پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے ان کے یوم پیدائش پر ڈیجیٹل مبارک باد دی‘ اُدھر پاکستانی سرکار نے اس موقع پر ہمارے 220 گرفتار مچھواروں (مچھیروں) کو رہا کر دیا۔ یہ دونوں جوانب اچھے اشاروں کی نشان دہی ہے۔ مجھے ڈر بس یہ ہے کہ ہمارے کٹڑ وطن پرست اور موٹی سمجھ کے لوگ مودی کو غدارِ وطن نہ کہنے لگیں۔ وزیر اعظم بنتے ہی مودی نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ کیا کسی وزیر اعظم نے اپنی حلف برداری تقریب میں کبھی پڑوسی ممالک کے لیڈروں کو بلایا؟ نہیں! مودی نے تاریخ بنائی۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے مشیر سرتاج عزیز بھی آئے۔ ان دونوں نے جون 2014ء میں مجھ کہا تھا کہ اگر مودی سارک کانفرنس سے پہلے ہی اسلام آباد کا دورہ کر لیں تو ہم ان کا تہہ دل سے استقبال کریں گے۔ میاں محمد نواز شریف نے بھی کوئی کمی نہیں رکھی۔ انہوں نے مودی کی والدہ کے لیے تحفے بھیجے۔ لگ رہا تھا کہ بھارت پاک تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے۔ بھارتی نوسکھیا سرکار نے سفارتی تعلقات کے سمندر میں چھلانگ تو لگا دی‘ لیکن اس نے ثابت کر دیا کہ اسے تیرنا نہیں آتا۔ اس نے صرف اس ایشو پر سرتاج عزیز کا دورہء بھارت ٹلوا دیا کہ پاکستانی ہائی کمشنر حریت والوں سے کیوں ملے۔ پھر مودی نے پہل کی اور اب سے ٹھیک سال بھر پہلے وہ اچانک کابل سے لاہور (رائے ونڈ) چلے گئے‘ میاں نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شمولیت کرنے‘ لیکن پھر اس کے ہفتہ بھر بعد پٹھان کوٹ اور بعد میں اُڑی کی دہشتگردانہ کارروائی نے سب کیا کرایا چوپٹ کر دیا۔ ہماری سرجیکل سٹرائیک‘ جسے میں فرضیکل سٹرائیک کہتا ہوں‘ کے پرچار نے بھی کوئی فائدہ نہیں دیا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اسلام آباد گئے اور سرتاج عزیز امرت سر آئے لیکن بات نہیں بنی۔
اب اس 25 دسمبر کو دونوں ملکوں کے درمیاں تار پھر جڑا سا لگنے لگا ہے۔ دونوں ملکوں کے لیڈروں کے دل میں اگر نیک خواہشات نہ ہوتیں تو کیا یہ ممکن تھا؟ بھارت کے لیڈروں اور ہماری وزارتِ خارجہ کے افسروں کو کیا یہ معلوم نہیں ہے کہ بھارت پاک تعلقات کا سب سے بڑا روڑا کیا ہے‘ بھارت کا خوف ہے! بھارت نے پہلے ہمارا کشمیر چھین لیا‘ اب وہ بلوچستان اور پختون خوا توڑے گا۔ یہ سب سے بڑی دہشت پاکستانی لوگوں کے دل میں وہاں کے اہم ادارے نے بٹھا دی ہے۔ جب تک بھارت اس بے بنیاد دہشت کو دور نہیں کرے گا‘ لیڈروں کی میٹھی میٹھی باتوں کی یہ گولیاں بے اثر ہی ثابت ہوں گی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجسی قریب قریب خودمختار ہیں۔
ٹرمپ: بندر کے ہاتھ میں اُسترا
امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی کم عقلی کا ثبوت دیا ہے۔ اپنے چنائو کے دوران وہ کہا کرتے تھے کہ امریکی فوجی طاقت ساری دنیا میں بے جوڑ ہونی چاہیے‘ اور اگر وہ صدر بن گئے تو اسے وہ خوب بڑھا دیں گے۔ چنائو کے بعد اب بھی وہ اگر ایسا ہی کہیں تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ابھی انہوں نے بے حد خطرناک بیان دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ''امریکہ کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو اتنا بڑھانا اور مضبوط کرنا چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں دنیا کے ہوش ٹھکانے آ جائیں‘‘ کسی امریکی صدر کا بیان اتنا غیر ذمہ دارانہ کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکہ اپنا منہ اتنا کالا کر چکا ہے کہ گزشتہ 70 برس میں اس نے کہیں ایٹمی ہتھیار چلانے کی ہمت تک نہیں کی۔ وہ ایٹمی دھمکی تو کیا دیتا‘ اس نے تو طرح طرح کے معاہدوں کے ذریعے ایٹمی ہتھیاروں کا مقابلہ یا ایٹمی پھیلائو کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی دوڑ کا اعلان عجیب ہے۔ آج بھی امریکہ کے پاس سات ہزار ایٹم بم ہیں‘ اور اب ٹرمپ ان پر ایک ٹریلین ڈالر مزید خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خالص بے وقوفی ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان پر روسی لیڈر ولادیمر پیوٹن نے ایک ٹالو سی وضاحت دی ہے‘ جبکہ چین نے اس کی سخت مذمت کی ہے۔ جن لوگوں نے ٹرمپ کو بڑے جوش جتوایا‘ انہیں بھی ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں انہوں نے بندر کے ہاتھ میں استرا تو نہیں دے دیا ہے؟ یہ ٹرمپ ساری دنیا کی تباہی کا سبب نہ بن جائے؟
کاش وہ گاندھی سے بھی زیادہ پوجے جاتے!
