"DVP" (space) message & send to 7575

پاکستان‘ بھارت‘ چین: توتو میں میں نہیں!

مجھے تھوڑا اچرج ہوا اور خوشی بھی کہ اس بار توازن قائم رکھا گیا۔ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بلوچ قوم پرستوں نے جو دہشتگردانہ حملہ کیا‘ اس کے لیے نہ تو وزیر اعظم عمران خان نے اور نہ ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس سے پہلے جب بھی ایسا ہوا‘ کوئی بھی دہشتگردانہ کارروائی کہیں بھی ہوئی ہو‘ سندھ میں‘ بلوچستان میں‘ پنجاب میں‘ اس کا سارا الزام بھارت کے سر مڑھ دیا جاتا تھا۔ بھارت کا بھی یہی طرز عمل تھا۔ حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے پولیس کے دو جوان بھی شہید ہوئے‘ لیکن لیڈی پولیس افسر سہائی عزیز ٹالپور کی بہادری تعریف کے لائق ہے۔ جب چینی قونصلیٹ پر حملہ ہو رہا تھا‘ ادھر چین میں بھارت کے مشیر برائے سلامتی اجیت ڈوبھال اور چینی حکام سرحدی تنازع کو سلجھانے کے لیے بات چیت کا اکیسواں دور چلا رہے تھے۔ یہ ایک خوش آئند صورتحال ہے کہ اس موقع پر ان تینوں پڑوسی ملکوں کے بیچ کوئی توتو میں میں نہیں ہوئی اور حالات معتدل رہے۔ حال ہی میں ڈیرہ بابا نانک سے کرتار پور تک نانک کوریڈور کا افتتاح کیا گیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان ملکوں کے بیچ یہ اقدام ایک مثبت پیش رفت کا باعث بنے اور پھر ان کے آپس کے تعلقات بڑھتے چلے جائیں۔ پاکستان کے ان دنوں جو اقتصادی حالات ہیں‘ ان میں چین کا اثر وہاں بڑھتا جا رہا ہے۔ چین چاہے تو بھارت چین سرحد کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو سلجھانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘ کیونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا‘ اس پورے خطے میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ جب تک امن قائم نہ ہو گا پاکستان اور بھارت کے عوام وہ ترقی حاصل نہیں کر سکیں گے‘ جو ان کا حق ہے اور جو تھوڑی سی کوشش سے وہ حاصل کر سکتے ہیں۔ 
برطانیہ تیرے کوچے سے یوں نکلا
برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین جو معاہدہ ہوا ہے‘ اس کے بارے میں یہ پتا نہیں کہ برطانوی پارلیمنٹ اس پر مہر تصدیق لگائے گی یا نہیں؟ لیکن اگر برطانوی پارلیمنٹ نے اسے رد کر دیا تو وزیر اعظم تھریسا مے کو مستعفی ہونا پڑے گا‘ اور اس معاہدے کا مستقبل بیچ میں لٹک جائے گا۔ برطانیہ یورپی یونین کا 1973ء میں ممبر بنا تھا۔ 27 ملکوں کا یہ اتحاد ساری دنیا میں سب سے خوشحال اور طاقتور مانا جاتا ہے۔ دنیا کے سبھی کھنڈوں میں اس کی نقل کرتے ہوئے کئی عالمی اتحاد بن چکے ہیں لیکن اس اتحاد کو چھوڑنے کا فیصلہ اس کے سب سے طاقتور اور خوشحال ملک نے 2016ء میں کر لیا تھا۔ برطانیہ میں رائے شماری ہوئی اور اس کے نتیجے میں یہ فیصلہ ہوا۔ برطانوی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ ان کے ملک کو اب مزید یورپی یونین کا رکن نہیں رہنا چاہیے۔ اس وقت 71 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی اور صرف ایک ڈیڑھ فیصد کی فرق سے یہ فیصلہ ہوا تھا۔ اگر ووٹنگ اسی یا نوے فیصد ہوتی تو فیصلہ یہی ہوتا کہ برطانیہ یورپی یونین میں بنا رہا یعنی کسی بھی صورت میں اس سے الگ نہ ہو۔ اب بھی برطانیہ کے ایوان کی اپوزیشن اور اقتداری پارٹی کے کئی ارکان برطانیہ کے یورپی یونین کو چھوڑنے کے خلاف ہیں۔ وہ سب اگر مل گئے تو تھریسا مے اور ان کا یہ معاہدہ‘ دونوں ہی رد کر دئیے جائیں گے۔ یورپی یونین کے ممبر دو ٹوک الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی بھی حالت میں اس معاہدے پر دوبارہ کوئی بات نہیں کریں گے۔ لگ بھگ پانچ سو صفحات پر مشتمل اس دستاویز کو بہت سوچ سمجھ کر قبول کیا گیا ہے۔ وہ تھریسا مے کی سمجھداری اور اخلاق کے لیے ان کو مبارک دے رہے ہیں لیکن اس معاہدے کے بارے میں انگلینڈ کی پارلیمنٹ کے ممبروں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے نام پر تھریسا مے نے برطانیہ کی خود مختاری کا سودا کر لیا ہے اور یہ کہ برطانیہ کو یورپی یونین کی گرفت میں جکڑ دیا ہے۔ برطانیہ نے یورپی یونین کے بائیکاٹ کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ یورپی ملکوں کے طرح طرح کے حربوں نے برطانیہ کو اپنا نشانہ بنا لیا تھا۔ سارے ننگے بھوکے لوگ برطانیہ میں جمع ہونے لگے تھے۔ انگریزوں کے روزگار چھیننے جانے لگے تھے۔ برطانیہ کی خود مختاری کم ہوتی جا رہی تھی اور برطانیہ معاشی لحاظ سے کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ اس معاہدے کے سبب ان بنیادی باتوں میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اسی لیے اس کی اتنی سخت مخالفت ہو رہی ہے۔ دیکھیں‘ اگلے دو تین ہفتوں میں اس حوالے سے کیا اتھل پتھل ہوتی ہے۔ آسیان اور سارک جیسی یونین کو اس سے کافی سبق ملے گا۔
وزیر اعظم کی تقاریر کیسی ہوں ؟
آج دو خبروں پر میرا دھیان ایک ساتھ گیا۔ ایک تو سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی جانب سے نریندر مودی کو دی گئی اس صلاح پر کہ آپ یاد رکھیں‘ آپ سارے بھارت کے وزیر اعظم ہیں (صرف بھاجپا کے نہیں) وزیر اعظم کی تقاریر میں ایک اصول ہونا چاہیے۔ من موہن سنگھ جی کا اشارہ مودی کی ان تقاریر کی اور تھا‘ جو وہ آج کل چناوی جلسوں میں کرتے ہیں۔ دوسری خبر‘ جس نے میرا دھیان اپنی طرف کھینچا‘ وہ یہ ہے کہ پی ایم آفس اب مودی کی سبھی تقاریر کی ایک بڑی کتاب چھپوا رہا ہے‘ کئی جلدوں میں! اب آپ ہی بتائیے کہ ان دونوں خبروں کو ایک ساتھ پڑھ کر آپ بھی سوچ میں پڑ جائیں گے یا نہیں؟ من موہن جی نے جو صلاح مودی کو دی ہے‘ اس صلاح کی ضرورت کیا راہول گاندھی کو مودی سے بھی زیادہ نہیں ہے؟ حالانکہ دونوں لیڈروں کی ذہنی کیفیت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہے لیکن مودی پر تنقید کرنے والے بھی مانتے ہیں کہ مودی کے حملوں میں کچھ دم ہوتا ہے جبکہ راہول کا بولا ہوا لوٹ کر ان پر ہی بھاری پڑ جاتا ہے۔ جیسے کہ یہ جملہ 'مودی چور ہے‘۔ جو بھی ہو‘ وزیر اعظم تو لوگ کچھ برسوں یا مہینوں کے لیے بنتے ہیں۔ اصلی سوال یہ ہے اپنی پچاس ساٹھ سال پرانی عادتوں کو وہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ لیکن ان کی تقاریر کو اکٹھا کر کے چھاپنا تو اس سے بھی بڑا مذاق ہے۔ سرکار کے کروڑوں روپے کی خالص بربادی ہے۔ وزیر اعظم تو کوئی بھی سٹیزن ہولڈر بن سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ پڑھا لکھا بھی ہو‘ عالم بھی ہو‘ مفکر بھی ہو‘ اور اسے تقریر بھی کرنی آتی ہو۔ مودی کو تقریر کرنی تو ضرور آتی ہے لیکن اگر ان کی ساری تقاریر شائع ہو گئیں تو ان کو وہ خود پڑھ کر پریشان ہو جائیں گے۔ جو تقاریر ان کے نوکر شاہوں نے ان کو لکھ کر دی ہیں‘ ان میں شاید کچھ چھاپنے لائق ہوں‘ کیونکہ ان میں سرکاری پالیسیوں کا حوالہ ہوتا ہے لیکن وہ اتنی بورنگ ہوتی ہیں کہ انہیں پڑھنے کے لیے کتاب کون خریدے گا؟ نہرو جی اور نرسمہا رائو جی کی بات جانے دیں‘ جو اپنی تقریر خود لکھتے تھے یا لکھے ہوئے کو خود سدھارتے تھے۔ باقی وزرائے اعظم میں کون ایسے ہیں‘ جن کی تقاریر چھپنے لائق ہیں یا پیسے خرچ کر کے پڑھنے لائق ہیں؟ مودی کی تقاریر کو ٹھیک ٹھاک کر کے چھاپنے کے لیے جو گروپ تیار ہوا ہے‘ ان میں سے ایک میرے کلاس فیلو ہیں اور ایک گہرے دوست ہیں۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ ان کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری آ گئی ہے۔ پتا نہیں‘ انہوں نے اس کے لیے ہامی کیوں بھر دی؟ ان کی عزت دائو پر لگ گئی ہے۔ میں ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔
حال ہی میں ڈیرہ بابا نانک سے کرتار پور تک نانک کوریڈور کا افتتاح کیا گیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان ملکوں کے بیچ یہ اقدام ایک مثبت پیش رفت کا باعث بنے اور پھر ان کے آپس کے تعلقات بڑھتے چلے جائیں... چین چاہے تو مسئلہ کشمیر کو سلجھانے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں