"DVP" (space) message & send to 7575

لیڈروں کی مرمت

بھارت کی سپریم کورٹ نے دو بڑے اہم فیصلے کیے ہیں ۔یہ دونوں فیصلے ہمارے ملک کے لیڈروں کی عزت پر کراری چوٹیں ہیں ۔پہلے فیصلے میں سبھی صوبائی حکومتوں کو عدالت نے ہدایات دی ہیں کہ وہ اپنے اضلاع میں ایک ایک ایسے افسر کی تعیناتی کریں ‘جو محافظ گایوں کے ظلموں سے لوگوں کو بچائے ۔یہ کام ہے حکومتوں کا ‘اور اس کی یاد دلا رہی ہے عدالت !یعنی حکومتیں'' کنبھ کرن‘‘ کی نیند سو رہی ہیں ۔وزیراعظم نریند رمودی کی طرف سے'' محافظ ِ گایوں ‘‘کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود'' محافظ گائے ‘‘اپنے کالے کرتوتوں سے باز نہیںآ رہے ہیں ۔اس کا مطلب کیا ہوا؟یا تو ان کے دل میں قانون کا کوئی خوف نہیں ہے یا اقتدار میں موجود لوگ ان کی پشت ٹھوکتے رہتے ہیں ۔عدالت کے سامنے ایسے 66 معاملات رکھے گئے ‘جن میں یا تو ''محافظ گائے‘‘ کے نام پر لوگوں کے قتل کر دیے گئے ‘ ان کے عضوکاٹ دیے گئے یا انہیں لوٹ لیا گیا ۔اس کے شکار سب سے زیادہ کون ہوئے ؟مسلمان ‘دلت اور خواتین ۔عدالت نے کہا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندرصوبائی حکومتوں بتائیں کہ اس مجرمانہ روش کے خلاف انہوں نے کیا کیا ؟
عدالت نے اپنے دوسرے فیصلے میں ہمارے لیڈروں کی کافی مرمت کر دی ۔اس نے سرکار کو صرف ایک ہفتہ کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ سارے منتخب لیڈروں کی ملکیت کا پوراحساب ظاہر کرے ۔اس معاملے پر وہ ابھی تک خراٹے کیوں لے رہی تھی ؟لکھنؤ کی لوک پرہری نام کی خانقاہ نے اپنی درخواست میں بتایا ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں کچھ ممبر آف پارلیمنٹ کی دولت 1200 فیصد اور کچھ کی 2100 فیصد تک بڑھ گئی ہے ۔یہ تو ان کا بتایا ہو اہندسہ ہے‘جو بن بتائی ہوئی یا چھپائی ہوئی دولت ہے ‘وہ توکئی گنا زیادہ ہوگی ۔حقیقت میں بد عنوانی کی اماں ہماری سیاست ہی ہے ۔عدالتیں تو یہاں وہاں تھوڑی سوئی چبھو سکتی ہیں لیکن اس بیماری کا جب تک ٹھیک سے علاج سیاستدان نہیں کریں گے ‘بدعنوای کی بیل پھلتی پھولتی رہے گی ۔حقیقت میں پارلیمنٹ کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں کہ پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز ہی نہیں ‘سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار وں اور ان کے رشتہ داروںکی دولت کا حساب کتاب بھی باقاعدگی کے ساتھ ہر برس ہونا چاہیے ۔
برکس :دہشت گردی پر جمع زبانہ خرچ 
برکس کا نواں اجلاس اگر سطحی نظر سے دیکھیں تو کافی کامیاب رہا ۔پہلی بار اس میں پانچ ممالک بھارت ‘چین ‘روس ‘برازیل ‘جنوب افریکہ نے مل کر دنیا کے سبھی خاص دہشت گردگروہوں اور ان کی مدد کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ۔اس مذمت میں ہمارے ہمسایہ ملک سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔گووا میں ہوئے گزشتہ اجلاس میں نریندر مودی نے اپنے خطاب میں پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈوں کا ذکر ضرور کیا تھا ‘لیکن برکس کے اعلان میں ان کا ذکر تک نہیں ہونے دیا گیا تھا ۔ظاہر ہے کہ چین کے ساتھ لحاظ داری برتی گئی تھی ۔لیکن اب چین کے شیامن میں ہوئے برکس اجلاس کے اعلان میں ان دہشت گرد گروہوں کا نام لیکر ذکر ہوا ہے ۔یہاں دھیان دینے لائق حقیقت یہ بھی ہے کہ چین اور روس نے ان دہشت گرد گروہوں کو بھی لپیٹ لیا ہے ‘جو انہیں تنگ کرتے ہیں ۔جیسے طالبان ‘داعش اور القاعدہ وغیرہ ۔ایک نظر سے تقریباًسبھی دہشت گرد گروہ اس مذمت کے دائرے میں آگئے لیکن دوسری نظر سے پاکستانی دہشت گردتنظیموں پر ہونے والا برکس کا حمہ پتلا پڑ گیا ۔سبھی ممالک نے ‘خاص کر چین نے پاکستانی
