ممبئی کی آدرش ہائوسنگ سوسائٹی کے گھوٹالے میں چار وزرائے اعلیٰ‘ کچھ وزراء‘ کچھ نوکر شاہوں اور کچھ خاص لوگوں کے نام اچھلے‘ یہی بات ہے کہ اس سوسائٹی کا نام جتنا کھرا ہے کام اتنا ہی کھوٹا ہے۔ نام آدرش کام نیچ! کولابا میں بنی اس 31 منزلہ عمارت کے فلیٹس کارگل جنگ میں مارے جانے والے بھارتی سپاہیوں کے لواحقین کو ملے تھے لیکن انہیں ہڑپ لیا لیڈروں نے‘ نوکر شاہوں نے‘ کچھ فوجی افسروں نے۔ یہ پتا نہیں چلا کہ کارگل جنگ میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی کتنی بیوہ خواتین کو یہ فلیٹ دیے گئے۔ یہ بھی پتا نہیں کہ مرنے والے بھارتی جوانوں کے رشتہ داروں کے پاس ان فلیٹوں کو خریدنے کے لیے پیسے بھی تھے یا نہیں؟ وہ 75 - 75 لاکھ روپیہ کہاں سے لاتے؟ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اس سرکاری زمین کا غلط استعمال کرنے کی سازش پہلے سے ہی بنی ہو سکتی ہے۔ کارگل جنگ کے نام پر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے اکتیس منزلہ بھون بنانے کی باقاعدہ اجازت بھی لی گئی۔ اور اسی وجہ سے متعلقہ شعبے نے انہیں روکا بھی نہیں۔ اس علاقے میں سات منزلوں سے اونچے مکان نہیں بنتے‘ کیونکہ پاس ہی بھارتی ڈیفنس منسٹری کے رہائشی مکانات ہیں۔ ماحولیات کے معاملات کے پیش نظر بھی سات منزلوں سے اونچے مکانات یا عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو متعلقہ اداروں کی جانب سے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ ایسی تعمیرات پر کام روک دیا جاتا ہے۔ تاہم اس رہائشی 31 منزلہ عمارت کی تعمیر کے وقت کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ لیڈروں‘ نوکر شاہوں اور فوجی افسروں نے یہ سارا کام ملی بھگت سے کیا۔ جب کرنے والے بھی خود ہوں اور اجازت دینے والے بھی وہی تو روکے گا کون؟ اب اس سارے معاملے کی حقیقت کا بھانڈا پھوٹا ہے تو وزیر اعلیٰ اشوک چوہان کو مستعفی ہونا پڑا‘ اور فوجی افسروں نے شرم کے مارے غصب کئے گئے اپنے فلیٹ لوٹا دیے ہیں۔ اب وزارت دفاع کی جانچ میں فوج کے کئی افسروں کے نام بھی دھول میں مل گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہوا ہے کہ جن لوگوں نے بے ایمانی سے ان فلیٹوں پر قبضہ کیا‘ اور کسی طور چھوڑ نہیں رہے‘ ان کا کیا کیا جائے؟ ممبئی کی ہائی کورٹ کا فیصلہ یہ تھا کہ سارے فلیٹ ہی گرا دیے جائیں۔ اگر سچ مچ یہ فلیٹس قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں تو اس عمارت کو گرانا ہی ٹھیک ہے‘ لیکن اگر نہیں ہے تو کیا اتنا کافی نہیں ہو گا کہ غیر قانونی قابض لوگوں کو فوراً نکال باہر کیا جائے‘ ان سے قبضہ کئے گئے فلیٹ واگزار کرائے جائیں اور انہیں ایک پیسہ بھی نہ لوٹایا جائے۔ یعنی انہوں نے جو رقم ان فلیٹوں کی خریداری پر خرچ کی‘ وہ ساری بحقِ سرکار ضبط کر لی جائے۔ الٹا ان پر ہلکا سا جرمانہ بھی ضرور لگایا جائے۔ اس حوالے سے کچھ نوکر شاہوں اور بڑے فوجی افسروں کی گرفتاری پہلے ہی ہو چکی ہے۔ ان کی عزت دھول میں مل چکی ہے لیکن ہمارے سیاسی لیڈر پوری طرح سے محفوظ ہیں‘ کیونکہ ان کا اچارن آدرش ہے۔
راہول بات کو چھپائے کیوں؟
کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے چینی سفارت کار سے ملاقات کی‘ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا لیکن یہ اتنی خبریلی اس لیے بن گئی کہ اس کو چھپانے کی کوشش پہلے راہول گاندھی نے کی اور پھر چینی سفارتخانے نے بھی کی۔ جب ٹی وی چینلوں پر اس معاملے کو لے کر ہنگامہ ہونے لگا تو کانگریس کے ترجمان کے ساتھ ساتھ راہول بھی چاروں شانے چت ہو گئے۔ راہول کے ساتھ یہ منظر سبھی نے دیکھا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے قبول کیا کہ راہول اور چینی ہائی کمشنر کے مابین ملاقات ہوئی اور کچھ معاملات پر بات چیت بھی کی گئی‘ لیکن انہیں یہ بتاتے ہوئے اب بھی ڈر لگ رہا ہے کہ وہاں کیا کیا بات ہوئی؟ کس کس موضوع پر ہوئی؟ کون کون سے معاملات زیر غور لائے گئے۔ ایسی کون سی باتیںہوئیں جو سامنے نہیں آ سکیں۔ کیونکہ اس بات کا پتہ چلانا بہت ضروری ہے۔
اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اور چھپانے کی بات کیا ہے؟ تین برس پہلے جب حافظ سعید سے پاکستان میں میری بات ہوئی تھی تو یہاں بھارت میں کتنا بڑا ہنگامہ ہو گیا تھا‘ہر طرف شور مچ گیا تھا‘ ہاہا کار مچ گئی تھی‘صرف یہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ بند ہو گئی تھی اور میڈیا کے معامل میں جو ہوتا ہے یعنی وہ ضرورت سے زیادہ گرم ہو جاتا ہے اور اس وقت بھی یہی ہوا کہ کچھ ٹی وی اینکر جیسے پاگل ہو گئے تھے‘ لیکن ان سب کا میں نے منہ توڑ جواب دیا تھا۔ میں نے اس وقت بھی سب کچھ کھل کر بتایا تھا۔ میں نے کچھ چھپایا نہیں۔ حافظ سعید سے ہوئی تیکھی بات چیت کو شائع کروا دیا تھا۔ سانچ کو آنچ کیا؟ ہاں‘ راہول کا یہ ارادہ رہا ہو سکتا ہے کہ چینی سفارت کار کی بات میں سے کچھ نکتے ایسے نکال لیے جائیں‘ جن کی بنیاد پر مودی پر حملہ کیا جا سکے۔ ویسے راہول نے حال ہی میں بھوٹان کے سفیر اور اپنے سابق سفیر شیو شنکر مینن سے بھی بات کی ہے۔ یہ اچھی بات ہے اور جو اچھی بات ہو اس کو اچھا ہی کہنا چاہیے۔ اپوزیشن کا لیڈر اگر کچھ سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ لائق تعریف ہے۔ کسی کی تعریف کرنے سے انسان چھوٹا نہیں ہوتا۔ یوں بھی اکثر راہول کا مذاق ہی اڑایا جاتا ہے۔ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے لیکن ہوتا ہے۔ وہ ملک کے عاقل لوگوں کے بیچ میں ''بھوندوبابا‘‘ کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں۔ لیکن راہول ہمارے وزیر اعظم کی طرح فل فلیج نہیں ہیں۔ ڈوکلام میں چل رہے تنازع کے بارے میں ''فل فلیج جی‘‘ ابھی تک خاموش ہیں۔ ان کی اس خاموشی کے پیچھے اصل میں کیا راز ہے یہ تو انہیں خود ہی بتا دینا چاہیے لیکن جیسے جیسے وقت بیتے گا سوالات بھی مزید بڑھتے جائیں گے اور پھر ان سوالات کا جواب دینا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ اپنی یہ خاموشی توڑ دیں اور سب کو سب کچھ بتا دیں جو وہ چھپا رہے ہیں۔ میرے خیال میں سب سے شرمناک بات تو یہ ہوئی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ نے وزیر اعظم اور چینی لیڈر کی ہیمبرگ میں ہوئی بات چیت کا جم کر پرچار کیا‘ لیکن چینی ترجمان کہہ رہا ہے کہ دونوں کی کوئی بیٹھک ہی نہیں ہوئی۔ کھڑے کھڑے دعا سلام ہوئی اور اس موقع کے فوٹو کھنچ گئے۔ پتا نہیں ہماری سرکار ڈر کیوں رہی ہے؟ بات کیوں نہیں کر رہی ہے؟ چینی سفیر کو بلا کر ان سے پوچھ تاچھ کیوں نہیں کر رہی ہے؟ آخر ہماری سرکار کو کس چیز کا ڈر ہے جو وہ اس معاملے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ آخر اس میں ایسی کیا بات ہے کہ ہم کھل کر بات بھی نہیں کر پا رہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈوکلام میں تنا تنی کا فیصلہ مقامی سطح پر لے لیا گیا ہو اور مرکزی لیڈروں کو اس کا پتا ہی نہ ہو‘ سارے معاملے کو وفاقی سرکار بہت طول نہیں دے رہی ہو لیکن حیرانی ہے کہ اتنے لمبے چوڑے صلاح مشورے کے باوجود راہول گاندھی ابھی تک کچھ بولے کیوں نہیں؟ بندھی مٹھی لاکھ کی! کھل گئی تو خاک کی!
میرے خیال میں سب سے شرمناک بات تو یہ ہوئی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ نے وزیر اعظم اور چینی لیڈر کی ہیمبرگ میں ہوئی بات چیت کا جم کر پرچار کیا‘ لیکن چینی ترجمان کہہ رہا ہے کہ دونوں کی کوئی بیٹھک ہی نہیں ہوئی۔ کھڑے کھڑے دعا سلام ہوئی اور اس موقع کے فوٹو کھنچ گئے۔ پتا نہیں ہماری سرکار ڈر کیوں رہی ہے؟ بات کیوں نہیں کر رہی ہے؟