کرناٹک کے منگلور شہر کی ایک نوجواں فنکارہ سہانا سعید پر کچھ کٹر پنتھی اس لیے برس پڑے کہ وہ بھگوان وینکٹیشور کی دعا میں گیت گا رہی تھی۔ مشکل یہ ہوئی کہ وہ مسلم ہے۔ کٹر پنتھیوں نے سوشل میڈیا پر سہانا کے خلاف محاذ چھیڑ دیا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی کی فالتو میں نمائش کر رہی تھی۔ وہ مرد حضرات کے سامنے گا کر مسلم روایت کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ اسے اتنا دھمکایا ڈرایا گیا کہ اسے بعض طبقوں کے خلاف پولیس میں رپورٹ لکھوانی پڑی۔
ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں نے سہانا کے خلاف مشن چلایا ہے‘ انہیں نہ تو مذہب کی سمجھ ہے اور نہ ہی بھارت کی! کیا انہیں محمد رفیع‘ شکیل بدایونی‘ بسم اللہ خان‘ علاؤالدین خان اور امجد علی خان جیسے عظیم فنکاروں کے نام نہیں سنے ہیں؟ کیا یہ سب لوگ مسلمان نہ تھے؟ انہوں نے رام‘ کرشن وغیرہ کے گیت نہیں گائے؟ یہ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سام وید کے سروں کی روایات کو زندہ رکھا ہے اور آگے بڑھایا۔ ان میں سے کئی پانچ وقت کے نمازی مسلمان تھے۔ کیا ان کٹر پنتھیوں کو پتا ہے کہ کرشن کی شان میں شاعر رس خان نے جو لکھا ہے‘ وہ پڑھ کر کوئی بھی مست ہو سکتا ہے۔ کیا انہیں میں تاج بی بی کی اس شاعری کی یاد دلائوں‘ جن میں انہوں نے کرشن کے زلفوں کی تعریف کی؟
رس خان اور تاج بی بی ہی نہیں‘ اردو کے کئی شاعروں نے اس ملک کے عظیم انسانوں اور ان کے عظمت کی تعریف کی ہے۔ میں نے پاکستان میں مسلم فنکاروں سے پوری پوری رات بیٹھ کر میرا‘ کبیر اور سور داس کے بھجن سنے ہیں۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب پاکستان کے سب سے مشہور گائیک مجھے اپنے گھر لے گئے اور مجھے اپنی غزلیں سنائیں۔ عظیم شاعر علامہ اقبال کو پاکستان بنانے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں رام کا ذکر کیا۔ اورنگ زیب کے بھائی دارا شکوہ کے کیا کہنے۔ انہوں نے اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ کشور کمار‘ جگجیت سنگھ جیسے کئی مشہور گلوکاروں نے مسلم گیت بھی گائے ہیں۔ درجنوں ہندو گلوکاروں نے مکہ‘ مدینہ اور حضور صلعم کی شان میں قوالیاں بھی گائی ہیں۔ لاہور کے خواجہ دل محمد نے تو پوری گیتا ہی شاعرانہ انداز میں لکھ ڈالی‘ جس کو انہوں نے اپنے نام 'دل کی گیتا‘ سے منسوب کیا‘ جس پر 1945ء میں راہ ادب نوازی کے لیے اس وقت کی پنجاب سرکار نے انہیں ایک ہزار روپے کا انعام دیا تھا۔ کسی بھی شعبے میں فرقہ واریت پھیلانا سب سے بڑی خراب بات ہے۔ اگر آپ انسان ہیں تو آپ کا بھگوان اور دوسروں کا اللہ زبان تو ایک ہی ہے۔
اتر پردیش میں مودی کی جیت کا راز
اتر پردیش میں مودی کی جتنی زبردست جیت ہوئی ہے اور اکھلیش اور مایا وتی کی جتنی زبردست ہار ہوئی ہے‘ اس کا اندازہ ان تینوں کو بھی نہیں تھا۔ کسی ایگزٹ پول والے کو بھی نہیں۔ مایا وتی نے اپنی شکست کا ذمہ دار الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کو ٹھہرایا ہے۔ اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے بھی ای وی ایم مشینوں کے آڑ لے لی۔ اکھلیش نے کہہ دیا کہ الزام لگا ہے تو جانچ ہونی چاہیے۔ لیکن اس الزام میں ذرا بھی دم ہے تو ثبوت پیش کیے جانے چاہئیں ورنہ بہتر یہی ہو گا کہ بسپا اور سپا کے لیڈر باادب طریقے سے اپنی شکست قبول کر لیں۔ اگر مودی نے الیکشن کمیشن میں دھاندلی کروا کر اپنے ووٹ بڑھوا لیے تو پنجاب میں کیوں نہیں بڑھوائے؟ پنجاب میں بھاجپا اتنی بری طرح کیوں ہار گئی؟ کچھ لیڈروں نے مجھ سے کہا کہ اتر پردیش اور اتر کھنڈ کی ووٹنگ مشینوں میں سکرو زیادہ زور سے کس دیا گیا تھا۔ اس لیے ان دونوں صوبوں میں بھاجپا کی بمپر جیت امید سے زیادہ ہوئی ہے۔ لیکن گووا اور منی پور میں بھاجپا کا پیچ کش ذرا آہستہ سے گھوما۔
پنجاب میں غلطی سے وہ الٹا گھوم گیا۔ ورنہ‘ بھلا بھاجپا سرکار راہول گاندھی کی سربراہی کو ڈوبنے سے کیوں بچاتی؟ سکرو گھمانے کی بات اس لیے بھی پروان چڑھ گئی کہ ٹی وی چینلوں نے پوچھا کہ مسلم آبادی والے علاقوں میں بھاجپا کو تھوک ووٹ کیسے ملے؟ اس لیے کہ ووٹنگ مشین ہندو مسلم کا فرق کرنا نہیں جانتی! یہ تو ہوئی چناوی گپ شپ لیکن مودی کی اس غیر معمولی جیت کا راز کیا ہے‘ اس پر کسی بھی چینل نے گہرائی میں اترنے کی کوشش نہیں کی۔ اس فتح کا سب سے بڑا راز‘ جو مجھے دکھائی دیتا ہے‘ یہ ہے کہ جیسے 2014ء میں سونیا گاندھی اور من موہن سنگھ نے اپنا تاج اپنے آپ مودی کے سر پر رکھ دیا تھا‘ بالکل ویسے ہی اتر پردیش کا تاج رام گوپال یادو اور اکھلیش نے مودی کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ ملائم تو خاموشی مار گئے لیکن ان کی عزت کی حفاظت ان کے چیلوں نے کر لی۔ مایا وتی نے اتنے مسلم امیدوار کھڑے کر دیے کہ ان حلقوں کے ہندو ووٹ بھی بھاجپا کو مل گئے۔ اس چنائو میں ذات کی دیواریں ٹوٹیں لیکن مذہبی دیواریں اونچی ہوئیں۔ لیکن کل ملا کر ان پانچ صوبوں کے چنائو نے مودی کی پگڑی میں مور پنکھ لگا دیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقدر کے سکندر مودی کے اگلے ڈھائی برس‘ گزشتہ ڈھائی برسوں کے مقابلے کتنے بہتر ہوں گے۔
پانچ صوبوں کے چنائو نے مودی کی پگڑی میں مور پنکھ لگا دیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقدر کے سکندر مودی کے اگلے ڈھائی برس‘ گزشتہ ڈھائی برسوں کے مقابلے کتنے بہتر ہوں گے۔