گروہوں کا ذکر ہونے دیا لیکن صرف ذکر کر دینے کا فائدہ کیا ہے ؟اس کا ٹھوس نتیجہ کیا ہوگا ؟کچھ نہیں ۔کیا چین کے صدر شی جن پنگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سخت رویہ اپنائیں گے ؟نہیں ؟کیاوہ پاکستانی حکومت پر دبائو ڈالیں گے نہیں ۔اگر نہیں تو پھر برکس اعلان کیا کاغذ کا گولا ثابت نہیں ہوگا ؟کیا برکس ممالک دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس قدم اٹھائیں گے ؟اس بارے میں مودی شی ملاقات میں بھی کوئی ذکر نہیںہوا ۔اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ دہشت گردی پر محض زبانی جمع خرچ ہوا ہے ۔چین نے پہلے ہی دھمکی دے دی تھی کہ بھارت پاکستانی دہشت گردی پر اپنا منہ نہ کھولے ۔ہمارے مودی نے غضب کا اخلاق دکھایا ۔اگر مودی نے اپنے خطاب میں پاکستانی دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں اپنا منہ کھول دیا ہوتا تو شاید چین ناراض ہو جاتا اور برکس اعلامیہ میں اس کا ذکر نہیں ہوتا۔ویسے چین کے ساتھ باقی دوطرفہ معاملات پر جو بھی بات چیت ہوئی ہے ‘وہ مثبت ہی ہے ۔مودی نے برکس اجلاس میں جو دس معاملات اٹھائے ہیں ۔وہ بھی لائق تعریف ہیں لیکن چین کا ارادہ تبدیل کرنے میں ابھی بھارت کو کافی مشقت کرنی پڑے گی ۔
یہ پھیر بدل اچھا لیکن ...
وفاقی وزراء کابینہ میں چاروزرائے مملکت کی پھیر بدل اور نو نئے وزیروں کی تقرری لائق تعریف ہے ۔یہ کام سال بھر پہلے ہو جاتا تو بہتر رہتا لیکن اب ہوا تو اور بھی اچھا رہا۔اس لیے اچھا رہا کہ گزشتہ برس کی گئی فرضی سرجیکل سٹرائیک اور نوٹ بندی ان وزرا ء کے ماتھے پر بھی چسپاں ہو جاتی لیکن اب ان سابق اور نئے وزیروں سے ملک امید کرے گا کہ وہ سرکار کے کام کاج کو زیادہ مضبوط اور بہتر بنائیں گے ۔گزشتہ تین برس میں سرکارنے کئی اچھی شروعات کی ہیں اور سیاسی بدعنوانی کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن ملک کی اکانومی اور سیاست میں کوئی خاص بدلائو نہیں ہواہے۔مجھے امید ہے کہ جن چار لائق وزراء کو مکمل وزیر بنایا گیا ہے ‘وہ اپنے اپنے شعبے میں کچھ نہ کچھ کرشمائی کام کر کے دکھائیں گے ۔جو نئے نو وزیر بنائے گئے ہیں ‘ان میں چار تو پرانے نامی گرامی اور کامیاب بیوروکریٹ رہے ہیں ۔یہ بات تو طے ہے کہ وہ مودی کی کابینہ کو چار چاند لگادیں گے ۔دیگروزرائے مملکت میں کچھ تو نئے ہیں لیکن زیادہ تر ایسے ہیں ‘جو سیاست میں کافی پہلے سے ہیں ۔،وہ اچھا کام تو کریں گے ہی ‘اپنے اپنے صوبوں میں بھاجپا کے اثر کو مضبوط بھی کریں گے ۔کیرل کے الفونس اور کرناٹک کے اننت ہیگڑے اس نظر سے قابل ذکر ہیں ۔ان سبھی وزرا میں سے زیادہ تر کو میں ذاتی حیثیت سے جانتا ہوں ۔وہ ایماندار ‘محنتی اور خدمت گار ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ بھاجپا یا اس کے باہر دیگر انتہائی قابل لوگ موجود نہیں ہیں لیکن مودی اور شاہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کمزوری سے آزاد ہوں ۔ وہ ذرا سیکھیں اندرا گاندھی سے جنہوں نے 1967 ء میں ایسے ایسے کانگریسی اور باہری لوگوں کو اپنا وزیر بنایا ‘جو اُن سے بھی زیادہ تجربہ کار اور لائق تھے ۔وہ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اپنے مخالفین اور بزرگوں سے صلاح لینا بھی نہیں بھولتی تھیں ۔یہ اگلے دوبرس بھاجپا کے لیے بہت ہی فیصلہ کن ہوں گے ۔حالانکہ مخالفین کی آج اتنی خراب حالت ہے کہ وہ 2019 ء میں اس سرکار کے لیے کوئی خطرہ کھڑا نہیں کر سکتے لیکن کون جانتا ہے کہ اگلے دوبرس میںکہیں کوئی بڑی تحریک نہ اٹھ کھڑی ہو ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں