اللہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ برانچ نے کمال کر دیا ۔اس نے ایک جج کو معطل کر دیا۔سرکاری نوکروں کی معطلی کی بات تو اکثر ہم سنتے ہی رہتے ہیں لیکن کوئی جج معطل کر دیا جائے ‘ ایسی بات پہلی بار سننے میں آئی ہے ۔اس جج کونہ تو شراب پی کر عدالت میں بیٹھنے کے لیے معطل کیا ہے ‘نہ رشوت لینے کے لیے اور نہ ہی اوٹ پٹانگ حرکت کے لیے !اوپی مشرا نام کے اس جج کو اس لیے معطل کیا گیا ہے کہ اس نے اتر پردیش کے سابق وزیر گایتری پرجا پتی کو ضمانت پر چھوڑ دیا تھا ۔پرجاپتی آج کل جیل میں ہیں ۔اس پر کئی مقدمے چل ہی رہے ہیں لیکن جج مشرا نے اسے زیادتی کے ایک معاملے میں ضمانت دے دی تھی ۔ امیٹھی سے ایم ایل اے رہے اس پرجاپتی پر الزام ہے کہ اس نے اور اس کے دو ساتھیوں نے ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی اور بیٹی کے ساتھ بھی زور زبردستی کی ۔ یہ معاملہ اس عدالت میں چل رہا تھا‘جس کا کام بچوں کو ایسے گناہوں سے بچانا ہے ۔پرجاپتی نے حلف نامہ دائر کر کے کہا تھا کہ اس کے خلاف کوئی بھی ایسا معاملہ نہیں چل رہا‘اس لیے اسے ضمانت دی جائے ۔جج مشرا نے اس جھوٹے دعویٰ کو قبول کرلیا اور سارے مقدمات سے آنکھیں بند کر اس کو ضمانت دے دی ۔اس ضمانت کو ہائی کورٹ نے رد کر دیا اور پرجاپتی ابھی بھی جیل میں ہے ۔ لیکن جج مشرا کو معطل کر کے اس نے ایک مثال قائم کر دی ہے ۔سارے معاملے کی جب جانچ ہوگی کہ مشرا نے پرجاپتی کو ضمانت کس بنیاد پر دی ہے ‘کوئی تعجب نہیں کہ اس معاملے میں زبردست رشوت خوری ہوئی ہو ‘یا سیاسی مداخلت ہوئی ہو ۔اللہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ مبارک کی حقدار ہے کہ اس نے فی الفور سخت قدم اٹھایا ۔جج مشرا ریٹائر ہونے والے ہی تھے کہ انہیں یہ دن دیکھنا پڑا۔کسی بھی ایماندار جج کے لیے اس کی زندگی میں اس سے بڑا کالادن کیاہوگا کہ اسے جس دن ریٹائر ہونا ہو ‘اسے اسی دن معطلی کا حکم مل جائے ۔
بھارت میں ایک فادر ٹیریسا بھی ہے
کل میں اجین کے سیوادھام میں تھا ۔اسے سدھیر گویل بیس بائیس برس سے چلا رہے ہیں ۔یہاں لگ بھگ پانچ سو بچے ‘عورتیں ‘جوان اور بوڑھے رہتے ہیں ۔ان میں کئی معذور ہیں ‘ اندھے ‘بہرے ‘لولے لنگڑے ‘لقوہ میں مبتلا !سدھیر جی ان سب لوگوں کے لیے کھانے ‘رہنے ‘کپڑے‘دوا‘تعلیم ‘کھیل کود وغیرہ کا سارا انتظام کرتے ہیں ۔اس خانقاہ کے پہلے سربراہ شاعر ڈاکٹر شومنگل سنگھ سمن تھے سمن جی کے بعد سدھیر کی درخواست پر مجھے دیکھ بھال کرنی پڑی ۔اس وقت صرف 74 لوگ یہاں رہتے تھے لیکن حالت اتنی خراب تھی کہ ‘سدھیر جی کی والدہ کا کہنا تھا کہ اسے بند ہی کیوں نہیں کر دیتے ؟لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لیے روز ادھار لینا پڑتا تھا ۔جو بیمار مر جاتے تھے ان کی آخری رسومات بھی مشکل سے ہو پاتی تھی لیکن پھر اندور کے کچھ سیٹھ لوگوں کی ایک بیٹھک میں نے بلائی اور اُن سے کہا کہ آپ سب ایک بار اجین کے پاس امبودیا نام کے اس سیوا دھام میں صرف دال روٹی کھانے کے لیے تشریف لائیں۔سدھیر سے میں نے کہا کہ تم کسی سے ڈونیشن کے لیے بالکل مت کہنا ۔ سب لوگ آئے ‘کمال یہ ہوا کہ ان معذور لوگوں کی خدمت دیکھ کر لوگ ایسے متاثر ہوئے کہ لاکھوں روپیہ کا ڈونیشن ایک دم آگیا ۔ یہ بڑی اچھی بات ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ غریبوں کی مدد جتنی بھی کی جائے کم ہے کیونکہ اس ملک میں غریب ہیں ہی اتنے زیادہ۔ غربت بھی ایسی کہ لوگوں کی چیخیں نکل رہیں۔ کوئی بھی تنخواہ میں اپنا بجٹ بنانے کے قابل نہیں۔ بجٹ تو وہ بناتے ہیں جن کے پاس ڈھیر سا مال ہوتا ہے۔ غریب بے چارے کیا بنائیں۔ وہ تو یہ سوچتے ہیں کہ دال بناتے ہوئے پانی کتنا زیادہ ڈالیں تاکہ سارے پیٹ بھر کے کھا سکیں۔ وہ گوشت کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسے میں جو لوگ ڈونیشن وغیرہ دے کر غریبوں کا بھلا کرتے ہیں وہ اصل میں سرکارہیں۔ کیونکہ یہ کام ہی سرکار کا ہے اور جنتا اسے اسی کام کے ووٹ دیتی ہے کہ وہ ان کا بھلا کریں‘ ان کے لئے راشن پانی کا انتظام کریں‘ انہیں ان کے حقوق دیں جن کا وہ ہمیشہ اپنی لمبی لمبی تقریروں میں وعدہ کرتے ہیں اور پھر سرکار میں آتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ سرکار کو ترقی کے بھاشن بھی نہیں دینے چاہئیں کیونکہ یہ بھاشن اس وقت اچھے لگتے ہیں جب عوام کچھ اچھا کھائیں کچھ اچھا پہنیں وہ ہسپتال جائیں تو خوش خوش اور صحت کے ساتھ لوٹیں ان کو تعلیم ملے تو اس سے نوکریاں بھی اچھی ملیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یہ سب باتیں سوچنے میں اچھی ہیں کوئی سرکار بھی اس طرف دھیان نہیں دیتی۔ اگر ڈونیشن دینے والے دنیا میں نہ ہوں تو غریب کی زندگی اور زیادہ مشکل میں پڑ جائے۔معذور تو پہلے ہی بے چارے مشکل میں ہوتے ہیں۔ اوپر سے انہیں روٹی بھی نہ ملے تو انہیں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں ان کا بھلا کون کرے گا۔ ایسے میں کچھ لوگ سامنے آتے ہیں اور ان کے کام آتے ہیں جو بڑی اچھی بات ہے۔ سب کو اچھا کرنے میںعار نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کا بھلا کرو گے تو کل تمہارا بھی کوئی بھلا کرے گا۔ یہ تو اس دنیا میں ہوتا ہے۔ جو کسی کو تڑپاتا ہے وہ اسی جنم میں مشکل میں پڑتا ہے۔ ایسا ہوتے ہم نے بھی دیکھا ہے آپ نے بھی دیکھا ہو گا۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ دوسروں کے کام آئو تاکہ تمہارا اپنا بھی بھلا ہو۔
اس کے پہلے تک سدھیر کی بیوی‘دو بیٹیاں اور سارے معذور لوگ وہاں جھونپڑوں میں ہی رہتے تھے۔پہلے پہل اندر دیو جی آریہ نے سیوادھام کا سیمنٹ کابڑا دروازہ بنوادیا تھا ۔مہرشی دیانند دوار اور میرے والد محترم جگدیش پرساد جی ویدک نے ایک ماروتی وین بھی دے دی تھی تاکہ سدھیر جی سڑکوں پر سڑ رہے لوگوں کو کندھو ں یا سائیکلو ں پر نہیں‘وین میں آرام سے لے آیا کریں ۔ آج سیوادھام کے پانچ سو مقیم سیمنٹ کے پکے مکانوں میں رہتے ہیں سب کے لیے صاف ستھرے کمرے اور پلنگ لگے ہوئے ہیں ۔سب کو اعلیٰ قسم کاکھانا ملتا ہے معذور بچوں کے لیے ورزش اور خاص علاج کا انتظام ہے۔ اب اس سیوا دھام کو مانگے بنا ہی کروڑوں روپیہ بطور ڈونیشن میں ملتے ہیں ۔ممبئی کے گریش شاہ اور جیش بھائی کا خاص تعاون ہے ۔کشمیر سے کیرل تک کے لوگ یہاں ہیں۔یہاں ذات اور مذہب کا کوئی فرق نہیں ہے ۔سدھیر جی ایسے لوگوں کی خدمت بڑے پیارسے کرتے ہیں ‘جنہیں دیکھ کر آپ حیران ہوجائیں ‘ڈر جائیں ‘بھاگ جائیں ‘نفرت کرنے لگیں ۔اس لیے میں سدھیر کو ''فادر ٹیریسا‘‘بولتا ہوں لیکن سدھیر خدمت کی آڑ میں کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرتے ۔اس مقصد سے سدھیر کا کام کافی اونچا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ کم ازکم ایم پی کے ہر ضلعے میں سیوا دھام(ٹرسٹ) کھل جائے ۔