وزارتِ ریلوے اب یہ کام کرے گی ‘جو آزادی کے بعد کسی بھی وزارت نے نہیں کیا ۔وزیر ریلوے پیوش گویل کو دلی مبارک باد!اب ریلوے بورڈ کے ممبر ‘جنرل منیجر اور ڈویژنل منیجر لوگ سادے سلیپر کلاس یاتھرڈ کلاس کے ڈبوں میں سفر کریں گے ۔بھارت میں جب سے ریل چلی ہے ‘یہ پہلی بار ہوا ہے۔ افسروں کوریل کی زندگی کی سچائی کا اب ٹھیک ٹھیک پتا چلے گا ۔انگریز کبھی ان معمولی ڈبوں میں سفر نہیں کرتے تھے اگر ریلوے کے افسر ہوتے تھے تو صرف ایک انگریز کے لیے پورا سپیشل کوچ چلا کرتا تھا ۔کبھی کبھی ایک سواری کے لیے پوری ریل چلا دی جاتی تھی ۔ باقی ڈبوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح لوگ ٹھونس دیے جاتے تھے ۔کئی مسافر کھڑکی اور دروازوں پر لٹک کر سفر کرتے تھے اور کئی ڈبوں کی چھت پر بیٹھے بیٹھے رات گزار دیتے تھے ۔ان ڈبوں میں بیت الخلا کی حالت بھی بہت ہی خراب ہوتی تھی ۔ان کی بدبوسے سارے ڈبے کا برا حال ہو جاتا۔یہ حالت اب بھی سارے ملک کے ریلوں کی ہے ۔مجھے دونوں قسم کے حالت کا خوب تجربہ ہے ۔1975 ء میں جب پنڈت کملا پتی ترپاٹھی وزیر ریلوے تھے ‘میں وزارت ریلوے کے ہندی صلاحکار یونین کا ممبر تھا۔میرے لیے ریل کے افسروں نے پانڈے چیری سے کنیا کماری تک ریل کی مخصوص بوگی چلا دی گئی۔جب میں نے اس فضول خرچی کی مخالفت کی تو انہوں نے ایک ٹھوس بہانہ بنا کر اپنی جان چھڑائی ۔میں پوچھتا ہوں کہ خود وزیر ریلوے پیوش گویل تھرڈ کلاس میں سفر کرکے کیوں نہیں دِکھاتے؟خود وزیر اعظم اور صدر بھی اسی میں چلیں تو سارے ملک کو بڑی نصیحت ملے گی ‘حالانکہ ان کی حفاظت کا خاص انتظام بہت ضروری ہے ۔ویسے میں نے اپنے ساتھ سوئٹزرلینڈکے صدر کو زیورخ کی عام بس کی لائن میں بھی کھڑے دیکھا ہے ۔انگلینڈ کے وزیراعظم بھی لندن کی میٹرو میں سفر کرتے ہیں ۔میں خودسدا دلی کی پرائیویٹ بسوں اور میٹرومیں سفر کرتا ہوں ۔ہمارے یہ لیڈر لوگ کیا مہاتما گاندھی سے بھی بڑے ہیں ؟اگر وہ چل سکتے تھے تو یہ تھرڈ کلاس میں کیوں نہیں چل سکتے ؟میں تو کہتا ہوں کہ ریلوں ‘بسوں اور ہوائی جہازوں میں بس ایک ہی کلاس ہونی چاہئے ۔ہم کیسے بھارتی ہیں ؟کیا کچھ گھنٹوں کے لیے بھی ہم یکساں سلوک برداشت نہیں کر سکتے ؟
مودی نے شاید سبق سیکھا
کمپنی سیکرٹریوں کی میٹنگ میں وزیراعظم نریندر مودی نے جو لمبی تقریر جھاڑی ‘اس کی ہی توقع تھی ۔بھاجپا کے سابق وزیر یشونت سنہا اور ارون شوری کی سخت تنقید کے بعدملک میں جو ہوا بدلی ہے ‘اس پر مودی کا ردعمل آنا ضروری تھا ۔اس کی ضرورت اس لیے بھی بڑھ گئی تھی کہ سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے بھی گھما پھرا کر عوامی تکالیف کا خوب اظہار کیا تھا ۔مودی کی تقریر کا فی پر اثر تھی ۔اس میں حقیقت اور مثال اتنی ترتیب سے پیش کی گئی کہ جو لوگ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے سیدھے شکار نہیں ہوئے ‘وہ ایک دم فدا ہو گئے ہوں گے ۔رزرو بینک کے جن آنکڑوں سے لوگ مودی کی ٹانگ کھینچتے ہیں ‘مودی نے انہی آنکڑوں کو اپنے تنقید کرنے والوں کے سرپر دے مارا ۔انہوںنے کہا کہ من موہن کے دس برسوںمیں جی ڈی پی آٹھ بار 5.7 فیصد تک گر گئی تھی ۔تب تو کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی لیکن ابھی صرف ایک تین ماہ میں اتنی گری تو کچھ لوگ بوکھلائے ہوئے ہیں ۔مودی نے اکانومی کے متعلق کئی آنکڑے پیش کرکے بتایا کہ ان کے تین سال میںکتنی غیر معمولی ترقی ہوئی ہے لیکن آج ہی رزرو بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مارچ 2018 ء تک اکانومی ریٹ 6.7 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا یعنی مودی نے جو صرف ایک تین ماہ جھٹکے کی مثال دی تھی ‘اسے رزرو بینک نے غلط ثابت کر دیا ۔جوبھی ہو‘ مودی کی اس تقریر تین پیغام نکلتے ہوئے مجھے صاف دِکھے ۔پہلا‘مودی کو یہ پتا چل گیا ہے کہ ان کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ان کی سرکار کو ہلا کے رکھ دیا ہے ۔مودی نے اپنی زندگی میں شاید پہلی بار اتناباادب طریقہ دکھایا ہے ۔میں سب کچھ نہیں جانتا ہوں ۔میں باادب طریقے سے عرض کرتا ہوں کہ ‘وغیرہ الفاظ کا انہوں نے کئی بار استعمال کیا ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ سڑک پر لڑ کھڑا رہی مودی کی ریل شاید اب پٹڑی پر آجائے ۔آجائے تو بہت اچھا ۔ملک کا بھلا ہوگا ۔دوسرا‘اپنی تنقید کرنے والوںپر مودی نے جیٹلی کی طرح اوٹ پٹانگ بات نہیں کی۔انہیں عزت دی ۔تیسرا ‘انہوں نے تاجروں کو ‘جو سنگھ ‘جن سنگھ اور بھاجپا کی ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں ‘بھلا برا نہیں کہا بلکہ انہیں تسلی دی کہ ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اب اکڑ کچھ ڈھیلی ڈھیلی ہوئی
وزیراعظم نریندر مودی کے تقریر میں جیسی مجبوری اور اخلاق دکھائی پڑ رہا تھا ‘اسی وقت مجھے لگ گیا گیا تھا کہ جی ایس ٹی کے دم گھونٹو انتظام میں کچھ کچھ نہ تبدیلی ضرور ہوگی ۔وزیر خزانہ نے 27 چیزوں پر ٹیکس کم کر دیا ہے اور ڈیڑھ کروڑروپیہ تک کے تاجروں کو اب تین مہینے میں ایک بار ٹیکس بھرنے کی چھوٹ دے دی ہے ۔اس مجبوری اور چھوٹ پر سرکار کا مذاق اڑانے کی بجائے اس کی تعریف کی جانی چاہیے ۔یہ بھی کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ ان رعایات کا سیدھا تعلق گجرات کے چنائووں سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس بات کا دھیان بھی رکھنا چاہیے کہ ہمارے وزیراعظم نے زندگی میں کبھی کوئی تجارت نہیں کی اور ہمارے وزیرخزانہ کے پاس دولت تو خوب ہے لیکن وہ تجارت سے نہیں آئی ہے۔ اتنے ناتجربہ کار ہونے کے باوجود انہوں نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے سانپ اپنے گلے میں ڈال لیے ‘یہ کم بڑی بات نہیں ہے ۔اب آہستہ آہستہ ان کی اکڑ نکل رہی ہے ‘بھاجپا کے مستقبل کے لیے یہ اچھی بات ہے لیکن ابھی تاجر مطمئن نہیں ہیں ۔اگر مودی جی اور جیٹلی جی اپنے سنگھ پریوار کے کارکنان سے ہی کھل کر بات کریں تو ان کو 'راستہ دکھانے والی جماعت ‘کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔اس وقت ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ملک کے سبھی اکانومسٹ اور ماہرین ملکی و غیر ملکی سبھی کی ایک میٹنگ ہوئی اور ان سے پوچھا جائے کہ اگر ٹیکس کو ہی ختم کر دیا جائے تو کیسا رہے گا؟دنیا کے لگ بھگ ڈیڑھ درجن ملکوں میںٹیکس نہیںہے ۔اندرا جی کے صلاحکار وسنت ساٹھے جی نے ٹیکس ختم کرنے کا مشن بھی چلایا تھا۔ نوٹ بندی کی تجویز کے جنم داتا انل بوکل کی بھی پہلی شرط یہ تھی کہ ٹیکس ختم کیا جائے ۔ان کی بات کو پوری طرح سمجھے بنا مودی جی نے اپنے نام سے نوٹ بندی چلا دی ۔اب تو وہ واپس تو نہیں ہو سکتی لیکن اس کے بے وقوفانہ اور خراب نتائج روز سامنے آ رہے ہیں ۔تازہ خبر یہ ہے کہ 5800 فرضی کمپنیوں نے نوٹ بندی کے دوران 4574 کروڑ روپے بینکوں میں جمع کروا دیے یعنی کالے کو سفید کر لیا اور بعد میں 4552 کروڑ روپیہ نکلوا لیے یعنی ان کے صر ف بائیس کروڑ روپیہ اب بینکوں میں ہیں ۔ایسے فرضی کھاتے تقریباًدولاکھ ہیں ۔بھارت کا شعبہ انکم ٹیکس اب اپنی پوری طاقت انہیں پکڑنے میں لگائے گا۔ سرکار لوگوں سے کالا دھن چھیننا چاہتی تھی لیکن بھارت کے عوام نے مودی سرکار کا چپ چاپ تیایا پانچا کردیا ۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی بنیادی طور پر کافی بہتر تجاویز تھیں لیکن ٹھیک سے لاگو نہ ہونے کے سبب فیل ہو گئیں ۔اب سرکار کا باقی وقت ان کی مرہم پٹی میں گزر جائے گا یا وہ ہمت کر کے اپنی غلطیاں قبول کرے گی ؟اگر کرے گی تو اسے شاید نئے راستے بھی مل جائیں ۔ ورنہ پھسلن تو شروع ہو گئی ہے ۔