"DVP" (space) message & send to 7575

خواب بڑا لیکن تیاری کتنی؟

نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا (نیتی آیوگ) کے ڈائریکٹرز اور ممبرز کی میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک زبردست اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگلے پانچ برس میں بھارت کی اکانومی کو وہ لگ بھگ دو گنا کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی وہ پونے تین لاکھ کروڑ روپے کی ہے۔ اسے وہ پانچ لاکھ کروڑ روپے تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کا ارادہ تو بہت اچھا ہے‘ لیکن اسے وہ پورا کیسے کریں گے؟ پتا نہیں‘ انہیں یہ اندازہ بھی ہے یا نہیں کہ اتنی تیز رفتار سے آج تک دنیا کی کوئی اکانومی آگے نہیں بڑھی ہے۔ ابھی دنیا میں کہیں کسی ملک کی ساری پیداوار اگر ایک دو فیصد بھی آگے بڑھ جاتی ہے تو لوگوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ بھارت کے ایک مشہور اکانومسٹ نے ابھی ابھی اپنی نئی تحقیق کی بنیاد پر یہ ثابت کیا ہے کہ بھارتی سرکار نے گزشتہ پانچ برس میں ملکی اکانومی کی ترقی کے جو آنکڑے پیش کیے ہیں‘ ان میں بڑی خامی ہے۔ وہ ٹھیک نہیں ہیں، ان میں کچھ گڑبڑ ہے۔ اگلے پانچ برس میں اپنی اکانومی میں لگ بھگ سو فیصد اضافے کی بات کرنا ہوائی قلعہ بنانے جیسی بات لگتی ہے۔ اس وقت امریکہ کی اکانومی19.48 لاکھ کروڑ‘ چین کی 12.27 لاکھ کروڑ‘ جاپان کی4.8 لاکھ کروڑ اور جرمنی کی 3.69 لاکھ کروڑ ہے۔
جاپان‘ جرمنی اور برطانیہ جیسے ملکوں کی اکانومی بھارت سے زیادہ بڑی ہے لیکن یہ ملک بھارت کے مقابلے بہت چھوٹے ہیں۔ کیا بھارت کے پالیسی ساز ان کی نقل کرنا چاہتے ہیں؟ ضرور کریں لیکن نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا بھارت کے پالیسی بنانے والوں کو پتا ہے ان ملکوں کی خوشحالی کا راز کیا ہے؟ سب سے پہلا راز تو یہ ہے ان کا سارا کام اپنی زبان میں ہوتا ہے۔ یہ بھارت کی طرح نقل کرنے والے اور زبان کے غلام ملک نہیں ہیں۔ دوسرا‘ ان ملکوں نے اپنے محدود قدرتی وسائل کا جم کر استعمال کیا ہے۔ اگر بھارت کا ہر آدمی دس پودے لگانے اور کچھ سبزی اگانے کا عزم کر لے تو کافی کرشمہ ہو سکتا ہے۔ تیسرا‘ ان چھوٹے چھوٹے ممالک کی خوشحالی کا بڑا راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے دوسرے ممالک میں بھی قدرتی وسائل کے دوہن (حصول) میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ تجارت کے ذریعے بھارت کے پاس جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کی لا محدود دولت کے دوہن کے مواقع ہیں لیکن اس کے لیڈروں اور نوکر شاہوں کو ان کے بارے میں سمجھ نہیں ہے۔ شاید اب کچھ ہو جائے۔
سارے چنائو ایک ساتھ کیسے ہوں؟ 
بھارت کی سبھی پارٹیاں ان دنوں اس مدعا پر غور کر رہی ہیں کہ کیا لوک سبھا اور ودھان سبھائوں کے چنائو (انتخابات) ایک ساتھ ہونے چاہئیں؟ وزیر اعظم نریندر مودی کی خواہش ہے کہ وہ ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ یہی بات میں گزشتہ کئی برسوں سے کہہ رہا ہوں۔ کئی بار میں نے وزرائے اعظم اور چنائو افسروں سے بھی یہ درخواست کی لیکن یہ درخواست چکنے گھڑے پر پانی کی طرح پھسل گئی۔ اس کے کئی سبب بتائے گئے۔ پہلا یہی کہ اگر سبھی ودھان سبھائوں اور لوک سبھا کے چنائو کی ایک ہی تاریخ طے ہوئی تو کئی لوگوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ کئی ودھان سبھائوں یا لوک سبھا کو ان کی پانچ برس کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی برخاست ہونا پڑے گا۔ سبھی چنے ہوئے ایم پیز چاہتے ہیں کہ کم از کم پانچ برس ان کی چوہدراہٹ قائم رہے۔ اس لیے کوئی بھی اپنی سیٹ یا جگہ قبل از وقت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ اس پس و پیش کا اطمینان بخش حل نکالنا اتنا مشکل کام نہیں ہے‘ جتنا اسے سمجھا جا رہا ہے۔ دوسرا مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ نوعیت کا ہے اور اتنی ہی زیادہ توجہ کا طالب بھی۔ وہ یہ کہ کئی ودھان سبھائیں اور خود لوک سبھا بھی کئی بار پانچ برس سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر الگ الگ وقت پر ختم ہوں تب کیا ہو گا؟ اگر انہیں اس وقت تک برخاست رکھا جائے اور ان کے چنائو نہیں کروائے جائیں‘ جب تک وہ پانچ برس والی تاریخ نہ آ جائے تو سرکاریں کیسے چلیں گی؟ کیا ان صوبوں میں تب تک گورنر اور ملک میں صدارتی نظام چلے گا؟ کیا جمہوریت کا دامن اس عرصے میں بالکل چھوڑ دیا جائے گا؟ میرے خیال میں یہ غیر جمہوری کام ہو گا۔ اسی لیے لوگ کہتے ہیں کہ ودھان سبھائوں کے چنائو اور لوک سبھا کے چنائو ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ اس کا حل میرے پاس ہے۔ اگر کسی ودھان سبھا یا لوک سبھا میں کوئی سرکار اقلیت میں آ جائے اور گر جائے تو ایسے میں وہ تب تک مستعفی نہ ہو جب تک کوئی نئی سرکار نہ آ جائے۔ یعنی ودھان سبھا یا لوک سبھا کو پانچ برس سے پہلے برخاست کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ سرکاریں چاہے پانچ سال سے پہلے برخاست ہوتی رہیں لیکن ودھان سبھائیں اور لوک سبھا پانچ برس تک بدستور ٹکی رہیں۔ اس موقع پر شاید ہمیں ہمارے پارٹی بدلنے کے قانون پر بھی دوبارہ غور کرنا پڑے۔ اگر ہم اپنی اس پرانی اکانومی میں یہ بنیادی تبدیلی کر سکیں تو ہمارے چناوئوں کے اناپ شناپ خرچوں پر بھی روک لگے گی‘ بد عنوانی میں کمی ہو گی ‘ لیڈر لوگ مسلسل چلنے و الے چناوی دنگل سے گریز کریں گے اور اپنے وقت اور طاقت کا استعمال سرکار چلانے میں کریں گے۔
میں ... اور تُو میرا بچہ 
یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ایک ٹویٹ پر صحافی پرشانت کنوجیا کو اتر پردیش کی پولیس نے دلی آ کر گرفتار کر لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس صحافی کو فوراً آزاد کر دیا اور کہا کہ اتر پردیش سرکار کی یہ کارروائی شہریوں کے بنیادی حقوق کی حکم عدولی یا خلاف ورزی ہے۔ کیا کیا تھا ایسا کنوجیا نے جس کے سبب اسے گرفتار کر لیا گیا تھا؟ اس نے کسی خاتون کے اس ویڈیو کو ٹویٹ کر دیا تھا‘ جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے یوگی کو شادی کرنے کی پیش کش بھیجی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت میں کسی سنیاسی کو شادی کی پیشکش کرنا بالکل غلط بات ہے‘ لیکن یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ ہمارے کئی مشہورِ عالم سنیاسیوں اور کیتھولک پادریوں کو بھی اس طرح کی پیشکشیں ہوتی رہی ہیں۔ اگر کسی عورت نے ایسی پیشکش رکھ بھی دی ہے تو اس کا بُرا ماننے کی بجائے یوگی اسے یہ کہہ سکتے تھے کہ بہن جی‘ یہ نا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس عورت نے لا علمی کے سبب یا پیار میں آ کر یا جان بوجھ کر بدمعاشی کرتے ہوئے یہ پیشکش کی ہو۔ ہر حالت میں اسے فضا میں اڑا دیا جانا چاہیے تھا اور کسی بھی طور اسے سیریس نہیں لینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور پھر اس پیشکش کو دوبارہ ٹویٹ کرنے والے صحافی کو جیل بھجوانا تو یہ پیشکش کرنے والی خاتون سے بھی زیادہ نا سمجھی کا عمل ہے۔ ایسی پیشکش کئی بار مجھے اپنے برہمچاریہ کے دور میں بھی ملی تھی۔ اندور‘ نیو یارک اور ماسکو میں اب سے لگ بھگ پچاس یا پچپن برس پہلے جب ایسی پیشکش آتی تھی تو اسے چھوئے بنا ہی میں ردی کی ٹوکری کے حوالے کر دیتا تھا۔ ایک سنیاسی کو ایسی پیشکش پر برا محسوس ہونا فطری امر ہے‘ لیکن وہ ایک پارٹی کا لیڈر اور صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی ہے۔ غصے میں آ کر ایک صحافی کو گرفتار کرنا تو اپنی شان کو چھوٹا کرنے کے مترادف ہے۔ زندگی میں ایسے پل اور ایسے لمحے آتے رہتے ہیں‘ جب غصہ کرنے کی بجائے ہنس کر خاموش ہو جانا چاہیے‘ یہی بہتر ہوتا ہے۔ یہی حالات کا تقاضا بھی ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں پدماوتی فلم پر میری تحریر میں غصہ ہو کر کئی لوگوں نے مجھ پر سخت حملے کیے اور نامناسب جملے کسے۔ کسی نوجوان نے مجھے لکھا کہ بڈھے تو سؤر ہے۔ میں نے اسے لکھا کہ تم نے مجھے کتنا خوبصور ت تحفہ دیا ہے۔ میں سؤر ہوں اور تُو میرا بچہ ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اس کی بولتی بند ہو گئی۔ چنانچہ اگر یوگی بھی خاموش رہتے تو ان کی اتنی جنگ ہنسائی نہ ہوتی جو اب ہو رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں