افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششیں آجکل جتنی زوروں سے ہو رہی ہیں ‘شاید گزشتہ تیس برس میں کبھی نہیں ہوئیں ۔کبھی کابل ‘کبھی اسلام آباد ‘کبھی دوحہ‘کبھی تہران ‘کبھی ماسکو ‘کبھی واشنگٹن ڈی سی اور اب نئی دلی میں بھی لیڈر اور افسر مسلسل مل رہے ہیں ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خاص سفیر زلمے خلیل زاد نے بھارت آکر ہمارے لیڈروں اور افسروں سے افغان طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کاوش اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا بارے بات کی ہے ۔ادھر ازبکستان کے دورے کے موقع پر ثمر قند میں ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج نے وسطی ایشیا کی پانچوں مسلم ریاستوں کی بیٹھک میں افغانستان کی خاص چرچا کی ہے ۔مسز سوراج کے قزاقستان‘ کرغستان اور ازبکستان دورے کو مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ سفارتی شراکت کو مضبوط کرنے کے نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ وسطی ایشیا کے سبھی ممالک اور بھارت کے بیچ افغان علاقہ صدیوں سے ایک پل کا کام کرتا رہا ہے۔ اگر بھارت کے لیے افغانستان سے ہو کر جانے والا راستہ کھل جائے تو مانا جاتا ہے کہ بھارت تو مالا مال ہو ہی جائے گا ‘ ان سبھی ترقی پذیر ملکوں کی خوشحالی میں بھی چار چاند لگ جائیں گے ۔لیکن تعجب ہے کہ بھارت سرکار کوئی پہل اپنی طرف سے کیوں نہیں کر رہی ہے ؟وہ ایک ہی ضد لگائے ہوئے ہیں کہ جو بھی معاہدہ ہو وہ افغانوں کے ذریعے ہو ‘ان کے درمیان اور وہ ہی کریں ؟ یہ بات کہنے کے لیے ٹھیک ہے‘اصولا ًبھی ٹھیک ہے ‘مگر وہ کر سکتے ہوتے تو گزشتہ اٹھارہ برس سے افغانستان میں خون کی ندیاں کیوں بہتی رہتی ؟کیا پاکستانی‘ امریکی‘روسی ‘چینی اورایرانی سرکاریں بے وقوف ہیں جو اپنے اپنے ڈھنگ سے پہل کر رہی ہیں ؟ وہ طالبان اور کابل سرکارلیڈروں سے بات کر رہی ہیں یا نہیں ؟یہ ٹھیک ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ہمارے قابل ممبر پارلیمنٹ کی سمجھ کافی سطحی ہے‘ لیکن میں وزیر خارجہ سشما جی سے امید کرتا ہوں کہ وہ پہل کریں اور طالبان سے سیدھے بات کریں ۔ان سے رابطہ بڑھائیں ۔طالبان بھارت کے دشمن نہیں ہیں ۔ جب دسمبر 1999ء میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے دہلی آنے والے جہاز آئی سی 814 کو اغوا کرکے قندھار لے گئے تھے ‘ تب میں نے اٹل جی کے کہنے پر کابل ‘قندھار ‘لندن ‘نیویارک اور پشاور میں طالبان لیڈروں سے سیدھی بات کی تھی ۔انہوں نے ہمارے جہاز کو باحفاظت چھوڑ دیا تھا ۔طالبان لوگ خاص طور غلزئی( خلجی ) پٹھان ہیں۔وہ بڑے غیرت مند اور جنگجو ہوتے ہیں ۔اگر امریکہ نے افغانستان سے رخصتی لے لی تو کابل میں طالبان کواقتدار میں ہونے سے روکنا لگ بھگ ناممکن ہوگا ۔ایسے میں اگر بھار ت نے طالبان کے ساتھ رابطے نہ بڑھائے دوسرے لفظوں میں صرف کابل حکومت کی ٹوکری میں سارے انڈے رکھے تو بھارت پیچھے رہ جائے گا ۔میری رائے ہے کہ بھارت افغانستان کاایک سمجھدارہمسایہ ہے ‘ بھارت نے وہاں پیسہ بھی خوب لگایا ہے اور قربانیاں بھی دی ہیں ۔وہاں امن قائم کرنے میں اس کی پہل سب سے زیادہ ‘سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہونی چاہیے ‘ اگرچہ ابھی تک جو منظر دیکھا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ ‘ پاکستان‘ کابل حکومت اور طالبان کے مذاکرات کو بھارت گبھرائے ہوئے بچے کی طرح فاصلے سے کھڑا دیکھ رہا ہے اورفکر مند ہے کہ اس پیش رفت سے افغانستان میں اس کی بچھائی ہوئی بساط تو الٹ جائے گی۔
تعلیم میں انقلاب
اکانومی کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں ریزرویشن خیرمقدم کے لائق ہے۔وہ دس فیصد کیوں ‘کم ازکم ساٹھ فیصد ہونا چاہیے ‘ اور اس کی بنیاد ذات یا قبیلہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ جو بھی غریب ہو ‘چاہے وہ کسی بھی ذات یا مذہب یا زبان کا ہو ‘اگر وہ غریب کا بیٹا ہے تو اسے سکول اور کالج میں داخلہ لازمی ملنا چاہیے ۔ کسی بھی ذات یا محروم طبقہ کا بچہ تعلیم سے محروم نہیں رہنا چاہیے ۔وہ اگر ملائی دار پرت کا نہیں ہے تو اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے کون روک سکتا ہے ؟کم ازکم دسویں جماعت تک کے طلبہ کے دن کے کھانے ‘سکول کا لباس اور جنہیں ضرورت ہو‘انہیں ہوسٹل کی سہولیات دی جائیں تو دس برسوں میں بھارت کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔مگریہ سب سہولیات دینے سے پہلے سرکار کو غربت اور غریب کی تشریح کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ سوناروں کے ووٹ پٹانے اور انہیںبے وقوف بنانے کے لیے آٹھ لاکھ روپے سالانہ کی جو حد رکھی گئی ہے ‘ اسے سکیڑ کر سچائی کے نیچے لانا ہوگا ۔اسے نصف یا ایک تہائی کرنا ہوگا ۔اس سے سب سے پہلے تو یہ ہوگا کہ جو کروڑوں بچے اپنی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ بھاگتے‘وہ نہیں بھاگیں گے ۔میٹرک تک پہنچتے پہنچتے وہ بہت سے ہنر سیکھ جائیں گے ۔اگر انہیں پڑھائی چھوڑنی پڑی تو بھی وہ اتنے ہنر مند بن جائیں گے کہ انہیں اپنے روزگار کے لیے کسی خاص خدمتگار کے ہوائی وعدوں پرمنحصر نہیںہونا پڑے گا۔یہ تبھی ہوگا جب ہم میکاؤلے کی تعلیم کا سسٹم ختم کردیں گے ۔ لارڈ میکاؤلے نے 1835ء میں انڈین تعلیم پر جو رپورٹ پیش کی تھی‘ جسے بعد میں ایکٹ 1835 ء کے عنوان سے قانونی حیثیت دے دی گئی اس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ تعلیم کے معاملہ برطانوی حکومت کا مطمح نظر صرف یورپی علوم اور ادب کی ترویج و فروغ ہونا چاہئے اور تعلیم کے لئے مختص تمام وسائل انگریزی تعلیم ہی کے لئے استعمال کئے جانے چاہئیں۔ میکاؤلے نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی روایتی تعلیم کو مشکوک قرار دیتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا تھاکہ عوام کے فکر و مزاج میں مغربی علوم کا بیج بویا جانا چاہئے۔لارڈ میکاؤلے کے تجویز کردہ نظامِ تعلیم کے دو اہم مقاصد تھے۔اول یہ کہ مقامی لوگوں کا ذریعہ تعلیم عربی ‘ فارسی اور سنسکرت کے بجائے انگریزی ہوگا اور دوسرا یہ کہ یہ نظام تعلیم لادینی ہوگا۔لارڈ میکاؤلے نے ہندوستان کے لوگوں کو مغربی تعلیم دینے کے کئی مقاصد بیان کئے ہیں جن میں سے دو قابلِ غور ہیں۔اول یہ کہ مقامی لوگوں کو لادینی تعلیم دینے سے ان کے نقطہ نظر میں وسعت پیدا ہوگی اور ان پر سے وہ مذہبی جنون کی گرفت کمزور ہوگی جو ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے لئے مستقل خطرہ ہے اور دوسرا اہم مقصد یہ کہ اس نظام تعلیم کے ذریعے لوگوں کو ذہنی اور فکری طور پر پوری طرح مغربی بنا دیا جائے اور ان کے ذہنوں پر مغربی علوم و ثقافت کی عظمت کا سکہ جما دیا جائے۔ چنانچہ اس نے لکھا کہ ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان ترجمان ہو۔ یہ ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق اور رائے‘ الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔ ملک میں چل رہے نجی تعلیمی اداروں کے نصاب اور فیس پر ضابطہ رکھنے کے لیے ایک کمیشن بنایاجانا چاہیے۔ آج ملک کے نجی ہسپتال اور سکول‘کالج لوٹ مار کے سب سے بڑے اڈے بن گئے ہیں ۔ان کا ہدف ایک طاقتور اور خوشحال بھارت کا خواب نہیں ہے ‘ بلکہ صرف پیسہ بنانا ہے ۔ اگر بھارت کے تعلیمی اداروں میں جسم اور کردار‘ دونوں کی مضبوطی پر زور دیا جائے تو بھارت کو اگلی ایک دہائی میں ہم دنیا کے خوشحال اور طاقتور ملکوں کی فہرست میں کھڑا کر سکتے ہیں ۔تعلیم میں انقلاب کی بنیاد پر ہی امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک بنا ہے۔ بھارت کی تعلیم اور تکنیک کے تحقیقی کاموں پر زوردیا جائے اور یہ ریسرچ ملکی زبانوں میں کی جائے ‘تو بھارت کے نوجوان اپنے ملک کو بہت آگے لے جا سکتے ہیں ۔