"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت ٹرمپ کا مہرہ کیوں بنے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا ایشیائی دورہ پورا کر کے واپس امریکہ لوٹ چکے ہیں۔ دورے کے دوران انہوں نے جو خطابات کئے‘ ٹویٹ کئے‘ ان سب کو ایک جگہ رکھ کر دیکھا جائے تو یہ کہنا مشکل ہو گا کہ یہ سب باتیں امریکہ جیسے سپر پاور ملک کے صدر نے کہی ہوں گی۔ ٹرمپ جس ملک میں بھی گئے‘ اس کے لیڈر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیے۔ اسے عظیم کہا‘ اپنے استقبال کو غیر معمولی کہا‘ اور اپنے دورے کو تاریخی بتایا۔ ٹرمپ سیاستدان سے زیادہ ایک تاجر ثابت ہو رہے ہیں۔ جیسے کوئی دکان دار اپنے صارف کو پٹاتا ہے‘ ویسے ہی ٹرمپ بھی دوسرے لیڈروںکے سامنے بچھ جاتے ہیں۔ جس چین کو بیڑیوں میں باندھنے کے لیے وہ جاپان‘ آسٹریلیا‘ بھارت اور امریکہ کا اتحاد بنانے کے مقصد سے منیلا گئے تھے‘ اسی چین میں جا کر انہوں نے چینی سربراہ ژی چن پنگ کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ اپنے استقبال سے بہت خوش ہو ئے۔ انہوں نے شمالی کوریا پر اپنے حملوں کی دھار نرم کر دی اور چین کے ساتھ مل کر عالمی سیاست کو نئی شکل دینے کا عزم ظاہر کیا۔ ایسے لیڈر پر کیسے بھروسہ کیا جائے؟ وہ چین مخالف چوکھمبا اتحاد کیسے چلائے گا؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ باقی تین ملکوں کو غچہ دے دیں گے۔ وہ مذکورہ تینوں ملکوں کے چین مخالف جذبات کو نظر انداز کریں گے اور ان کی اوٹ میں امریکی مقاصد حاصل کریں گے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے میں نے لکھا تھا کہ نریندر مودی کو منیلا میں اپنا قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا۔ چین کے ساتھ ہمارے جو مسائل ہیں‘ ان سے ہم اپنے دم خم سے نمٹیں گے۔ ہم امریکہ کا مہرہ نہیں بنیں گے۔ میرا سوال یہ ہے کہ چاروں ملکوں نے وہاں ایسا کون سا فیصلہ کیا ہے‘ جس سے چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا مقابلہ ہو گا؟ اور اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں۔ کیا انہوں نے چینی کوریڈور کے مقابلے میں کسی ایشیائی زمینی راستے کا خواب پورا کیا؟ نہیں۔ کسی بڑے ایشیائی خزانے کا اعلان کیا؟ ان سوالات کا جواب بھی ''نہیں‘‘ ہے۔ آسیان بیٹھک اور چوکھمبا بیٹھک سے امریکہ نے اپنے ملکی مفاد کے علاوہ کیا کیا ہے؟ یہ اچھا رہا کہ نریندر مودی نے نہ تو ٹرمپ کی طرح زمین آسمان کی اڑانیں بھریں اور نہ ہی اوٹ پٹانگ بیان جھاڑے۔ وہ متعدد ایشیائی ملکوں کے سربراہوں سے مل جل لیے‘ یہ ٹھیک ہی رہا۔ اگر مودی کی جگہ نہرو ہوتے تو اس موقع پر وہ ایشیائی اتحاد کی بات ضرور کرتے۔
فاروق عبداللہ کا بیان 
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے لگتا ہے‘ سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال دیا۔ ایک طرف کانگریس اور بھاجپا ان کی مذمت کر رہے ہیں اور دوسری طرف کشمیر کے آزادی پسند لیڈر ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسا کیا بول دیا ہے‘ انہوں نے؟ فاروق عبداللہ نے بول دیا ہے کہ آزاد کشمیر پاکستان کے پاس رہے گا اور مقبوضہ کشمیر ہندوستان کے پاس‘ آزاد کشمیر کو بھارت جنگ لڑ کر جیت نہیں سکتا اور ان کے خیال میں یہی صورتحال مقبوضہ کشمیر کی بھی ہے‘ کیونکہ یہ علاقہ تین بڑے ملکوں بھارت‘ پاکستان اور چین میں گھرا ہوا ہے اور تینوں کے پاس ایٹم بم ہیں۔ بہرحال یہ فاروق عبداللہ کی ذاتی سوچ ہے۔ 
عبداللہ نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ بھارت نے کشمیر کی خود مختاری کا احترام نہیں کیا‘ جو محبت اسے کشمیریوں کو دینی تھی‘ وہ اس نے نہیں دی۔ ظاہر ہے کہ سبھی فریقوں کو فاروق عبد اللہ کی ان باتوں پرناراض ہونا تھا۔ عبداللہ نے وہ کہہ دیا‘ جو اس وقت صورتحال ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سامنے والا جو بولے‘ وہ ایسا ہی ہو جیسا کہ ان کے دل میں ہے۔ لوگوں کے دل میں ہر بات اپنے اپنے حساب سے ہوتی ہے لیکن میرے خیال میں عبداللہ نے جو کہا‘ اس پر سبھی طرفین کو غور کرنا چاہیے۔ کشمیر کی جانب بھارت کی پالیسی ایسی ہونی چاہیے تھی کہ کشمیری لوگ خود کشمیر کے بھارت میں ملنے کی پیشکش رکھتے اور اس خواہش کا اظہار کرتے۔ لیکن بھارت نے الٹا ان پر چھ لاکھ سے زیادہ فوج مسلط کر دی‘ جو وہاں کشمیریوں پر ظلم کر رہی ہے۔ ایسے میں کشمیری بھارت کے ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں۔ لگ بھگ یہی بات‘ کچھ دوسرے الفاظ میں‘ میں بھارت اور پاکستان کے سبھی وزرائے اعظم سے کہتا رہا ہوں۔ پاکستانی کشمیر کے کئی وزرائے اعظم اور کشمیر کے لیڈر شیخ عبداللہ سے بھی دہلی اور سری نگر میں کئی بار یہی بات ہوئی ہے۔ اٹل جی نے کشمیر کا حل انسانیت کے دائرے میں نکالنے کی بات کہی تھی‘ اور نرسمہا رائو جی نے اپنے لال قلعہ کے خطاب میں 'خود مختاری کی حد آسمان‘ تک بتائی تھی۔ اٹل جی اور جنرل مشرف ان پوانٹس پر آگے بڑھنے والے تھے لیکن دونوں ملکوں میں اقتدار کی تبدیلی کے سبب سارا معاملہ بیچ میں لٹک گیا۔ ابھی دونوں ملکوں کی سرکاریں اپنے اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہیں۔ ان سے ابھی کچھ زیادہ امید کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
فرق کیا ہے؟
پہلو خان کی طرح اب عمر خان کا قتل ہو گیا۔ قاتلوں اور کچھ پولیس والوں کا بھی کہنا ہے کہ میوات کا عمر خان اور اس کے ساتھی ایک ٹرک میں گایوں کی تسکری کر رہے تھے۔ انہیں الور کے ایک گائوں میں سات آٹھ لوگوں نے پکڑا‘ مارا پیٹا اور ان میں سے ایک‘ عمر کی نعش کو ریل کی پٹڑی پر ڈال دیا گیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ اسے مارا گیا ہے۔ لیکن پولیس جانچ کر رہی ہے۔ اس نے رپورٹ لکھ لی ہے۔ قاتل کب پکڑے جائیں گے یا پکڑے بھی جائیں گے یا نہیں‘ کچھ پتا نہیں۔ ہم مان لیں کہ تین گائیوں اور تین بچھڑوں کو عمر خان اور اس کے دو ساتھی مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یا لے جا کر بوچڑ خانوں کو بیچنے والے تھے‘ جو کہ یہاں بھارت میں ایک غیر قانونی کام ہے‘ تو بھی میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کے بدلے میں ان آدمیوں کے قتل کا حق کسی کو کیسے مل جاتا ہے؟ اس طرح کی حرکت گناہ تو ہے ہی‘ بے وقوفانہ بھی ہے۔ ایسا کرنے سے کیا گائیوں کا ذبح کیا جانا روکا جا سکے گا؟ ایسا کرکے اگر آپ کچھ صوبوں میں گائے کا گوشت کھانے والوں کو ڈرا بھی لیں گے تو کیا ہو گا؟ ناگا لینڈ‘ اروناچل‘ سکم‘ کشمیر جیسے سرحدی علاقوں میں تو گائے کو گوشت کے لئے روز ذبح کیا جاتا ہے۔ وہاں قانون کا کوئی بندھن نہیں ہے کیا؟۔ جو انسانوں کو مار کر گائے کی حفاظت کرنے کا دم بھرتے ہیں‘ ان میں یعنی گائے کی حفاظت کرنے والوںمیں فرق کیا ہے؟ گائے کے سچے نگہبان تو وہ ہیں‘ جو حقیقت میں گائے کی خدمت کرتے ہیں‘ اور لوگوں کو اپنی محبت اور مثال سے گائے کا گوشت کھانے سے منع رکھتے ہیں۔ اگر سارے بھارت میں گائے کا گوشت کھانا محبت سے بند ہو جائے تو گائیوں کا ذبح کیا جانا خود بخود ختم ہو جائے۔ بھارت اکیلا ملک ہے‘ جہاں دنیا کے سب سے زیادہ سبزی خور لوگ رہتے ہیں۔ یہ لوگ گوشت خوروں کو مار کر اپنے آپ کو نیچے گرا رہے ہیں۔ انسان کے قتل سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔

ٹرمپ سیاستدان سے زیادہ ایک تاجر ثابت ہو رہے ہیں۔ جیسے کوئی دکان دار اپنے صارف کو پٹاتا ہے‘ ویسے ہی ٹرمپ بھی دوسرے لیڈروںکے سامنے بچھ جاتے ہیں۔ جس چین کو بیڑیوں میں باندھنے کے لیے وہ جاپان‘ آسٹریلیا‘ بھارت اور امریکہ کا اتحاد بنانے کے مقصد سے منیلا گئے تھے‘ اسی چین میں جا کر انہوں نے چینی سربراہ ژی چن پنگ کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ اپنے استقبال سے بہت خوش ہو ئے۔ انہوں نے شمالی کوریا پر اپنے حملوں کی دھار نرم کر دی اور چین کے ساتھ مل کر عالمی سیاست کو نئی شکل دینے کا عزم ظاہر کیا۔ ایسے لیڈر پر کیسے بھروسہ کیا جائے؟ وہ چین مخالف چوکھمبا اتحاد کیسے چلائے گا؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ باقی تین ملکوں کو غچہ دے دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں