"DVP" (space) message & send to 7575

لیڈر اور پارٹیوں کی انگڑائی

الیکٹرک ووٹنگ مشین کو لے کر 13 اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے صدر کو درخواست دی ہے کہ ان مشینوں نے دھاندلی مچا رکھی ہے ۔اسی کی وجہ سے بھاجپا اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں بھاری اکثریت سے جیت سکی ۔اب دلی میں ہو رہے مقامی انتخابات کو لے کر بھی اسی طرح کے خدشے ظاہر کیے جا رہے ہیں ۔ان اپوزیشن لیڈروں نے گائے کی حفاظت کرنے والے دستوں اور رومیو بریگیڈ کے بارے میں بھی صدر سے شکایت کی ہے ۔ان لیڈروں سے کوئی پوچھے کہ ان تینوں معاملات میں صدر کیا کرلیں گے ؟زیادہ سے زیادہ وہ یہ کر سکتے ہیں کہ متعلقہ حکومتوں کی طرف ان باتوں کو بڑھا دیں۔الیکٹرک ووٹنگ مشین مدعے کی ہوا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ اور کانگریس کے بزرگ لیڈر موئلی نے ہی نکال دی ہے ۔امریند رنے کہا ہے کہ اگر مشینوں میں ہیرا پھیری کی گئی ہوتی تو وہ آج وزیراعلیٰ کی کرسی پر نہ ہوتے ؟اس پر اکالی ہی قابض رہتے ۔کانگریس کو پنجاب ‘گووا اور منی پور میں بھاجپا سے زیادہ نشستیں کیسے مل گئیں ؟وہاں بھی اتر پردیش جیسا حال کیوں نہیں ہوا؟اپنی شکست کو مشینوں کے سر مڑھ کر یہ پارٹیاں خود کو مذاق کیوں بنا رہی ہیں ۔2009 ء میں بھی اسی طرح کے الزام لگے تھے لیکن آج تک کوئی بھی اس کے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا ۔الیکشن کمیشن نے چیلنج دیا ہے کہ مشینوں سے کوئی حرکت کر کے دکھائے ۔
جہاں تک گائے کا تحفظ کرنے والوں کے حوالے سے کیے جا رہے ظلم اور ٹھگی کا سوال ہے ‘سرکار اور بھاجپا نے ان کی حمایت نہیں کی بلکہ ان کے خلاف مناسب کاروائی کی ہے ۔اسی طرح رومیوبریگیڈ کو لے کر جہاں بھی پولیس یا لوگوں نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اسے برخاست کیا گیا ہے ۔اپوزیشن پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کو کارکنوں کو متحرک کریں ۔انہیں صرف نوٹ اور ووٹ بنانے کا ذریعہ نہ بنائیں، اگر سبھی پارٹیوں کے کارکن ‘گائے کشی ‘شراب خوری‘رشوت خوری ‘زبردستی اور سرکاری بے پروائی کے خلاف متحرک ہو جائیں تو سرکار کا بوجھ اپنے آپ کم ہو جائے گا اور سماج کے ماحول میں زبردست بدلائو آجائے گا ۔ یہ کارکن جہاں بھی زیادتی کریں ‘وہ چاہے حکومتی پارٹی کے ہوں یا اپوزیشن کے ‘ان کے خلاف کارروائی لازمی ہونی چاہیے لیکن ہماری ساری سیاسی پارٹیاں سماج سدھار وں کے معاملے میں بالکل سست ہو گئی ہیں ۔انہوں نے ساری ذمہ داری نوکرشاہی اور پولیس والوں پر ڈال دی ہے ہمارے لیڈر سمجھتے ہیں کہ بیان اور شکایت کر کے انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے ۔
ادویات میں لوٹ پاٹ بند کریں 
وفاقی سرکار جو کہہ رہی ہے ‘وہ کر دکھائے تو مانا جائے گا کہ اس کے لیڈر صرف بنڈل مارنے میں استاد ہی نہیں ہیں بلکہ ہمارے ملک میںچلی آ رہی لوٹ پاٹ کو ان کا بنڈل بناکرانہیں کوڑے دان کے حوالے کرنے کا بھی دم خم رکھتے ہیں ۔اس ملک میں عوام کی جیب کتری کے دو بڑے بہانے ہیں ۔ایک تعلیم اور دسرا علاج !غیر سرکاری سکولوں ‘کالجوں کی لوٹ پاٹ کو روکنے کے لیے مدھیہ پردیش کی سرکار ایک قانون جلد ہی بنوانے والی ہے لیکن دوااور علاج کی لوٹ پاٹ تو سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔مرتا کیا نہ کرتا ؟اپنے مریض کی جان بچانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹا نے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ جو لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھرتی ہوکر لٹنے سے بچ جاتے ہیں ‘انہیں ڈاکٹروں کی مہنگی دوائیاں دیوالیہ کردیتی ہیں ۔دو روپیہ کی دوامیں نے سو روپیہ میں فروخت ہوتے دیکھی ہے ۔ا س خاص دوا کے سو روپے اس لیے جھاڑ لیے جاتے ہیں کہ اس پر کسی بڑی کمپنی کی مہر لگی ہوتی ہے ۔اسی دوا کو آپ بنا مہر کے خریدیں تو وہ آپ کو اتنی سستی مل جائے گی کہ وہ آپ حیرت میں پڑ جائیں گے کہ وہ اصلی ہے یا نقلی ؟تو مہر والی برانڈڈ ادویات اتنی مہنگی کیوں فروخت ہوتی ہیں ؟اس کے پیچھے پوری سازش ہوتی ہے ۔ان ادویات کو بنانے والی کمپنیاں ان کے اشتہارات پر کروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہیں ۔ڈاکٹر صرف وہی ادویات لکھ کر دیں ‘اس کے لیے انہیں نقد کمیشن ملتا ہے ‘مفت دوائیاں ملتی ہیں ‘مفت بیرونی ملکوں کے دورے ملتے ہیں ‘بہت مہنگے تحفے ملتے ہیں ‘ان کے بچوں کو بیرونی ممالک میں پڑھانے کی سہولیات ملتی ہیں ۔یہ ڈاکٹر ادویات کے نام انگریزی میں ایسے گھسیٹ کر لکھتے ہیں کہ وہ مریض کے پلے ہی نہ پڑیں لیکن دواء فروش انہیں فوراً ہی سمجھ لیتا ہے ۔ان دوا فروشوں کو بھی یہ بڑی کمپنیاں پہلے سے پٹاکر رکھتی ہیں ۔اگر صارف ان سے ویسی ہی دوسری دوا ‘بنا مہر والی ‘مانگے تو وہ منع کر دیتے ہیں ۔یہ بنا مہر والی ادویات بھی انہیں فارمولوں سے بنی ہوتی ہیں ‘ جن سے مہر والی بنتی ہیں ۔ان ادویات کے فائدے بھی وہی ہوتے ہیں لیکن ان سے ڈاکٹروں اور دوافروشوں کو بہت کم فائدہ ہوتا ہے ۔ان عام ادویات کا پرچار بھی کم ہوتا ہے ۔ملک میں بکنے والی ایک لاکھ کروڑ روپے کی ادویہ میں ان مناسب نرخ والی سستی ادویہ کی سیل صرف نوفیصد ہے ۔اگر سرکار ‘ڈاکٹروں او ر دوا فروشوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے اور ادویہ پر '‘پرائیس کنٹرول ‘پالیسی عائد کر دے تو ملک کے کروڑوں لوگ لٹنے اور پٹنے سے بچ سکیں گے۔
ہندی کے نام پر لیپا پوتی
کل میں بھوپال میں تھا ۔وہاں اٹل بہاری واجپائی ہندی یونیورسٹی کا پہلا سمینار اختتام کو پہنچا ۔اس یونیورسٹی کوقائم ، اب سے پانچ برس پہلے سنگھ کے سربراہ آنجہانی سدرشن جی اور میرے کہنے پر وزیراعلیٰ شوراج سنگھ چوہان نے کیا تھا ۔ادھر سمینار چل رہا تھا اور ادھر صدر کی جانب سے ہندی مشیروں کی کمیٹی کی سفارشیں قبول کرنے کی خبریں آرہی تھیں ،میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن میں جوں ہی ذرا گہرائی میں اترا تو معلوم پڑا کہ ہندی کے نام پر ہمیشہ کی طرح لیپا پوتی ہوری ہے ۔ٹھو س کام کچھ ہو نہیں رہا ۔پانچ برس بیت گئے لیکن ہندی والے اس یونیورسٹی میں ‘ڈاکٹری ‘ انجینئرنگ ‘ میتھ اور سائنس جیسے مضامین کی اعلیٰ پڑھائی ابھی تک ہندی میں شروع نہیں ہوئی ۔اب سے پچاس برس پہلے میں نے جب انٹرنیشنل سیاست کی کتاب ہندی میں لکھی تھی تو پارلیمنٹ میں طوفان سے آگیا تھا ۔پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی مداخلت کے بعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے میری کتاب قبول کی اور تما م بھارتی زبانوں کے دروازے ریسرچ کے لیے کھل گئے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ گزشتہ پچاس برس میں کیا پچاس ریسرچ کی کتابیں بھی ہندی میں لکھی گئیں ؟لوگ ہندی ذریعہ ریسرچ کیوں کریں گے ؟ جب تک انگریزی کا بول بالا رہے گا ‘تب تک آپ ملک میں بھارتی زبانوں کو ان کا مناسب مقام دلوا ہی نہیں سکتے ۔
اسی طرح پارلیمنٹری راج بھاشا کمیٹی کی رپورٹ میں موٹی موٹی117 سفارشیں کی گئی ہیں ‘جن میں سے زیادہ تر سفارشات کو صد رنے قبول کر لیا ہے ۔کچھ سفارشات کافی اچھی ہیں لیکن جو قبول کی گئی ہیں ‘وہ بنا دانت کی ہیں ۔جیسے ہندی افسروں کی تعداد اور تنخواہ بڑھائی جائے ‘ایئر انڈیا کی ٹکٹوں پر ہندی بھی ہو ‘پاسپورٹ درخواستیںہندی میںبھی ہوں ‘اسی طرح کی'' بھیک مانگو ‘‘باتیں صدر نے ما ن لی ہیں ۔ انگریزی مہارانی کے آگے ہندی ،ہندی نوکرانی کی طرح بھیک مانگ رہی ہے ۔صدر‘وزیر اعظم اور جو بھی افسر ہندی جانتے ہیں ‘وہ بھی اپنی تقریر ہندی میں ہی کریں ۔یعنی جو ہندی میں نہ بولنا چاہیں انہیں ‘ان کے لیے چور گلی بنی ہوئی ہے ۔اس کمیٹی نے جہاں بھی انگریزی رتبے کو چھونے کی کوشش کی ہے ‘صدر نے وہاں کٹس کا نشان لگا دیا ہے ۔جیسے ان سکولوں کو منظوری نہیں دینا ‘جو بھارتی زبانوں کے ذریعے سے نہیں پڑھاتے ‘سرکاری بھرتی امتحان ہندی میں لازمی ،پارلیمنٹ میں ہندی اور مادری زبان پر زور ‘ان سب سوالات پر سرکار کی بولتی بند ہے ۔سرکار کسی کی ہو ''من مونی جی کی‘‘ہو یا ''من موجی جی‘‘کی دونوں ہی انگریزی کی غلامی پر مجبور ہیں ۔کب ایسی وطن پرست سرکار بھارت میں بنے گی جو اپنی ‘پارلیمنٹ اور عدالتوں کا کام کاج بھی عوامی زبان میں چلائے گی ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں