چھتیس گڑھ کے سُکمہ میں ہوا جوانوں پر حملہ پہلا نہیں ہے۔ کشمیر میں جتنے لوگ مارے جاتے ہیں‘ اس سے زیادہ اور اس سے بری طرح چھتیس گڑھ کے جنگلوں میں مارے جا رہے ہیں۔ ان نکسلیوں کو ہم دہشت گرد کیوں نہیں قرار دیتے؟ دوسرے علاقوں میں خون بہانے والوں میں‘ اور اِن میں ہم فرق کیوں کرتے ہیں؟ چھتیس گڑھ جب سے بنا ہے‘ یعنی 2000 سے اب تک 1100 نوجوان مارے جا چکے ہیں۔ جوان ہی نہیں‘ ودیاچرن شکل جیسے کئی لیڈر بھی نکسلی تشدد کے شکار ہو چکے ہیں۔ اس قتل عام کو روکنے کے لیے ہماری فوج کیوں نہیں لگائی جا رہی ہے؟ مرکزی ریزرو پولیس فورس کو ہی وہاں مرنے کٹنے کے لیے کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟ کشمیر میں جتنی فوج ہم نے لگا رکھی ہے‘ اگر اس کا دسواں حصہ بھی ہم چھتیس گڑھ میں لگا دیں‘ تو نکسلیوں کے ہوش فاختہ ہو جائیں گے۔ یہ بات بالکل بیکار ہے کہ چھتیس گڑھ کا یہ سکمہ علاقہ اتنا گھنا جنگل ہے کہ وہاں نکسلیوں کو ڈھونڈ پانا مشکل ہے۔ یہ مشکل ہو سکتا ہے‘ لیکن یہ ناممکن نہیں۔ اگر ساٹھ ستر کلومیٹر کے اس علاقے میں پچاس ہزار فوجی جوان لگا دیے جائیں‘ ایک فوجی چھائونی قائم کر دی جائے‘ اور جتنے جوان مرتے ہیں‘ اس سے دُگنے نکسلی اسی دن مار دیے جائیں تو ان کی روح کانپنے لگے گی‘ لیکن ہمارے کانگریسی لیڈروں کی طرح بھاجپائی بھی رسمی بیان دے کر پھر کنبھ کرن کی طرح خراٹے بھرنے لگتے ہیں۔ وہ نکسلیوں کو بزدل کہتے ہیں لیکن ان سے بڑا بزدل کون ہو گا (اور بے شرم بھی)‘جو بیان جھاڑ کر ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ اس بزدلانہ رویے کی جتنی ذمہ دار بھارتی وفاقی سرکار ہے‘ اتنی ہی ذمہ دار چھتیس گڑھ سرکار بھی ہے۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ آخر کیا کرتے رہتے ہیں؟ وفاق اور رائے پور‘ دونوں جگہ بھاجپا سرکاریں ہیں۔ بھاجپا خود کو عظیم محبِ وطن پارٹی قرار دیتی کرتی ہے‘ لیکن وطن پرستی صرف اعلانات میں ہی کیوں سکڑ کے رہ جاتی ہے؟ دونوں سرکاریں (وفاقی اور ریاستی) مل کر نکسلیوں کے خلاف اتنا سخت ایکشن کیوں نہیں لیتیں کہ آسام‘ منی پور‘ ناگا لینڈ‘جھاڑ کھنڈ اور کشمیر کے ان خونخواروں کی نیندیں حرام ہو جائیں؟ ایک جگہ کس کر ٹھوک لگا دی جائے تو پورے ملک میں سنسنی دوڑ جائے گی۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے چھتیس گڑھ کے نکسلیوں کے لیے فوج کے استعمال کی بات لکھی تھی‘ لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ صوبائی سرکار کے شعبہ پولیس کو کسنا اتنا ہی ضروری ہے۔ چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ اور سکمہ میں اتنے جوان مارے گئے لیکن ذمہ داری کس نے قبول کی؟ کسی نے بھی نہیں۔ کیا صوبے کے وزیر داخلہ نے استعفیٰ دینے تک کی پیشکش کی؟ اس کا مطلب کیا نکالا جائے؟ یہی ناں کہ جوانوں کی موت پر زبانی جمع خرچ کیا گیا۔ وہ بے اثر ہے۔ یہ جوان ساٹھ ستر کلومیٹر لمبی سڑک کی رکھوالی کر رہے تھے۔ بالکل ایسے ہی حادثے افغانستان میں 200کلومیٹر کی جرنج دلآرام سڑک پر بھی ہوتے رہتے تھے‘ لیکن امریکی افواج نے وہاں اتنا زبردست انتظام کیا تھا کہ طالبان اور بیرونی ممالک کی دخل اندازی پٹخنی کھا گئی۔ سرکار کو اس بات کا ٹھیک ٹھیک پتا ہونا چاہیے کہ نکسلیوں کی کامیابی کا رازکیا ہے؟ چھتیس گڑھ میں نکسلی اس لیے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ایک تو انہیں مقامی لوگوں کی حمایت حاصل ہے اور دوسرا‘ ہر حملے کے دوران نہتے مقامی لوگوں کو آگے کرکے زرہ بکتر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ تیسرا‘ ان کے پاس جوانوں سے چھینے ہوئے بہترین ہتھیار ہوتے ہیں۔ چوتھا‘ انہوں نے زور زبردستی کرکے پیسوں کا ذخیرہ اکٹھا کیا ہوتا ہے۔ نوٹ بندی کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان نکسلیوں سے نمٹنے کا صحیح طریقہ تو فوج کو ہی ڈھونڈنا ہو گا۔ سرکار کی طرف سے مقامی لوگوں کی زمین پر کانیں کھودنے‘ جنگل کاٹنے‘ ان کی روزمرہ کی زندگی میں دخل اندازی وغیرہ پر کنٹرول ہونا چاہئے۔ نکسلیوں کوکوئی موقع نہیں دیا جانا چاہئے کہ وہ آدی واسیوں کے حملوں کو قاتلانہ شکل دے سکیں۔ اگر بات چیت کے ذریعے نکسلیوں کو راستے پر لایا جا سکے تو بہتر ہے‘ ورنہ لاتوں کے بھوتوں کو باتوں سے منانے سے کہیں بہتر ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔
طالبان کا حملہ
افغانستان کے علاقے مزارِ شریف میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں 150 سے بھی زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ کئی لوگ بہت بری طرح سے زخمی ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے‘ جہاں پٹھان کم ازبک‘ تاجک‘ ترکمان وغیرہ زیادہ رہتے ہیں۔ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔ طالبان بنیادی پٹھان لوگ ہیں۔ اس حملہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طالبان اب کابل‘ قندھار‘ جلال آباد اور ہلمند جیسے پٹھان علاقوں میں ہی نہیں غیر پٹھان علاقوں میں بھی طاقتور اور اثردار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دو تین برسوں میں ہرات‘ مزارِ شریف‘ بلخ اور قندوز جیسے علاقوں میں بھی اپنا دبدبا قائم کر لیا ہے۔ طالبان کا یہ حملہ تب ہوا‘ جب امریکہ نے اپنا سب سے بڑا بم پٹھان علاقہ جلال آباد میں ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی پھوڑا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس حملہ کے ذریعے طالبان ٹرمپ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہوں کہ اگر تم اس طرح کا وحشیانہ طرزِ عمل اختیار کرو گے تو ہم بھی کم نہیں۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس دہشتگردانہ کارروائی کو بزدلانہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ کافرانہ ہے۔ اس بارے میں الگ الگ رائے ہو سکتی ہے‘ لیکن یہ سچ ہے کہ اسے کافرانہ حرکت کے علاوہ کیا کہا جائے؟ طالبان نے یہ حملہ اس مسجد پر کیا‘ جہاں افغانستان کے فوجی نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز پڑھتے اور کھانا کھاتے ہوئے نہتے جوانوں کو مارنے والے لوگ کیا خود کو مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں؟ اُن دس دہشتگردوں میں سے آٹھ مارے گئے اور دو نے خود کشی کر لی۔ افغانستان میں قومی سطح پر سوگ منایا گیا۔
اس طرح کے خونخوار واقعات کے لیے پاکستان کو کوسنا بہت آسان ہے۔ نریندر مودی اور ڈاکٹر اشرف غنی نے پاکستان کا نام لیے بنا یہی کیا ہے۔ کچھ حد تک اور کبھی کبھی ویسے کہنا ٹھیک بھی ہو سکتا ہے لیکن یقینی طور پر نہیں۔ اس طرح کے بھولے بیان افغانستان کے مرض کے علاج کو ٹالتے رہنے کا کام کرتے ہیں۔ آج یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اتنی لمبی جدوجہد کے باوجود طالبان افغانستان کے ہر اضلاع میں مضبوط کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ روس‘ چین اور پاکستان اب طالبان کو پٹانے میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ بیرونی افواج نے طالبان کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیک دیے اور وہ اب تقریباً لوٹ گئے ہیں۔ افغان فوج میں ان کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں دکھائی پڑتی ہے۔ جمہوری طریقہ سے چنے جانے کے باوجود غنی اور عبداللہ عبداللہ کا اثر دکھائی نہیں دیتا۔ افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے لیڈر حضرات کیا اس سوال پر اپنے دماغ کو کچھ دیر کے لیے زحمت دینے کی کوشش کریں گے کہ افغانستان میں طالبان کی جڑیں اب بھی کیوں ہری ہیں؟