ہم سمجھ رہے تھے کہ کرناٹک کے ناٹک کا اختتام ہو گیا ہے اور اب یہ معاملہ مزید آگے نہیں بڑھے گا۔ ودھان سبھا میں اعتماد کا ووٹ گرا اور وزیر اعلیٰ ڈی کمار سوامی نے استعفیٰ دے دیا۔ اس طرح ملک بھر کے عوام نے چین کی سانس لی کہ یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا‘ لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ اٹھارہ دن سے چل رہے اس ناٹک کا یہ اختتام آخری یا حتمی نہیں ہے‘ بلکہ اس کی یہ شروعات ہیں۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ یہ کسی کو پتا نہیں تھا کہ کانگریس پلس جے ڈی (ایس) (جنتا دَل سیکولر) سے اتحاد کی یہ سرکار گرنے والی ہے۔ اسے بچانا‘ پہلے ہی دن سے قریب قریب نا ممکن لگ رہا تھا‘ پھر بھی اس کو بچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اب جن تیرہ ایم ایل ایز نے استعفے دیے ہیں‘ ان کی قسمت تو بیچ میں لٹکی ہوئی ہے۔ یہ بھی پتا نہیں کہ صرف چھ کی اکثریت سے بننے والی بھاجپا سرکار کتنے دن چلے گی؟ اس میں شک نہیں کہ چودہ مہینے پہلے ودھان سبھا چنائو میں بھاجپا سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی‘ لیکن اسے واضح اکثریت نہ ملنے کے سبب کانگریس اور جے ڈی کے اتحاد سے سرکار قائم ہو گئی تھی۔ پہلے دن سے ہی اتحاد کے اس دودھ میں مکھیاں تیرنے لگی تھیں اور اب جب لوک سبھا کے چنائو ہوئے تو اس اتحاد کا راستہ صاف ہو گیا۔ کانگریس اور جے ڈی کے جن ایم ایل ایز نے پارٹی بدلی ہے‘ وہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے ان کے حلقہ کی ان دیکھی کی ہے‘ اس لیے وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ودھان سبھا کو بتایا ہے کہ کس ایم ایل اے کو ترقی کے نام پر کتنے سو کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔ ادھر کانگریس الزام لگا رہی ہے کہ ان ایم ایل ایز کو بھاجپا نے چالیس کروڑ سے سو کروڑ تک فی کس دیے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کرناٹک میں بد عنوانی کی حد ہو گئی ہے۔ کرناٹک میں پہلے ان پارٹیوں سے ہاتھ میں ہاتھ ملا کر سرکار بنائی‘ جو چنائو میں ایک دوسرے پر گالیوں کی برسات کر رہے تھے اور اب بھاجپا کی جو نئی سرکار بن رہی ہے‘ وہ ان لوگوں کے سہارے بن رہی ہے جو بھاجپا اور مودی کو پانی پی پی کر کوستے رہے ہیں۔ ایسی حالت میں جبکہ سبھی پارٹیوں نے اصولوں کو طاق پر رکھ دیا ہے‘ آپ کس کو درست کہیں گے اور کس کو غلط؟ گووا میں جو ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ پیسوں اور عہدوں کی خاطر کون لیڈر اور کون پارٹی کب جھک جائے‘ کچھ نہیںکہہ سکتے۔ اقتدار کی خاطر کانگریس کب بھاجپا بن جائے گی‘ اور بھاجپا کب کانگریس بن جائے گی‘ کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے بھرت ہری نے ہزار برس پہلے سیاست کو طوائف کہا تھا۔ شاید ٹھیک ہی کہا تھا۔ اور اگر بھارت کی سیاست کی بات کی جائے تو کچھ زیادہ ہی ٹھیک کہا تھا۔
قانون بنانے میں جلد بازی کیوں؟
بھاجپا سرکار مبارک باد کی حق دار ہے کہ اس نے انگریز کے بنائے ہوئے گھسے پٹے قوانین کو مسترد کرنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بھاجپا سرکار نے گزشتہ سو ڈیڑھ سو برس پہلے کے قریب قریب ڈیڑھ ہزار قوانین کو ردی کی ٹوکری کے حوالے کر دیا۔ نئی پارلیمنٹ کے اس پہلے سیشن میں ایسے 58 قوانین کو سدھارا گیا یا رد کیا گیا ہے۔ اب بھارت کی صوبائی سرکاریں بھی ایسے لگ بھگ 225 قوانین کے خلاف کارروائی کریں گی۔ نئی پارلیمنٹ کے اس پہلے سیشن میں دوسری اچھی بات یہ ہوئی کہ تیس دن میں بیس قانون پاس ہو گئے اور تیسری بات یہ ہوئی کہ لوک سبھا صدر اوم برلا کو اپوزیشن نے بھی مناسب احترام دیا۔ ایوان کی کارروائی بہت اچھے ڈھنگ سے چلتی رہی لیکن دھیان دینے لائق بات یہ ہے کہ اہم بلوںکو کیا اتنی جلد بازی میں پاس کر دیا جانا چاہیے یعنی ضروری سوچ بچار‘ غور و فکر اور گہرائی تک تجزئیے کے بغیر ہی؟ اگر اپوزیشن کے ممبر آف پارلیمنٹ انہیں الگ الگ کمیٹیوں کے غور کرنے کی درخواست کر رہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ کمیٹیوں میں ان بلوں کی چیر پھاڑ بہت ہی اچھے سے کی جاتی ہے اور گہرائی تک جائزہ لیا جاتا ہے۔ بل کے درست یا غلط ہونے کو آنکا جاتا ہے۔ ماہرین سے رائے لی جاتی ہے۔ وہاں اپنی رائے ظاہر کرتے وقت رکن پارلیمنٹ کو اخباروں میں چھپنے کی ہوس نہیں ہوتی اور ٹی وی چینلوں پر دکھائے جانے کا لالچ بھی نہیں رہتا۔ اس میں شک نہیں کہ اس عمل سے گزرتے تو تیس دن میں بیس تو کیا‘ شاید پانچ‘ سات قانون ہی پاس ہوتے لیکن اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سبھی ایم پی ایز کو تسلی ہوتی ہے اور ان قوانین میں خامیوں کی گنجائش کم از کم رہتی ہے۔ اقتداری پارٹی کے پاس واضح اکثریت ہے‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حزب اختلاف کی پروا ہی نہ کی جائے۔ اپوزیشن کے تجربہ کار اور لائق ارکان ایوان کی رائے کا فائدہ لینے سے اقتداری اپنے آپ کو محروم کیوں کرے؟ یہ ٹھیک ہے کہ تین طلاق جیسے بلوں پر گزشتہ بھارتی پارلیمنٹ کی کمیٹیوں نے غور کر لیا تھا‘ انہیں پھر سے زیر غور لانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اطلاع کے حق کے قانون میں جو ترمیم کی گئی ہے‘ وہ بچگانہ موضوع ہے۔ اگر انفارمیشن افسروں کا تنخواہ اور کام سرکار پر دار و مدار ہو گیا تو ان کی خود مختاری کا کیا ہو گا؟ انہیں تو ججز کی طرح آزاد رکھا جانا چاہیے۔ ابھی اس قانون پر راجیہ سبھا میں مہر لگنی ہے۔ توقع ہے کہ راجیہ سبھا کے بزرگ اور تجربہ کار ممبر آف پارلیمنٹ ان بلوں کو کافی سوچ سمجھ کر پاس کریں گے۔ اپوزیشن سے بھی یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ فضول کے اڑنگے لگانے کی بجائے ایسے ٹھوس سجھائو دے کہ سرکار اسے خوشی سے ماننے کے لیے تیار ہو جائے۔
ملاوٹ کرنے والوں کو موت کی سزا دیں!
میں گزشتہ دنوں اندور میں تھا تو وہاں کے اخبارات میں ایک خبر بڑے زوروں سے چھپی کہ بھنڈمرینا میں سنتھیٹک دودھ کے کئی کارخانوں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ راجستھان اور اتر پردیش کے ہمسایہ صوبوں کی سرحدوں پر بھی نقلی دودھ کی یہ فیکٹریاں دھڑلے سے چل رہی ہیں۔ اس ملاوٹی دودھ کے ساتھ ساتھ گھی‘ مکھن‘ پنیر اور کھوئے میں بھی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ دلی‘ الور جیسے شہروں سے بھی اس طرح کی خبریں آتی رہی ہیں۔ یہ ملاوٹ صرف دودھ میں نہیں ہوتی پھلوں کو چمکدار بنانے کے لئے ان پر رنگ روغن چڑھایا جاتا ہے اور سبزیوں کو وزن دار بنانے کے لیے انہیں طرح طرح کی ادویات کے ٹیکے بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ ملاوٹ جان لیوا ہوتی ہے۔ دودھ میں پانی ملانے کی بات ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں لیکن آج کل ملاوٹ کے لئے زہریلی گیسز کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ملک میں لاکھوں لوگ بنا سبب ہی بیمار پڑ جاتے ہیں اور کئی مر بھی جاتے ہیں۔ لیکن سرکار نے ان ملاوٹیوں کے لیے جو سزا رکھی ہے‘ اس کے بارے میں جان کر ہنسی آتی ہے اور افسوس ہوتا ہے۔ ابھی کتنے ہی خطرناک ملاوٹی کو پکڑا جائے‘ اسے زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی سزا اور ایک لاکھ جرمانہ ہوتا ہے۔ وہ ملاوٹ کر کے لاکھوں روپے روز کماتا ہے اور تین ماہ تک وہ سرکاری خرچے پر جیل میں موج کرتا ہے۔ واہ ری سزا اور واہ ری سرکار! کون ڈرے گا‘ اس طرح کے جرم کرنے سے؟ مودی سرکار کو چاہیے تھا کہ ملاوٹ کے خلاف وہ بل پارلیمنٹ کی پہلی بیٹھک میں ہی لاتی اور کیسا بل لاتی؟ ایسا کہ اس کی خبر پڑھتے ہی ملاوٹیوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ ملاوٹ کرنے والوں کو کم از کم دس برس کی سزا ہونی چاہیے اور ان سے دس لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا جانا چاہیے۔ خطرناک ملاوٹ کرنے والوں کو عمر قید اور پھانسی کی سزا تو دی ہی جانی چاہیے‘ سارے ملک میں اس کا ایک ساتھ پرچار بھی ہونا چاہیے۔ ان کے سارے کارخانے اور ان کی ساری ملکیت ضبط ہونی چاہیے۔ ملاوٹ کرنے والے ملازمین کے لیے بھی سزا ہونی چاہیے۔ ملاوٹ کو روکنے کا ذمہ وزارتِ صحت کا ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن تھوڑی ہمت دکھائیں تو ہر رکن پارلیمنٹ‘ وہ چاہے کسی بھی پارٹی کا ہو‘ ان کے اس سخت بل کا خیر مقدم کرے گا۔ یہ اس بھارتی سرکار کا سبھی کے لیے مفید اور تاریخی فیصلہ ہو گا۔