نوٹ بندی کا جس دن اعلان ہوا‘ میں نے تہہ دل سے اس کا خیر مقدم کیا تھا اور میں نے لکھا تھا کہ اب ہمارے وزیر پرچار نے وزیر اعظم بننے کی راہ پر قدم بڑھا دیا ہے‘ لیکن نجھے بالکل اندیشہ نہ تھا کہ یہ نوٹ بندی کا چکر اتنا ادھ کچرا ہے۔ اب چالیس دن بیتنے پر یہ لگ رہا ہے کہ یہ ادھ کچرا نہیں‘ پورا کچرا ہے۔ نوٹ بندی کا فیصلہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے اب ڈیجیٹل لین دین کا شوشا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ملک کے دس سے پندرہ کروڑ عوام کے سوا نہ تو کسی کو اس لفظ کے مطلب کا پتا ہے اور نہ ہی وہ اس کا استعمال کرنا جانتے ہیں۔ ملک میں بجلی‘ انٹرنیٹ اور موبائل فونوں کی جیسی حالت ہے اور جیسا اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے‘ اس سے ڈیجیٹل لین دین بھی پار نہیں پا سکتا۔ اگر نوٹ بندی اور نقد بندی کا مقصد بدعنوانی ختم کرنا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ یہ سرکار بدعنوانی کی جڑ کو کیوں پانی دے رہی ہے؟ بدعنوانی کی جڑ ہے سیاسی پارٹیوں کا پیسہ! جتنا کالادھن لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کی تجوریوں میں جمع رہتا ہے‘ اتنا تاجروں اور دہشتگردوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ ملک کی بڑی پارٹیوں نے اب تک شعبہ
انکم ٹیکس کو جتنا حساب دیا ہے‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس ہر برس اربوں کھربوں روپیہ آتا ہے۔ اس میں ذرا کئی گنا بے حساب دھن بھی جوڑ لیجئے۔ سرکار کہتی ہے کہ یہ پیسہ وہ پارٹیاں پرانے نوٹوں میں ہی جمع کرا سکتی ہیں یعنی یہ پارٹیاں دوسروں کا کروڑوں اربوں روپیہ بھی اپنے نام سے سفید کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کیا ہی ہو گا۔ وہ بے وقوف ہیں کیا‘ جو نہیں کریں گے۔ ان پارٹیوں کو کوئی ٹیکس بھی نہیں دینا پڑتا۔ اگر دولت بیس ہزار روپے سے کم ہے تو داتا کا نام بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اگر سرکار حقیقت میں کالے دھن اور بدعنوانی پر روک لگانا چاہتی ہے تو سیاسی پارٹیوں پر درج ذیل اصول سختی سے عائد کرنے چاہئیں۔ پہلا‘ سیاسی پارٹیوں کا سارا لین دین ڈیجیٹل ہونا چاہیے۔ کسی بھی پارٹی کا لین دین ایک پیسہ بھی نقد میں نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا‘سارا لین دین ہر سال اوپن کیا جانا چاہیے۔ تیسرا‘ سیاسی پارٹیوں کی آمدنی پر 50 فیصد تک ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔ چوتھا‘ پارلیمنٹ ممبر اور ایم ایل ایز کی آمدنی اور بھتوں پر ٹیکس لیا جانا چاہیے۔ پانچواں‘ چنائو خرچ کی ایک حد طے کی جانی چاہیے۔ اگر سرکار میں ذرا بھی دم ہے تو وہ سب سے پہلے بدعنوانی کی اس جڑ پر حملہ کرے۔ نریندر مودی اپنے اور اپنی پارٹی کے کالے دھن کو اپنی مرضی سے خود بازار میں لے آتے تو ملک میں مہا نائیک بن جاتے۔ سارے لوگ خوشی خوشی ان کی پیروی کرتے۔ شاید وہ گاندھی سے بھی زیادہ پوجے جاتے لیکن اس نوٹ بندی اور نقد بندی نے سارے ملک کو ایک افسوسناک مسخری میں الجھا دیا ہے۔