بہار میں مظفر پور کے ایک جج نے ایک وکیل کی ایف آئی آر پر حکم صادر کیا ہے کہ پولیس ان 49 فنکاروں اور دانشوروں سے پوچھ تاچھ کرے‘ جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر ان کا دھیان بھیڑ کے تشدد (موب لنچنگ) اور فرقہ وارانہ تنائو کی طرف مبذول کرایا ہے۔ بھارتی عدالت کا یہ فیصلہ ایک دم عجیب ہے۔ وزیر اعظم کو خط لکھ کر ملک کی کسی بھی کیفیت کی طرف دھیان دینے کی درخواست کرنا کون سا گناہ ہے؟ اس کو وطن سے غداری قرار دینا تو صریحاً مذاق ہے۔ جو قانون اس طرح کے کاموں کو گناہ مانتا ہے‘ اس قانون کو بے جھجک کوڑے کی ٹوکری کے حوالے کیا جانا چاہیے۔ اگر اس طرح کے خطوط یا بیانات وطن سے غداری ہیں یا ان سے بغاوت پھیلنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو پھر کیا سارے بھارتی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر بھی مقدمے چلیں گے اور ان پر بھی پابندی کی مانگ کی جائے گی؟ ملک میں جب جب گائے کے محافظوں نے لوگوں پر حملے کیے ہیں اور قتل کیے ہیں‘ صحافیوں اور دانشور لوگوں نے ڈٹ کر ایسے واقعات کی مذمت کی ہے۔ خود نریندر مودی نے بھی کی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ مظفر پور کے ان جج صاحب نے اس معاملے کو اس لائق سمجھا کہ ان عاقل لوگوں اور فنکاروں پر مقدمہ چلا دیا جائے۔ ایک طرف بھارتی عدالت اور اس وکیل کا یہ ظلم ہے اور دوسری طرف ہمارے پیارے نوجواں لیڈر شری راہول گاندھی ہیں۔ راہول اوٹ پٹانگ بات کہنے کا موقع کبھی ضائع نہیں جانے دیتے۔ اس مدعہ پر انہوں نے اپنی ہوشیاری پھر دکھلا دی۔ انہوں نے بیان دے دیا ہے کہ ملک میں تانا شاہی پھیل رہی ہے‘ مودی پر کوئی ذرا سی بھی تنقید کرے‘ اسے جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے۔ کیا وہ اور ان کی والدہ روز مودی کی آرتی اتار نہیں رہے ہیں؟ وہ روز ان کی مناسب نا مناسب آرتی اتارتے رہتے ہیں۔ ساڑھے پانچ برس میں وہ کتنی بار جیل گئے ہیں؟ ملک میں میرے جیسے کئی صحافی اور عالم لوگ ہیں‘ جو کھری کھری لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ کیا کسی کی ہمت ہے کہ کوئی انہیں فون پر بھی دھمکا سکے؟ ہاں‘ یہ ٹھیک ہے کہ مودی اور امیت شاہ کے آگے سنگھ کے لیڈر اور بھاجپا کے وزرا اور وزرائے اعلیٰ کی گھگی بندھی رہتی ہے‘ لیکن یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ 1971ء کے بعد اندرا جی کی سرکار میں ہوتا تھا۔ لیکن آج ملک میں ایمرجنسی جیسا ماحول نہ تو ہے اور نہ ہی لایا جا سکتا ہے۔ کانگریس کا یہ الزام ٹھیک ہے کہ ملک کی اکانومی مشکل کا شکار ہوتی جا رہی ہے لیکن اندرا جی کو کیا روپے کی قیمت اور بینکوں کو سرکاری نہیں بنانا پڑا تھا۔ گوڈسے اور گاندھی کی بحث چلا کر آج کانگریس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ کانگریس کے لیے یہ وقت اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہے۔ سونیا گاندھی فیملی کی تانا شاہی سے کانگریس کو نجات دلانے کا ہے۔ کانگریس میں نئی جان پھونکنے کا ہے۔
شیخ حسینہ کادورہ
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا اس بار جیسا دورۂ بھارت رہا‘ ویسا سبھی پڑوسی ممالک کے وزرائے اعظم کا ہوتا رہے تو جنوبی ایشیا کا یہ محروم علاقہ اگلے دس برس میں یورپ سے بھی آگے نکل سکتا ہے۔ ایسا اس لیے ہو سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں قدرتی معدنیات یورپ سے کہیں زیادہ ہیں اور اس خطے میں واقع ممالک کی آدم شماری کی تعداد اس (یورپ) سے کئی گنا زیادہ اور جوان ہے۔ دو معاملے ایسے ہیں جن پر مودی اور حسینہ میں تکرار ہو سکتی تھی۔ ایک بنگالی مداخلت کار اور دوسرا روہنگیا پناہ گیروںکو لے کر! لیکن دونوں نازک مسئلوں پر شیخ حسینہ کا رویہ بہت متوازن رہا۔ بنگالی مداخلت کاروں کو لے کر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی جتنا شور مچا رہی ہیں‘ اس کے خلاف حسینہ نے بھارت سرکار کی کارروائی پر کوئی نا پسندیدہ بات نہیں کہی۔ اسی طرح روہنگیا پناہ گیروں کو پھر سے بسانے میں بھارت جو مدد کر رہا ہے‘ اس پر حسینہ نے 'شکریہ‘ کہا ہے۔ اس کے علاوہ حسینہ کے اس دورۂ بھارت کے دوران دونوں ملکوں کے بیچ ایسے کئی معاہدے ہوئے ہیں‘ جن سے دونوں ملکوں کے بیچ زمینی فاصلے کم ہوں گے‘ ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری ہوں گی اور دونوں ممالک کی تجارت میں اضافہ ہو گا۔ بنگلہ دیش کے سمندری سرحد پر بھارت بیس راڈار لگائے گا‘ جو اس کی سرحدوں کی نگرانی کریں گے۔ سیشلس‘ مالدیپ اور برما کے سرحدی علاقوں کی نگرانی کے لیے بھارت نے جو انتظامات کیے ہیں‘ ویسے ہی اب بنگلہ دیش کے لیے ہوں گے تاکہ جو دہشت گردی 2008ء میں ممبئی میں ہوئی تھی‘ ویسی قطعی دہرائی نہ جائے۔ اب بنگلہ دیش بھارت کو نیچرل گیس سپلائی کرے گا‘ جس سے اس کو ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر کی انکم ہر برس ہو گی۔ اس کے علاوہ گیس لانے کا راستہ اب سترہ سو کلومیٹر سے کم ہو کر دو سو کلومیٹر رہ جائے گا۔ دونوں ملک اب ایسی ریل اور سڑک کا بندوبست کرنے کے معاملے پر بھی غور کر رہے ہیں‘ جس سے بھارت کے لئے اپنی شمال اور مشرقی حدود تک پہنچنے کے راستے کافی چھوٹے ہو جائیں۔ بنگلہ دیش سے ہو کر جانے والے یہ راستے بھارت کے اپنے صوبوں کے فاصلوں کو کافی کم کر دیں گے۔ یہ عمل وسطی ایشیا کے ملکوں کو حوصلہ دے گا کہ وہ افغانستان اور پاکستان کو متاثر کریں کہ یہ دونوں ملک بھارت اور وسطی ایشیا کے فاصلوں کو کم کر دیں اور اس سے بے شمار فائدہ بھی اٹھائیں۔
افغانستان میں امن کے قیام کی کوششیں
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ایک امریکی پروگرام میں بولتے ہوئے کہہ دیا کہ افغان سرکار اور طالبان کے بارے میں بھارت کو کچھ نہیں بولنا چاہیے۔ پتا نہیں‘ انہوں نے وہاں ایسا کیوں کہہ دیا؟ شاید وہ امریکی سرکار کا لحاظ کرتے ہوئے دکھائی پڑنا چاہتے ہوں گے‘ کیونکہ صدر ٹرمپ نے غصے میں آ کر اچانک طالبان سے اپنی بات چیت کا سلسلہ توڑ لیا تھا۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ افغانستان میں امریکہ کی دلچسپی ہے‘ لیکن بھارت نے بھی مخصوص مقاصد کے تحت وہاں تعمیراتی کاموں میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ لیں کہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام رہے تاکہ وہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ صنعت‘ تجارت کے شعبوں میں تعلقات بڑھا سکے۔ اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا۔ کشمیر اور پختونستان کے معاملات اپنے آپ سدھریں گے۔ یہ تجزیہ میں اپنے پچپن برس کے تجربے کی بنیاد پر پیش کر رہا ہوں۔ پاکستان اور افغانستان کے لگ بھگ سبھی وزرائے اعظم سے میری گفتگو ہوتی رہی ہے۔ افغانستان کے کئی مجاہدین اور طالبان لیڈر میرے ساتھ کابل یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے۔ جب 1999ء میں ہمارا ہوائی جہاز اغوا کر کے قندھار لے جایا گیا تھا‘ تب پی ایم اٹل جی کے کہنے پر میں نے نیو یارک اور لندن میں بیٹھے بیٹھے طالبان لیڈروں سے سیدھی بات کی تھی۔ میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ طالبان افغانستان میں اگر اقتدار میں آ گئے تو وہ کسی کا بھی دخل برداشت نہیں کریں گے۔ حال ہی میں ٹرمپ کے خلیل زاد اور طالبان سربراہ عبدالغنی برادر اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملے ہیں۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ اپنا ٹوٹا تار پھر سے جوڑ لے گا۔ افغانستان کے موجودہ صدر اور وزیر اعظم‘ دونوں میرے پرانے دوست ہیں۔ ابھی ابھی انہوں نے چنائو بھی لڑا ہے۔ اگر کابل سرکار‘ طالبان اور امریکہ‘ تینوں کو ایک جگہ پر بٹھایا جا سکے تو جلد دوسرے ممالک بھی اس کوشش میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ کام پاکستان کر سکتا ہے اور وہ اس حوالے سے مخلص کوششوں میں مصروف ہے۔