"DVP" (space) message & send to 7575

مودی ٹرمپ : زبانی جمع خرچ؟

وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی ملاقات اتنی پرتپاک ہوگی‘اس کے امکانات پر سبھی کو شک تھا لیکن ٹرمپ نے جتنا بہتر انداز سے استقبال کیا ‘اس نے سبھی شک وشبہات کو دورکر دیا۔دونوں لیڈروں کے بیچ جیسا ماحول بنا ‘دونوں نے جیسی مشترکہ پریس کانفرنس کی اس سے سبھی تجزیہ نگاروںکو یہ ماننے کے لیے مجبور ہونا پڑرہا ہے کہ ٹرمپ کے امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات اتنے ہی گہرے اب بھی ہیں جتنے کہ وہ جارج بش اور اوباما کے زمانے میں رہے ہیں‘بلکہ زیادہ ہی نکھر کر سامنے آئے ہیں‘جیسے کہ پاکستان سے دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ وہ پڑوسی ملک میں دہشتگردی پھیلانے سے باز آئے ۔اس کے علاوہ حزب المجاہدین کے کمانڈرسیدصلاح الدین کو عالمی دہشتگرد کا اعلان ‘مودی کے واشنگٹن پہنچنے پر کرنا پڑا‘یہ اپنے آپ میں ایک تحفہ ہے ۔مودی نے ٹرمپ کو شال اور ہاتھ کی بنائی چیزیں پیش کیں۔اس پر پاکستان کا آگ بگولا ہونا فطری ہے ۔ٹرمپ نے چین کو بھی خبردار کیا کہ وہ 'اوبور‘کے چکر میں پڑوسی ممالک کی خودمختاری پر حملہ نہ کرے‘اس پر چین بوکھلا گیا ۔اس کے سرکاری اخبار میں کہا گیا کہ بھارت کہیں جاپان اور آسٹریلیا کی طرح امریکہ کا مہرا تو نہیں بننے جا رہا ۔امریکہ اور بھارت نے دہشتگردوں کے خلاف متحد مورچے کا بھی اعلان کیا ہے ۔افغانستان میں بھارت کے کردار کی بھی تعریف کی گئی ۔امریکہ نے اپنے ہتھیار بیچنے کے لیے بھی پورا زور لگایا ۔بھارتی بازاروں کو کھولنے ‘تجارت کومتوازن بنانے اور کئی پالیسیوں پر بھی امریکہ نے زور دیا ۔لیکن پتا نہیں ‘مودی نے ایچ ون بی ویزا پر بھارتی لوگوں کے روزگار کی بات بھی اٹھائی یا نہیں ؟پیرس ماحولیات معاہدے پر بھی خاموشی سی رہی ۔جوہری توانائی بھٹیوں کا معاہدہ ابھی بیچ میں لٹکا پڑا ہے ۔جہاں تک زبانی جمع خرچ کا سوال ہے ‘مودی اور ٹرمپ کے بیچ وہ تو جم کر ہوا ہے لیکن اس کی کچھ بھی قیمت تبھی مانی جائے گی ‘جب اس پر عمل کیا جائے ۔ایسے ایک دوسرے کو عظیم ‘عظیم کہنے سے ماحول تو رسیلا بن جاتا ہے لیکن اس ذاتی دکھاوے کی اہمیت تبھی مانی جاتی ہے ‘جبکہ اس سے اپنے ملکی مفادکی بہتری ہو۔
جنید کا قتل اور سچا ہندوتوا
گزشتہ روز دلی سمیت ملک کے کئی شہروں میں اچانک کئی مظاہرے ہوئے ۔ان مظاہروں میں نہ لوگوں کو ڈھوکر لایا گیا ‘نہ انہیں کسی لیڈر یا جماعت نے بلایا اور نہ ہی انہوں نے کوئی جوشیلے نعرے لگائے ۔یہ مظاہرے خود اپنے آپ ہوئے تھے ۔جیسے کہ نربھیا سے زیادتی کے بعد ہوئے تھے ۔ان مظاہروں سے کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ؟یہ ہوئے ہیں ‘پندرہ برس کے نوجوان جنید خان کے قتل کے خلاف!جنید اور اس کے بھائی پر جان لیوا حملہ کیا ‘ان لوگوں نے جو چلتی ٹرین میں سیٹوں کے لیے کہا سنی (توتکار)کر رہے تھے ۔ایسی کہا سنی اور چھوٹے موٹے جھگڑے ہم میں سے کس نے نہیں دیکھے ہیں لیکن جس بات نے لوگوں کو اتنی نوبت تک پہنچایا ہے ‘وہ یہ کہ جنید اور اس کے بھائی کو پہلے گائے کا گوشت خور کہاگیا اور پھر بے خوف ہوکر ان پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا ۔وہ دونوں بھائی عید کے لیے نئے کپڑے وغیرہ خرید کر اپنے گھر بلبھ گڑھ لوٹ رہے تھے انہوں نے نمازی ٹوپی پہن رکھی تھی ۔ذرا سوچیں کہ ان کے ماں باپ پر کیا گزررہی ہوگی ؟اس پورے گائوں نے کیسے عید منائی ہے ؟یہ معاملہ تو ہے ‘اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لیکن یہ اتنا نفرت آمیز ہے کہ ملک میںجو مظاہرے ہوئے ہیں ‘ان میں آنے والے 99 فیصدلوگ ہندو ہیں ۔یہی سچا ہندوتوا ہے ۔ایک قاتل کوتو پکڑ لیا گیا ہے ‘باقی تین بھی جلد ہی پکڑے جائیں گے ۔یعنی سرکار اس معاملے میں کوئی
ڈھیل نہیں دے گی ۔محمد اخلاق اور پہلو خان کے قاتل بھی پکڑے گئے ہیں لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ ان قاتلوں کو کب لٹکایا جائے گا اور کیسے لٹکایا جائے گا ۔اگر ان کی پھانسی کا جم کر پرچار ہوتو اس طرح کے فرقہ واریت کے قتل ضرور کم ہوں گے ۔سرکار تو اپنا کام کرے گی لیکن ہمارے سماج میں فرقہ واریت کا جو یہ زہر بڑھتاچلا جا رہا ہے ‘اس کا علاج تو ہمارے اساتذہ ‘والدین ‘مذہبی علماء اور سوشل ورکر وں کو کرنا ہوگا ۔ایک جانور کے نام پر ایک انسان کا قتل کردینا کون سا ہندوتوا ہے اور کون سی انسانیت ہے ۔ ؟صرف نام پر ؟گائے کاتحفظ تو بہت اچھا کام ہے لیکن انسان کی حفاظت اس سے کم نہیں ہے ۔
ٹلے بھارت چین مٹھ بھیڑ 
ادھر امریکہ میں نریندر مودی کا ڈونلڈ ٹرمپ نے شاندار استقبال کیا اور ادھر چین نے کیلاش مانسروور کی یاترا کرنے والے جتھے پر روک لگا دی ۔یہ روک اس لیے لگائی گئی کہ چین کے مطابق بھارتی فوجیوں نے اس کی سرحد میں گھس کر ڈوکلام نام کی جگہ میں اپنی چوکیا ںبنا لیںاور چینی فوجیوں کو سڑک نہیں بنانے دی ۔دونوں ملکوں کے فوجیوں کے بیچ دھکا مکی اور ہاتھا پائی بھی ہوئی ۔ڈوکلام 250مربع کلومیٹر کا وہ پٹھاری علاقہ ہے ‘جو بھوٹان کی سرحد پر ہے اور جس پر چین کے ساتھ ان کا پرانہ
جھگڑا چل رہا ہے ۔چین چاہتا ہے کہ بھوٹان یہ پٹھاری علاقہ چین کو دے دے اور بدلے میں وہ شمالی بھوٹان کے قریب قریب 500 ہم چورس کلومیٹر علاقے پر اپنے دعوے کو چھوڑ دے گا ۔ڈوکلام علاقہ اس لیے جھگڑے کی جڑبن گیا ہے کہ یہ چنبی وادی کے مہانے پر ہے ۔چنبی وادی پرتبت ‘بھوٹان اور سکم کی سرحدیں ملتی ہیں ۔بھارت کو یہاں یہ فائدہ ہے کہ اس کی سرحد یہاں پہاڑیوں کے اوپر ہے ۔چین اب اس کے جواب میں ڈوکلام میں ایسی سڑک بنا رہا ہے ۔‘جس پر چالیس چالیس ٹن کے ٹینک چل سکیں گے‘ وہا ں وہ ریلوے لائن بھی ڈالنا چاہتا ہے ۔اگر اس میں وہ کامیاب ہوگیا تو وہ سلی گڑی کے ایک دم نزدیک پہنچ جائے گا ۔اس کے لیے یہ آسان نہیں ہوگا کہ وہ ایک ہی جھٹکے میں پورے شمالی اور مشرقی سرحد کے ملکوں کو بھارت سے الگ کر دے ۔بھوٹان بھی اس خطرے کو سمجھتا ہے ۔بھوٹان کے سرحدی علاقوں کا تحفظ بھارت کے فوجی کرتے ہیں ۔اس لیے بھوٹان نے چینی قدم کی مذمت کی ہے ۔بھوٹان کا کہنا ہے کہ ڈوکلام علاقہ کے بارے میں چین کے ساتھ اس کا تحریری سمجھوتہ ہے کہ جب تک اس مسئلہ کا حل نہ نکلے ‘دونوں ملک اس علاقہ میں نقل و حرکت نہ کریں ۔چین جس تیزی سے جنوب ایشیا میں اپنے پائوں پسار رہا ہے ‘وہ بھوٹان کو سننے والا نہیں ہے ۔بھارت اور چین کے تین تین ہزار جوان ڈوکلام میں آمنے سامنے ہیں۔دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ مٹھ بھیڑ کی بجائے بات چیت کا راستہ نکالیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں