گزشتہ دنوں کچھ سماج وادی ساتھیوں نے دہلی میں دو دن کا سماج وادی اجتماع منعقد کیا تھا‘ ملک بھر سے تقریباً 150-200 ایسے سماج وادی جمع ہوئے تھے‘ جو ملک کی موجودہ سیاسی حالت کو لے کر فکر مند ہیں اور کچھ پہل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ دوسرے دن کے سیشن میں شری رما شنکر سنگھ اور جناب سنیلم نے مجھے ایک خصوصی مقرر کے طور پر بہت ہی عزت اور احترام کے ساتھ مدعو کیا تھا۔ میں جب بولنے کے لیے کھڑا ہوا تو ایک صاحب کھڑے ہو کر زور زور سے چلانے لگے کہ آپ آر ایس ایس کے آدمی ہیں‘ آپ یہاں کیوں بول رہے ہیں؟ ان صاحب کو شاید یہ پتہ نہیں کہ اپنے والد صاحب کے ساتھ بھی‘ جو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا جی کے ساتھی تھے‘ میں نے کئی بار احتجاج‘ جلسہ اور سٹیج شیئر کیا تھا۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ پانچ‘ چھ سال پہلے میں نے نریندر مودی کا نام وزیر اعظم کے عہدے کے لئے کیوں پیش کیا تھا‘ اور پورے ملک میں گھوم گھوم کر ان کے لئے حمایت کیوں مانگی تھی؟ ان کو یہ پتہ نہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کا میں نے جتنی سختی سے جائزہ لیا‘ کسی مخالف پارٹی لیڈر نے بھی اتنی جرأت نہیں کی ہو گی‘ لیکن میں نہ تو کسی پارٹی اور نہ ہی کسی لیڈر کا اندھا بھگت ہوں‘ میں تو اصولوں اور خیالات پر قربان جاتا ہوں‘ اگر مودی اچھے کام کریں تو میں ان کی پُر زور حمایت کیوں نہیں کروں گا؟
اب سے 62 سال پہلے میں نے ہندی تحریک میں جیل کاٹی تھی‘ اس کے بعد میں نے کئی تحریکیں اندور اور دہلی میں چلائیں۔ کئی بار جیل گیا۔ میرے ساتھ جیل گئے لڑکے آگے جا کر ریاستوں اور مرکز میں وزیر‘ وزیر اعلیٰ ‘ ایم پی اور رکنِ اسمبلی بنے۔ ان میں سے ایک دو کل کے پروگرام میں بھی موجود تھے۔ اب سے تقریباً 60 سال پہلے میں نے اندور کے عیسائی کالج میں ڈاکٹر لوہیا کی تقریر کروانے کا خطرہ مول لیا تھا۔ انہوں نے مجھے ''انگریزی ہٹاؤ تحریک‘‘ کا بیڑا اٹھانے کی ترغیب دی تھی۔ میں نے 1977ء میں ناگپور میں اور 1998ء میں اندور میں ''انگریزی ہٹاؤ کانفرنس‘‘ منعقد کی تھی‘ جن میں راجا نارائن‘ جارج فرنینڈس‘ جنیشور مشر‘ کرپوری ٹھاکر کے علاوہ بی جے پی کے کئی وزرائے اعلیٰ اور ملک بھر کے ہزاروں سماج وادی‘ جن سنگھی‘ کانگریسی اور کمیونسٹ کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔ میں نے ہمیشہ پارٹی بازی سے اوپر اٹھ کر کام کیا ہے کیونکہ میرا مقصد وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بننا کبھی نہیں رہا۔ اسی لئے میں کبھی کسی پارٹی کا رکن نہیں بنا اور میں نے کبھی الیکشن نہیں لڑا۔ میرا راستہ تو بچپن سے وہی ہے جو مہرشی دیانند‘ مہاتما گاندھی‘ ڈاکٹر لوہیا اور جے پرکاش کا رہا ہے۔ تو جب مئی 1966ء میں میرے پی ایچ ڈی کے مقالے کے ہندی میں لکھے جانے کی وجہ سے پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ ہوا تو میری حمایت مدراس کی ڈی ایم کے پارٹی کے علاوہ تمام پارٹیوں نے کی تھی۔ اندرا گاندھی‘ ڈاکٹر لوہیا‘ آچاریہ کرپالانی‘ مدھو لمے‘ بھاگوت جھا آزاد‘ ہیرین مکھرجی‘ ہیم بروا‘ اٹل بہاری واجپائی‘ دین دیال اپادھیائے‘ گرو گولوالکر‘ چندر شیکھر راجا نارائن‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ دنکر جی‘ بچن جی سب نے کی۔ میں ڈی ایم کے لیڈر اننادرائی جی سے بھی ملا۔ ڈاکٹر لوہیا نے ہی میری حمایت کا بیڑا اٹھایا تھا۔ جب وزیر تعلیم چھاگلا جی نے مجھ پر حملہ کیا تو لوہیا جی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا '' سلام کرو‘ اس لڑکے کو‘‘۔ میری ڈاکٹر لوہیا سے ان کی رہائش گاہ (7 گردوارہ رکاب گنج) پر روز ملاقات ہوتی تھی۔ ان کے انتقال سے پہلے جب وہ ولنگڈن ہسپتال میں داخل ہوئے تو میں انہیں بنگالی مارکیٹ کا رس گلا کھلانے لے گیا تھا‘ جہاں مدھیہ پردیش کے وزیر عارف بیگ‘ رما مترا اور ارملیش جھا (ڈاکٹر لوہیا کے سیکرٹری) بھی موجود تھے۔ آج کے بزرگ یا نوجوان اگر مجھ پر کسی پارٹی یا تنظیم کا لیبل لگانا چاہیں تو یہ ان کی نادانی ہے۔ یہ میرے نادان بھائی مجھے تو کیا‘ جے پرکاش نارائن جی کو بھی برا بھلا کہتے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے ایمرجنسی کے خلاف آر ایس ایس کا تعاون لیا تھا۔ میں یہ مانتا ہوں کہ آج بھارت قیادت سے مکمل طور پر تہی دامن ہو چکا ہے‘ لیکن میرے خیال میں ایسی صورت حال میں ہمیں قیادت کے بجائے ایسا قومی محاذ کھڑا کرنا چاہئے‘ جس میں لوگ پارٹیوں‘ قوموں‘ فرقوں سے اوپر اٹھ کر ملک کی خدمت کریں‘ عوامی بیداری پیدا کریں۔
اقتدار سچ ہے‘ سیاست غلط!
اس ہفتے کرناٹک اور گوا میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس نے سارے ملک کو ویدانتی بنا دیا ہے۔ ویدانت کا مشہور مفہوم ہے ''برہم ستیہ جگنی متھیا‘‘ یعنی برہم ہی سچ ہے‘ یہ دنیا تو غلط ہے۔ دوسرے الفاظ میں اقتدار ہی سچ ہے‘ سیاست غلط ہے۔ اقتدار ہی حقیقت ہے‘ باقی سب خواب ہے۔ سیاست‘ نظریہ‘ اصول‘ روایت‘ اخلاص سب کچھ غلط ہے۔ کرناٹک اور گوا کے کانگریسی ارکانِ اسمبلی نے اپنی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیوں کیا ہے؟ کیا اپنی مرکزی یا صوبائی قیادت سے ان کو کوئی اختلاف تھا؟ کیا وہ موجودہ حکومتوں سے کوئی بہتر حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں؟ کیا ان پارٹیوں نے کوئی بڑی بدعنوانی کی ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے‘ جو ہے‘ سو ایک ہی بات ہے کہ ان ارکانِ اسمبلی پر وزیر بننے کا بھوت سوار ہو گیا ہے‘ تم نے ہمیں وزیر کیوں نہیں بنایا؟ اب ہم تمہیں اقتدار میں نہیں رہنے دیں گے‘ ہم وزیر بنیں یا نہ بنیں‘ تمہیں تو ہم اقتدار میں بالکل نہیں رہنے دیں گے‘ ہمیں انعام ملے یا نہ ملے‘ تمہیں ہم سزا ضرور دلوائیں گے۔ یہ تو کہانی ہوئی کرناٹک کی اور گوا کے 10 کانگریس ارکانِ اسمبلی کی جو بی جے پی میں اس وجہ سے شامل ہو گئے کہ ان میں سے دو تین کو تو وزارت مل ہی جائے گی‘ باقی ارکانِ اسمبلی حکمران پارٹی کے رکن ہونے کی وجہ سے بہت سے فائدے حاصل کرتے رہیں گے۔ ''دَل بدل قانون‘‘ ان کے خلاف نافذ نہیں ہو گا‘ کیونکہ ان کی تعداد دو تہائی سے زیادہ ہے‘ 14 میں سے 10 ارکانِ اسمبلی پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ یہ تو ہوئی کانگریسی ارکانِ اسمبلی کی لیلا‘ لیکن ذرا بی جے پی کا بھی رویہ دیکھئے! کرناٹک میں اسے اپنی حکومت بنانا ہے‘ کیونکہ پارلیمنٹ کی 28 میں سے 25 سیٹیں جیت کر اس نے اپنا پرچم لہرایا ہے۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ ملک بھر میں اس کی شبیہہ کیا بنے گی۔ الزام ہے کہ ہر استعفیٰ دہندہ ممبر اسمبلی کو 40 کروڑ سے 100 کروڑ روپے تک دئیے گئے ہیں۔ یہ الزام بے بنیاد ہو سکتا ہے لیکن استعفیٰ دینے والے رکن اسمبلی آخر اتنی بڑی قربانی کیوں دے رہے ہیں؟ ان پر تو 'دل بدل قانون‘ نافذ ہو گا‘ کیونکہ ان کی تعداد ایک چوتھائی بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کہیں کے نہیں رہیں گے‘ دوبارہ انتخاب لڑنے پر ان کی جیت کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ان سارے احوال میں سب سے زیادہ دلچسپ رویہ کرناٹک کی کانگریس اور جنتا دل کا ہے۔ وہ ان ارکانِ اسمبلی کا استعفیٰ ہی قبول نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے باوجود اسمبلی سپیکر جیسی قلابازیاں دکھا رہے ہیں‘ اس سے ان کا یہ عہدہ ہی مذاق کا موضوع بن گیا ہے۔ کرناٹک اور گوا نے ہندوستانی سیاست کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ہے۔ اب پارلیمنٹ کو ایک نیا ''دل بدل قانون‘‘ بنانا ہو گا‘ وہ یہ کہ اب کسی بھی پارٹی کے ممبر اسمبلی اور ایم پی‘ ان کی تعداد چاہے جتنی بھی ہو‘ اگر وہ پارٹی بدلیںگے تو انہیں استعفیٰ دینا ہو گا۔ پارٹیوں کو بھی اپنا اندرونی قانون بنانا چاہئے کہ جو بھی رکن پارلیمنٹ یا قانون ساز پارٹی بدل کر نئی پارٹی میں جانا چاہے‘ اسے دوسری پارٹی میں شامل ہونے کے لئے کم از کم ایک سال انتظار کرنا پڑے گا۔
میں یہ مانتا ہوں کہ آج بھارت قیادت سے مکمل طور پر تہی دامن ہو چکا ہے‘ لیکن میرے خیال میں ایسی صورت حال میں ہمیں قیادت کے بجائے ایسا قومی محاذ کھڑا کرنا چاہئے‘ جس میں لوگ پارٹیوں‘ قوموں‘ فرقوں سے اوپر اٹھ کر ملک کی خدمت کریں‘ عوامی بیداری پیدا کریں۔