"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت میں نئے وزیر اعظم کی دستک

دلی کے چنائو میں بھاجپا کی بد ترین شکست ملک میں نئی سیاست کی شروعات کر سکتی ہے۔ مجھے 2013ء گجرات کے ودھان سبھا چنائو کی یاد آ رہی ہے جب اُس کے چنائو نتائج کا اعلان ہو رہا تھا تو مجھے انٹرنیشنل سینٹر میں پانچ چھ ٹی وی چینلوں نے گھیر لیا۔ وہ پوچھنے لگے کہ مودی کی پانچ دس سیٹیں کم ہو رہی ہیں‘ پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ گجرات کا یہ وزیر اعلیٰ اب وزیر اعظم کے دروازے پر دستک دے گا؟ یہی بات آج میں اروند کیجری وال کے بارے میں کہوں گا‘ ایسا میرا دل کہتا ہے۔ عآپ (عام آدمی پارٹی) کو گزشتہ چنائو کے مقابلے اس چنائو میں پانچ چھ سیٹیں کم ملیں تو بھی اس کو واضح اکثریت ہے۔ یہ واضح اکثریت 70 میں سے 60 سیٹوں سے بھی زیادہ ہے جبکہ بھاجپا اور کانگریس نے دلی میں اس چنائو میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی‘ اپنا پورا زور لگا رکھا تھا۔ کانگریس اور بھاجپا کے لیڈروں نے چنائو پرچار کے دوران اپنی سطح جتنی نیچی گرائی‘ اتنی میں نے 65 یا 70 برس میں گرتے نہیں دیکھی۔ کیجری وال اور منیش سسودیا کو میں داد دوں گا کہ انہوں نے اپنا لیول اونچا ہی رکھا‘ اپنی شان کو گرنے نہیں دیا۔ بھاجپا نے اپنے وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو لے کر سینکڑوں ایم ایل ایز اور ارکانِ پارلیمنٹ کو جھونک دیا۔ دلی کے عوام کے آگے دو روپے کلو آٹے تک کے لالی پاپ اس نے لٹکائے‘ لیکن دلی کے لوگ ہیں کہ پھسلے ہی نہیں۔ بھاجپا یہیں تک نہیں رکی‘ اس نے شاہین باغ کو اپنا رتھ بنا لیا‘ اس نے خود کو پاکستان کی کھونٹی پر لٹکا دیا۔ اس نے کیجری وال کو ہندو مسلم فرقے میں پھنسانے کی بھی پوری کوشش کی‘ لیکن گُرو گڑ رہ گئے اور چیلا چینی بن گیا۔ کرم کی سیاست نے دھرم کی سیاست کو محروم کر دیا۔ کیجری وال اس ہندو مسلم فرق کے حربے سے بھی بچ نکلے۔ اب وہ تیسری بار دلی کے وزیر اعلیٰ بن جائیں گے‘ لیکن اگلے عام چنائو میں وہ چاہیں تو اپنی وارانسی کی شکست کا حساب مودی سے چکتا کر سکتے ہیں۔ اس دلی کے چنائو کو ویسا پرچار اخبارات اور چینلوں میں ملا ہے جیسا کسی بھی صوبائی چنائو کو نہیں ملا کرتا۔ یہ لگ بھگ قومی چنائو بن گیا تھا۔ قومی پارٹی کانگریس کو اس چنائو نے دری کے نیچے سرکا دیا ہے۔ کیجری وال کے فعل اور قول میں بھی اب نو سکھیا پن نہیں رہا۔ اب ایک ذمہ دار لیڈر کی سنجیدگی ان میں دکھائی پڑ رہی ہے۔ وہ اپنے شروعاتی ساتھیوں کو پھر سے اپنے ساتھ جوڑیں‘ قومی مدعوں پر افسروں‘ دانشوروں اور ماہرین کی رائے لیں اور اپنی بہتر شان بنائے رکھیں تو وہ ملک کی نا اُمیدی کو کم کر سکتے ہیں اور اکانومی کو گرنے سے بچا سکتے ہیں۔ دلی میں جو ہوتا ہے‘ اسے پورا بھارت دیکھتا ہے۔ 
گورنر کے ساتھ بد اخلاقی
کیرل کے گورنر عارف محمد خان کے برتائو میں آئینی اصول اور خود اعتمادی کا عجیب ملاپ ہوا ہے۔ گورنر کے ناتے انہوں نے ودھان سبھا میں وہی بھاشن پڑھ دیا جو وزیر اعلیٰ نے انہیں لکھ کر بھجوایا تھا‘ لیکن انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اسے پڑھ تو رہے ہیں‘ لیکن اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ کیا بات ہے جس سے وہ متفق نہیں ہیں؟ وہ ہے شہریت بل اور شہریت رجسٹریشن کی مخالفت! کیرل کی کمیونسٹ سرکار اور اپوزیشن میں بیٹھی کانگریس نے اس قانون کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ کیرل ودھان سبھا نے اس قانون کے خلاف قرارداد تو پاس کی ہی ہے اور سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے‘ مگر اس مقدمہ کی اجازت گورنر سے تو کیا لی جاتی‘ صوبائی سرکار نے اسے اطلاع تک نہیں دی۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف کانگریس کے اجلاس میں بھی بد اخلاقی کی گئی۔ کیرل کے گورنر ہائوس کے سامنے کئی مظاہرے کیے گئے‘ لیکن گورنر نے ان کی شکایت کرنے کی بجائے انہیں چائے پر مدعوکر کے بات کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ عارف خان عام سیاست دان نہیں ہیں‘ وہ نہایت ہی مفکر‘ مضبوط اور جرأت مند سیاست دان ہیں۔ شاہ بانو کے معاملہ میں انہوں نے تاریخ بنائی ہے۔ وہ کئی بار مرکز میں وزیر رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ ان کے تاثرات سے اتفاق ہی رکھیں‘ لیکن ان میں یہ ہمت ہے کہ وہ اپنے خیال کو کھل کر ظاہر کرتے ہیں اور ان پر کھلی بحث کو تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے نئے شہریت بل کے حق میں جتنے حقیقی دلائل پیش کیے ہیں‘ اتنے بھاجپا کو کوئی بھی لیڈر پیش نہیں کر پایا ہے۔ شاید اسی سے خفا ہو کر کیرل کی کانگریس کے ایک لیڈر نے دعویٰ کیا کہ وہ ودھان سبھا میں قرارداد پاس کروائیں گے کہ اس گورنر کو کیرل سے ہٹایا جائے‘ لیکن اب ظاہر ہے کہ کیرل سرکار اس قرارداد کی حمایت کسی حالت میں نہیں کرے گی۔ گورنر عارف خان نے اس سرکار کی بات رکھ لی۔ اب کیرل سرکار بھی اس کا پورا احترام رکھے گی۔ کسی بھی گورنر یا اس کی صوبائی سرکار میں لگاتار دنگل چلتے رہنا ٹھیک نہیں ہے‘ لیکن مغربی بنگال کا حال تو بہت برُا ہے۔ وہاں کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ کے ساتھ مغربی بنگال کی سرکار اور ترن مول کانگریس جس طرح کا برتائو کر رہی ہے‘ کیا اسے زیب دیتا ہے؟ کولکتہ یونیورسٹی کے سیمینار میں دھن کھڑ کو سٹیج تک جانے نہیں دیا گیا اور کیرل کے ایم ایل ایز نے عارف خان کے ساتھ زور زبردستی کرنے کی کوشش کی‘ کیا اس غیر اخلاقی برتائو کو سارا ملک نہیں دیکھ رہا ہے؟ گورنرز اور صوبائی سرکاروں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے نظریہ پر قائم تو رہیں لیکن آئین کی حکم عدولی نہ کریں۔
ڈنر شام کو چھ بجے تک 
امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے کے ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شام کو چھ بجے کے بعد لوگوں کو کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ انہوں نے کئی تجربے کیے اور پایا کہ شام کو چھ بجے کے بعد ہاضمہ اچھے سے کام کرنا بند کر دیتا ہے‘ پیٹ میں ہاضمہ دار رس کم پیدا ہوتا ہے‘ آنتیں سکڑنے لگتی ہیں اور ہارمون انسولین کا اثر بھی کم ہو جاتا ہے۔ اگر ہم رات کو دیر سے کھانا کھائیں اور ناشتہ جلدی کریں تو آنتوں کے سیلز کو مرمت کا وقت ہی نہیں مل پاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ قلب کے امراض اور ذیابیطس کے شکار ہو جاتے ہیں۔ پتا نہیں امریکی تحقیقی ادارے کے اس سبق کو کتنے لوگ قبول کریں گے؟ کیونکہ آج کل ساری دنیا میں ایک ہی ڈھرا چل پڑا ہے‘ صبح آٹھ نو بجے بریک فاسٹ‘ ایک بجے لنچ اور آٹھ یا دس بجے ڈنر۔ انگریزوں کی نقل پر اب لوگوں نے اپنے کھانے کے اوقات کو بدل لیا ہے۔ آپ کسی کو ڈنر پر بلائیں اور اسے پانچ چھ بجے کا ٹائم دیں تو وہ آپ پر ہنسے گا‘ لیکن میں آپ کو بتائوں کہ اب سے ساٹھ ستر برس پہلے تک بھارت میں ناشتے کا وقت صبح چھ سے آٹھ بجے تک‘ لنچ کا دس سے بارہ بجے تک اور ڈنر کا شام کو پانچ سے چھ کے بیچ ہی ہوا کرتا تھا۔ کئی جین خاندانوں میں تو ابھی تک یہی سسٹم چلتا ہے۔ میں بیس برس کی عمر تک اندور میں رہا‘ وہاں شادیوں کے پانچ پانچ ہزار لوگوں کے کھانے کا وقت شام کو پانچ بجے سے شروع ہو کر سات بجے تک ختم ہو جاتا تھا۔ وقت کے اس ڈسپلن کے ساتھ ساتھ آپ اگر کھانے کا ڈوز مناسب رکھیں اور نہ کھانے والی چیزوں کو نہ کھائیں تو آپ کے بیمار ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔ میں اب 76 برس کا ہوں‘ لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی بیمار پڑا ہوں۔ اب بھی مجھے دس بارہ گھنٹے روز بیٹھ کر لکھنا پڑھنا پڑتا ہے‘ اسی لیے معمولی شوگر ہے‘ لیکن اسے بھی کھانے کا وقت بدل کر ٹھیک کر لوں گا۔ ہمارے ملک کے کروڑوں لوگ روز کھانا وقت پر اور یوگ کریں تو ادویات کا خرچ کم ہو‘ لوگ پیداوار زیادہ کریں اور دن رات خوش رہیں۔ کتابوں نے ٹھیک ہی کہا ہے جسم ہی صفت کا پہلا ذریعہ ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں