہوتے ہوئے بھی ایٹم بم نہیں بنا سکا ‘کیونکہ انہوں نے اس کے لئے دستخط کر رکھے تھے لیکن بھارت نے پہلے 1947ء اور پھر 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر دیے ۔بھارت کی بجائے جاپان نے چین کی بڑھ چڑھ کرمدد کی‘کیونکہ چین امریکہ تعلقات بڑھنے لگے تھے جاپان کے ذریعے دی گئی 450 بلین ڈالر کی امدادنے ہی چین کو عالمی فیکٹری بنا دیا۔ لیکن اب چین جاپان تناؤ بڑھ رہا ہے ۔دونوں کی تین سوبلین ڈالر کی تجارت کم ہو رہی ہے ۔جاپان اب نئے بازاروں کی تلاش میں ہے ۔جاپان اب چین سے کچھ نہ کچھ خطرہ محسوس کر رہا ہے ۔یوں بھی بھارت اور جاپان دونوں ہی جمہوری ملک ہیں ۔
اس دورہ کے دوران دونوں ملکوں کی جو مشترکہ پریس کانفرنس جاری ہوئی ہے ‘اگر اسے آپ دھیان سے پڑھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ دونوں ملک گہرائی پر کس سطح کی دعا کررہے ہیں ۔بھارت نے کئی ملکوں کو اپنا جنگی حصہ دار بنایاہے لیکن جاپان کو اس نے 'خاص ‘حصہ دار کہا ہے ۔اس خاص جنگی حصہ داری کے تین پہلو مجھے صاف صاف دکھائی پڑتے ہیں ۔ایک تو پندرہ بلین ڈالرکا جوہری پروگرام جاپان شروع کرے گا ۔اربوں کھربوں روپیہ لا کر جاپان بھارت میں جوہری بھٹیاں لگائے گا تاکہ بھارت کو جوہری توانائی مل سکے ۔دوسرا‘ جاپانی پیسہ اور تکنیک سے بھارت میں اب ہتھیار بنیں گے اور یہاں سے بیچے بھی جائیں گے ۔تیسرا‘بھارت کو اس کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ جوڑنے کیلئے زمینی اور بحری راستوں کی اعلیٰ سہولیات مہیا کی جائیں گی ۔اس طرح چین کے' نئے شاہراہ ریشم ‘کی نئی پالیسی کے مقابلے کی ایک نئی پالیسی کھڑی کی جا رہی ہے ۔جوہری اقرارنامے پر ابھی دستخط ہوئے نہیں ہیں ۔صرف اس کا عزم ہوا ہے ۔ابھی اسے جاپانی پارلیمینٹ کے ذریعے کنفرم بھی کیا جانا ہے ۔اس کے علاوہ اس میں کئی قانونی پیچ بھی ہیں ۔سب سے زیادہ دھیان دینے لائق حقیقت یہ ہے کہ جاپان نے ابھی سے واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت نے آئندہ کوئی ایٹمی دھماکہ کیا تو جوہری امداد بند کر دی جائے گی ۔مجھے یقین ہے کہ مودی سرکار اس مدعہ پر گھٹنے نہیں ٹیکے گی ۔یہ بھی پتا نہیں کہ جوہری بھٹیاں جب تک بن کر تیار ہوں گی ‘تب تک جوہری بجلی دنیا میں قابل قبول بھی ہوگی یا نہیں ؟چیرنیبل اور فکوشیما کے حادثات نے کئی ملکوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں ۔
جہاں تک 12 بلین ڈالر کی مدد سے احمدآباد اور ممبئی کے بیچ بلٹ ٹرین کی تعمیر کا سوال ہے ‘جاپان بہت ہی اچھا کام کر کے دے گا‘ اس میں شک نہیں ہے لیکن ایک تو وہ جم کر منافع کمائے گا۔ دوسرا‘اس اٹھانوے ہزار کروڑ کی ایک دکھاوٹی ٹرین بنانے کی بجائے ملک کے ہرضلع میں ایک ایک اچھاسکول اور ہسپتال کی تعمیر کی جا سکتی تھی ۔اس ٹرین کا استعمال کون کرے گا ؟یا تو مالدار لوگ کریں گے یا مفت خور لیڈر اور نوکر شاہ کریں گے ۔عام آدمی کی جیب میں اتنا پیسہ ہی نہیں ہوگا کہ وہ اس کی ٹکٹ بھی خرید سکے ۔اس پیسے سے اگر جاپان ٹرین ہی بنانا چاہتا ہے تو بھارت کے بیس پچیس بڑے شہروں میں میٹرو جیسی صاف ستھری ریلیں بھی چلائی جا سکتی ہیں ۔ہمارے لیڈر اور اخباری حضرات‘جو جاپانی مددپر فدا ہوتے ہوئے دکھائی پڑ رہے ہیں ‘انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہربیرونی امداد کے پیچھے اس ملک کی خارجہ پالیسی کے مطلب کے دھاگے جڑے ہوتے ہیں ۔امریکہ جاپان یا چین نے کوئی 'خیرات خانہ ‘ نہیں کھول رکھا ہے ۔جاپان نے انڈونیشیا میں ٹرین کا سودا کھو دیا تواسے اب وہ بھارت میں مل گیا ہے ۔
بھارت جاپان تعلقات کی خوبی فی الحال یہ ہے کہ اس میں کچھ ٹھو س نتائج آ رہے ہیں ۔ان دونوں ملکوں کی گہرائی کسی تیسرے ملک کے حسد کاسبب نہ بنے ‘یہ دیکھنا بہت ضروری ہے ۔دونوں وزرائے اعظم کے ذریعے جنوب چین کے سمندر کی خود مختاری کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ‘اس پر چین نے کافی ٹیڑھا ردعمل دیا ہے ۔جاپان سے بھی زیادہ بھارت کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے ہوں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں