آج کل ہندوستان میں شری لال جی ٹنڈن جیسے کتنے لیڈر ہیں ؟ وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی میں اپنی چھوٹی عمر سے ہی ہیں لیکن کون سی پارٹی ہے جس میں ان کے دوست ‘ ساتھی اور مداح نہیں ہیں؟ کانگریس ‘ سماجوادی ‘ بہوجن سماج پارٹی ‘ ہر پارٹی میںٹنڈن جی کے مداح موجودہیں۔ ٹنڈن جی سنگھ ‘ جن سنگھ اور بی جے پی سے کبھی ایک لمحہ بھی الگ نہیں رہے۔ اگر وہ موقع پرست ہوتے تو ہر پارٹی ان کا استقبال کرتی۔اگر وہ عہدے کے خواہش مند ہوتے تواب تک اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہوتے۔ وہ ‘ ایم ایل اے ‘ ایم پی ‘ وزیربنے اوراب مدھیہ پردیش کے گورنر ہیں۔ جو بھی مقام یا موقع انہیں ملا‘ اسے شائستگی سے قبول کیا۔ اترپردیش کی سیاست ذات پات کیلئے کافی بدنام ہے‘ یہاں کے ہر بڑے لیڈر ذات پات کی بانسری بجاکر ہی اپنی سیاسی دکان جماپاتے ہیں‘ لیکن ٹنڈن جی ہیں کہ ان کی سیاست فرقہ واریت اور ذات پات کی حدود کو توڑ کر ان سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ہردلعزیز رہنما رہے ہیں۔ بہت سال پہلے ٹنڈن جی سے اٹل جی کے گھر میری ملاقات ہوجایاکرتی تھی۔ اسے ملاقات کہیں یا صرف چمتکار‘لیکن ان سے اصل ملاقات کچھ مہینے پہلے بھوپال میں ہوئی تھی جب میں صحافت کے ایک پروگرام میں لیکچر دینے گیا تھا۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ ملاقات ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہی۔ نہ وہ تھکے اور نہ ہی میں تھکا۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ میری 65، 70سال کی عوامی زندگی میں ‘ میں نے کسی چیئرپرسن یا ہندوستانی رہنما کے ساتھ اتنی طویل ملاقات کی ہو۔ٹنڈن جی کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ بھاجپا کے ایک کٹر ممبر کی حیثیت سے جن سنگھ اور ان کے حریف رہنمائوں کے بھی ہردلعزیز تھے۔کس پارٹی اورلیڈروں سے ان کے تعلقات نہیں رہے ؟ آپ اگر ان کی کتاب ''اسمرتی ناد ‘‘ پڑھیں توآپ کو قابلِ فخر شخصیت ٹنڈن کی خوبیاں معلوم ہوجائیں گی ‘اس میں ہندوستان کی عصری تاریخ کی ایسی دلچسپ حقائق کی تہیں آپ کے سامنے کھلیں گی کہ آپ دانتوں کے نیچے انگلی دبالیں گے۔ 284 صفحات پر مشتمل یہ کتاب شائع ہوچکی ہے لیکن ابھی تک ریلیز نہیں کی گئی ہے۔ ٹنڈن جی نے مجھے اس کتاب کادیباچہ لکھنے کاموقع دیا۔ اس کتاب میں انہوں نے 40سے45 رہنماؤں ‘ ادیبوں ‘ سماجی کارکنوں اور بیوروکریٹس وغیرہ پر اپنی یادداشتیں لکھی ہیں۔ یہ یادداشت کیا ہیں ‘ وہ لوگ جو معاصر تاریخ پر تحقیق کرتے ہیں ان کیلئے بنیادی ماخذ ہیں۔ انہوں نے خواہش کی تھی کہ کتاب دہلی ‘ بھوپال اور لکھنٔومیں بھی ریلیزکی جائے۔
پائلٹ کیلئے جہازمیں کوئی جگہ نہیں
راجستھان ہائی کورٹ کا فیصلہ کانگریس کے باغی رہنما سچن پائلٹ کے حق میں یا اس کے خلاف آئے گا؟ یا ہوسکتا ہے کہ عدالت سارا معاملہ سپیکر پر چھوڑ دے؟ بہرحال ‘ سچن پائلٹ کا راجستھان کی کانگریس میں رہنا اب قریب قریب ناممکن ہے۔ وہ کانگریس کے ریاستی صدر ‘ نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر کے عہدے پر پہنچے‘لیکن اب وہ ایک عام قانون ساز ہیں۔ اگر عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے دیتی ہے تو سپیکر انہیں قانون ساز اسمبلی کا رکن نہیں رہنے دیں گے۔ سچن اور ان کے ساتھیوں کو اینٹی ڈیفیکشن قانون کے کھمبے پر لٹکا دیا جائے گا۔ پارٹی کی رکنیت بھی ختم ہوجائے گی۔ اگر عدالت سچن کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو سپیکر شاید اپنا نوٹس واپس لے لیں گے۔ پھر آگے کیا ہوگا ؟ اسمبلی کا اجلاس آگے ہوگا! سچن دھڑا ابھی بھی کانگریس کا ممبر سمجھا جائے گا۔ اگر چیف منسٹر اشوک گہلوت اپنی حکومت میں اعتماد کی تحریک لائیں تو سچن دھڑا کیا کرے گا ؟ اگر وہ اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو وہ اپنی ناک کاٹ لے گا اور اگر وہ حزبِ اختلاف کو ووٹ دیتا ہے تو ‘ اینٹی ڈیفیکشن قانون کے تحت پورا دھڑا اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوجائے گا۔اسی لئے عدالت میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس وقت ‘ راجستھان کی کانگریس بھی سچن دھڑے کو بالکل بھی برداشت نہیں کرے گی۔ گہلوت ‘ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سچن کیلئے تلخ کلامی کرتے ہیں ‘ پھر بھی اگر سچن دھڑاراجستھان کانگریس میں رہتاہے تو ان کی عزت ایک کوڑی کی نہیں رہے گی۔ ایسی صورتحال میں سچن دھڑے کیلئے اپنی کھال بچانے کا کیا طریقہ ہے ؟ ایک طریقہ یہ ہے کہ پورا گروہ اور اس کے سینکڑوں ہزاروں کارکن نئی پارٹی بنانے کیلئے کانگریس سے استعفیٰ دیں۔ دوسری بات ‘ سچن کے حامیوں کو اسمبلی میں رہنا چاہئے اور گہلوت بھگتی میں شامل ہوجانا چاہئے ‘ لیکن سچن خود اسمبلی سے استعفیٰ دیں اور راجستھان کی سیاست چھوڑ دیں اور دہلی آئیں۔ کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کیلئے پوری کوشش کریں۔ راجستھان میں ‘ سچن نے جو نقصان پہنچا یا‘ اس کا بھی معاوضہ ادا کریں اور اپنی سیاست کو زندہ رکھیں۔ اب راجستھان کے جہاز میں پائلٹ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
پیسوں پرایمان بیچتے نیتا
راجستھان کے سیاسی ہنگامے نے اب ایک دلچسپ تفریحی موڑلے لیا ہے۔ کانگریس مطالبہ کررہی ہے کہ بی جے پی کے مرکزی وزیر کو گرفتار کیا جائے ‘ جو کانگریس کے ایم ایل اے کو رشوت دے کرگمراہ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس وزیر کی گفتگو کے ٹیپ عام کردیئے گئے ہیں۔ ایک دلال یا ثالث بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ اسمبلی سپیکرنے سچن پائلٹ اور ان کے ساتھی ارکان اسمبلی کو معزول کرنے کیلئے نوٹس جاری کیا ہے ‘ جس پر ہائیکورٹ میں بحث ہورہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ عدالت کیا فیصلہ دے گی ‘ لیکن کرناٹک کے عدالت کے فیصلہ پرغورکریں تویہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ راجستھان اسمبلی میں سچن گروپ کے 19ممبران کوہائی کورٹ برخاست کر دے۔ حالانکہ سچن کا دعویٰ ہے کہ وہ اور ان کے ممبران ابھی بھی کانگریس میں موجود ہیں اور انہوں نے پارٹی وہپ کی خلاف ورزی نہیں کی ہے ‘ کیونکہ ایسا تب ہوتا ہے جب اسمبلی چل رہی ہو۔ اگر آپ وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر مقننہ بورڈ کے اجلاس میں حصہ نہیں لیتے ہیں تو آپ کس طرح ایک وہپ کو نافذ کرسکتے ہیں ؟ اسی بنا پر ‘ سچن دھڑے کو دیئے گئے سپیکر کے نوٹس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ کانگریس کے وکلا کا استدلال ہے کہ اینٹی ڈیفیکشن قانون کے مطابق سپیکر کا فیصلہ اس معاملے میں سب سے حتمی ہے۔ فی الحال سپیکر نے باغی ایم ایل اے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں عدالت کو کوئی رائے دینے کا کیا حق ہے ؟ مزید برآں ‘ جیسا کہ کرناٹک کے معاملے میں فیصلہ کیا گیا تھا ‘ اس کے ممبران اسمبلی نے باقاعدہ استعفیٰ نہیں دیا لیکن ان کے رویے سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ حکمران جماعت کے ساتھ نہیں ہیں ‘ یعنی انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اگر یہ دلیل جے پور میں بھی شروع ہوئی تو سچن پائلٹ دھڑا نہ تو یہاں ہوگا اور نہ ہی وہاں! اگر عدالت کا فیصلہ پائلٹ کے حق میں آتا ہے تو راجستھان کی سیاست کچھ بھی پلٹاکھا سکتی ہے۔تاہم ‘ راجستھان کی سیاست نے ان دنوں ایک انتہائی شرمناک اور افسوسناک شکل اختیار کی ہے۔ کروڑوں روپے لے کرقانون ساز اپنی وفاداری داو ٔ پر لگا رہے ہیں۔ وہ پیسوں پر اپنا ایمان بیچ رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ قائد کہلانے کے مستحق ہیں ؟ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔یہ جو الزام لگ رہے ہیں کہ بی جے پی جیسی قوم پرست اور آئیڈیل ازم پر مبنی پارٹی رشوت کھلارہی ہے‘ اگر یہ الزامات سچ ہیں تو بی جے پی کے ایسے کسی بھی لیڈر کو ‘ فورا ًباہر نکال دینا چاہئے اور راجستھان کے عوام سے معافی مانگنا چاہئے۔