ایوان کے اس سیشن میں غضب کی نوٹنکی ہونے والی ہے۔ لگ بھگ سبھی اپوزیشن پارٹیاں ایک جُٹ ہو گئی ہیں۔ وہ عوام کی پریشانیوں کو ابھارنے کی پوری کوشش کریں گی۔ کیوں نہ کریں؟ وہ اپوزیشن پارٹیاں ہیں۔ مخالفت کرنا ہی اس کا کام ہے۔ انہیں عوام کی پریشانیوں سے کوئی مطلب نہیں۔ اگر ہوتا تو وہ اپنے لاکھوں کارکنان کو آپس میں ٹکرا دیتے اور لوگوں کی بڑے نوٹ بدلوانے میں مدد کرتے۔ سرکار نے کالادھن ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا‘ وہ عام لوگوں پر بھاری پڑ رہا ہے‘ لیکن وہ اس کی شکایت نہیں کر رہے‘ وہ اسے برداشت کر رہے ہیں۔ وہ مان رہے ہیں کہ یہ سرکار اناڑی ہے۔ وہ درست فیصلے کو غلط طریقے سے عاید کر رہی ہے۔ یہی بات اپوزیشن والے کہتے تو ان کی عزت بڑھ جاتی۔ اگر ان پارٹیوں کا ری ایکشن عوام جیسا ہوتا تو عوام کی ہمدردی اپنے آپ حاصل ہو جاتی‘ لیکن وہ عوام کی تکالیف کے نام پر جو ہنگامہ کھڑا کر رہے ہیں‘ اس کے سبب عوام کو یہ شک ہو رہا ہے کہ یہ لیڈر لوگ اس کے لیے نہیں رو رہے‘ بلکہ اپنے لیے رو رہے ہیں۔ اپنی ہی وجہ سے ان کے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں۔ جن لیڈروں نے نقد اربوں روپے دبا رکھے ہیں‘ وہ اب کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ان کا یہ الزام درست ہو سکتا ہے کہ بھاجپا اور مودی کے بڑے سیٹھ لوگوں نے اپنا کالادھن پہلے سے ہی ٹھکانے لگا دیا ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ اگست کے مقابلے ستمبر 2016ء میں تقریباً 6 لاکھ کروڑ روپے بینکوں میں زیادہ کیسے جمع ہوئے؟ یہ کالا دھن نہیں تو کیا ہے؟ یہ کس کا پیسہ ہے؟ یہ سوال لوک سبھا میں ضرور اٹھیں گے‘ پتا نہیں بدحواس مودی سرکار کیا جواب دے گی؟ سرکار بدحواس ضرور ہو گئی ہے لیکن اس کے ہوش گم نہیں ہوئے ہیں۔ ہر روز عوام کو کچھ نہ کچھ ڈھیل ضرور دے رہی ہے تاکہ عام لوگوں کی مشکلات میں کچھ کمی ہو۔ مودی اچھی چائے بنانا بھول گئے ہیں۔ ان کی نوٹ بندی کی چائے زیادہ کڑک ہو گئی ہے۔ عام آدمی پھر بھی اسے پی رہا ہے۔ لیکن جن کے پاس اربوں کھربوں جمع ہیں ‘وہ چائے کیوں پیئیں گے؟ وہ بوتل جمائے ہوئے ہیں۔ وہ چپ ہیں۔ وہ نشے میں ضرور ہیں لیکن وہ کالے کو سفید کرنے کے نئے نئے راستے تلاش رہے ہیں۔ دو ہزار کے نوٹ کے لیے مودی جی کو شکریہ کہہ رہے ہیں۔
کالا دھن ابھیمنیو پھنس گیا!
کالے دھن کو لے کر بھاجپا سرکار پریشانی میں پڑ گئی ہے۔ ہون کرتے ہوئے اس کے ہاتھ جل رہے ہیں۔ کالے دھن کو ختم کرنے کا اس کا ارادہ انقلابی اور تاریخی ہے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھیمنیو نے چکر ویوہ میں گھسنا تو سیکھ لیا ہے‘ لیکن اس سے باہر نکلنا نہیں آتا۔ میں شروع میں سمجھ رہا تھا کہ یہ ہمارا ابھیمنیو خارجہ پالیسی کے معاملے میں نو سکھیا ہے لیکن اقتصادی سمجھ ان کی کتنی مفلس ہے؟ اس کا پتا گزشتہ ایک ہفتہ سے پورے ملک کو چل رہا ہے۔ ایک طرف کروڑوں لوگ روز کتنے تنگ ہو رہے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگوں نے اپنے کروڑوں‘ اربوں روپیہ کالے سے سفید کر لیا ہے۔ دو ہزار کے نوٹ چھاپنے پر ہماری سرکار کے بھوندوپنے پر مہر لگاتی ہے۔ اب کالا دھن دگنی تیزی سے بنتا چلا جائے گا۔ نقلی کرنسی ابھی سے بازار میں آ گئی ہے۔ مشکلات کے اس دور میں وہ جلدی‘ اور زیادہ لیے اور دیے جائیں گے۔
ماہر اقتصادیات انل بوکل کی یہ بنیادی تجویز تھی۔ بوکل کے مطابق صرف ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ ہی نہیں‘ سو کے نوٹ بھی ختم ہونے چاہئے تھے۔ اس کے علاوہ سب سے ضروری یہ تھا کہ ٹیکس ختم کئے جانے چاہییں تھے۔ ایک دو دن میں سارا چھپا دھن سامنے آ جاتا۔ کسی کو بھی اپنا چھپا دھن ظاہر کرنے میں خوف نہ آتا۔ وہ بینکوں میں چلا جاتا۔ اس تجویز کو پوشیدہ رکھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ صرف بینکوں سے ہونے والے لین دین پر ٹیکس لگتا۔ ہر لین دین پر صرف دو فیصد ٹیکس لگانے سے اتنا پیسہ سرکار کے پاس آ جاتا کہ ٹوٹل انکم سے کہیں زیادہ ہوتا۔ ساری ٹیکس چوری بند ہو جاتی۔ بڑے نوٹوں کے دم پر چلنے والے دہشتگرد‘ تسکر اور رشوت والی تجارت کو لگام لگتی۔ ہر دھن‘ کالا نہیں کہلاتا۔ ایمانداری‘ محنت اور عقل سے کمایا دھن‘ کالا کیسے ہو سکتا ہے؟ بوکل جی کی اس تجویز کی تین برس پہلے میں نے مکمل حمایت کی تھی‘ لیکن ان سے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں اپنے کچھ اقتصادیات کے ماہروں سے اس بارے میں صلاح مشورہ بھی کروں گا۔ ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے اس تجویز کو ٹھیک سے سمجھے بنا آدھی ادھوری نافذ کر دی۔ وہ ابھیمنیو کی طرح اس چکرویوہ میں پھنس گئے ہیں۔ خدا ان کا نگہبان رہے۔