تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ای کے پلانی سوامی نے بھارت کی نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف جھنڈا لہرا دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ تامل ناڈو کے طلبا پر ہندی نہیں تھوپی جائے گی‘ وہ صرف تامل اور انگریزی ہی پڑھیں گے۔ ان کے بیان کی کانگریس سمیت تمام تامل جماعتوں نے حمایت کی ہے۔ تامل ناڈو میں صرف بی جے پی پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ وہ خاموش ہے۔ ہندوستانی حکومت کو بھی اس کی مخالفت کیوں کرنی چاہئے؟ وہ بھی خاموش رہے تو اچھا ہے۔ 1965-66 میں مرکزی حکومت نے تامل پارٹی ڈی ایم کے‘ کے اسی طرز عمل کی مخالفت کی تھی، تب تامل ناڈو میں ہندی مخالف تحریک چل پڑی تھی۔ سی ایم انادورائی نے مرکز کی سہ لسانی پالیسی کے خلاف اور دو لسانی پالیسی کے حق میں ودھان سبھا میں متفقہ قرارداد پاس کرائی تھی۔ اب پلانی سوامی کو کوئی تحریک منظور کرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ تعلیمی پالیسی میں ریاستوں کو پہلے ہی اجازت دی گئی ہے کہ وہ زبان کے لحاظ سے جو ٹھیک لگے وہ کریں۔ اگر وزیر تعلیم، ڈاکٹر نشانک اس مسئلے پر کوئی تنازع کھڑا کرتے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ اب انہیں وہ کرنا چاہئے، جو میں 1965ء سے کہتا آ رہا ہوں۔ جب 1965-66 میں، میری پی ایچ ڈی کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھا تھا، تب اس وقت انادورائی راجیہ سبھا کے ممبر تھے۔ ان کے سارے ممبروں نے پارلیمنٹ میں میرے خلاف اتنا شور مچایا کہ اس سیشن کی کارروائی رک گئی تھی، لیکن جب میں انادورائی جی سے ملا اور انہیں سمجھایا کہ میں خود ہی ہندی مسلط کرنے کے مخالف ہوں تو پھر دراویڈا منیترا کھڑگام کی مخالفت ختم ہو گئی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں صرف انگریزی عائد کرنے کے مخالف ہوں۔ اگر حکومتِ ہند نے اس نئی تعلیمی پالیسی کے ساتھ، سرکاری بھرتیوں اور اعلیٰ ترین سرکاری کاموں میں انگریزی ہٹانے کا اعلان کیا ہوتا تو سارا معاملہ حل ہو جاتا۔ تامل ناڈو کے لوگ جو پورے ہندوستان کی سطح پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، انہیں خود سوچنا چاہئے کہ انہیں ہندی سیکھنا چاہئے یا نہیں؟ میں نے ایم پی اور یو پی میں بہت سارے تامل افسروں کو اتنی روانی سے خالص ہندی بولتے ہوئے سنا ہے کہ ہندی بولنے والے بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہوں گے۔ ہندی مسلط کیے بغیر سب کو آ جائے گی، لہٰذا حکومت کو فوری طور پر سرکاری بھرتی اور کام میں انگریزی ہٹانے کا فرمان جاری کرنا چاہئے‘ لیکن میں یہ بھی اپنے طالب علموں سے چاہتا ہوں کہ نہ صرف انگریزی بلکہ کئی غیرملکی زبانیں بھی انہیں سیکھنا چاہئیں‘ اس لئے کہ یہ غیر ملکی تجارت، خارجہ پالیسی اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لئے ضروری ہے۔
بھارت کسی ایک گروپ میں کیوں شامل ہو؟
امریکہ نے اب چین کے خلاف ایک طرح سے سرد جنگ شروع کر دی ہے۔ ہیوسٹن کا چینی قونصل خانہ بند ہے۔ چینگڈو میں امریکی سفارت خانے کو بند کرکے چین نے اینٹ کا جواب پتھرسے دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو چین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے تازہ بیان میں انہوں نے دنیا کے تمام جمہوری ممالک سے چین کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ امریکہ کو ہندوستان سے سب سے زیادہ امید ہے، کیونکہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور وادیٔ گلوان کے واقعہ نے ہندوستان کو پریشان کر دیا ہے۔ نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں، یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ہندوستان ایشیا، افریقہ جبکہ لاطینی امریکہ تیسری دنیا کے ممالک کا قائد ہے۔ ان دنوں ہندوستان نہ تو امریکی اتحاد میں شامل ہوا اور نہ ہی سوویت اتحاد میں۔ یہ یا تو غیر متعلق رہا یا غیر منسلک رہا۔ ہندوستان کو پھر بھی کسی ایک گروپ میں کیوں شامل ہونا چاہئے؟ ٹرمپ نے نیٹو کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں پہلے کی طرح کوئی دھڑا سرگرم نہیں ہے، لیکن امریکہ اور چین اس قدر ضدی ہیں کہ اب ٹرمپ انتظامیہ چین کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور ایشیاء کے کچھ ممالک کو چین کے خلاف اکسایا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بھارت بھی اپنا جھنڈا اٹھائے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس وقت ہندوستان کو متاثر کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ اس نے ہندوستانیوں کے ویزے کے معاملے کو حل کر دیا ہے، ہندوستانی طلباء پر عائد ویزے کی پابندی کو واپس لے لیا ہے، وہ ہندوستان کے ساتھ تجارتی مراعات کیلئے بھی راضی ہے۔ امریکہ کا تازہ ترین ہتھیار‘ جس کی وہ ہندوستان کیلئے کوشش کر رہا ہے۔ گلوان تنازع میں امریکہ نے چین کے خلاف اور بھارت کی حمایت میں جیسا دوٹوک رویہ اپنایا ہے، کسی ملک نے نہیں اپنایا۔ وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں 30-40 لاکھ ہندوستانیوں کے تھوک ووٹوں پر بھی نظر جمائے ہوئے ہے۔ امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر تجارت اور دیگر عہدیدار اپنے ہندوستانی ہم منصبوں سے مستقل بات چیت کر رہے ہیں۔ ہندوستان بھی پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس مکالمے میں مصروف ہے۔ بھارت کی پالیسی بہت عملی ہے۔ اس نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی اتحاد میں شامل ہونے کے خلاف ہے۔ اگر ہمیں چین کو پریشان کرنے میں امریکہ کی مدد مل جاتی ہے تو بھارت اسے خوشی خوشی کیوں قبول نہیں کرے گا۔ ہندوستان کو سرد یا گرم جنگ میں شامل ہونے کے بجائے چین کے ایک مضبوط حریف کے طور پر سامنے آنا چاہئے۔
بھارت میں حقیقی جمہوریت کیسے لائیں؟
گزشتہ دنوں میرے ایک مضمون پر رد عمل کی برسات ہو گئی۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ بھارت کو حقیقی جمہوریت کیسے بنائیں؟ کچھ مشورہ دیجئے۔ سب سے پہلے ملک کی سبھی پارٹیوں میں داخلی جمہوریت ہو‘ یعنی کسی بھی عہدے پر کسی بھی لیڈر کا بغیر انتخاب کے تقرر نہ کیا جائے۔ پارٹی صدر اور سبھی عہدیداروں کا براہ راست انتخاب ہو، خفیہ ووٹنگ کے ذریعے۔ دوسرا‘کسی کو بھی کارپوریشن، اسمبلی یا پارلیمنٹ کا امیدوار نامزد کرنے سے پہلے یہ ضروری ہو کہ وہ پارٹی ممبر پہلے اپنی پارٹی کے داخلی انتخاب میں اکثریت حاصل کرے۔ لیڈروں کے ذریعے نامزدگی پوری طرح سے بند ہو۔ تیسرا‘ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ پارٹی صدر، جنرل سکرٹری اور سکرٹریوں کو دو مرتبہ سے زیادہ مسلسل اپنے عہدے پر نہ رہنے دیا جائے۔ چوتھا‘ پارٹی کی انکم اور خرچ کا پورا حساب ہر سال منظرعام پر لایا جائے۔ ہماری پارٹیوں کو رشوت اور دلالی کے پیسوں سے پرہیز کرنا سکھایا جائے۔ پانچواں‘ جرائم پیشہ کو انتخابی امیدوار بنانا تو دور کی بات ہے، ایسے ملزموں کو پارٹی کی رکنیت بھی نہ دی جائے اور اگر پہلے دی گئی ہو تو وہ چھین لی جائے۔ چھٹا‘ ایسا قانون بنے کہ کوئی بھی پارٹی تبدیل کرنے والا اگلے پانچ سال تک نہ تو الیکشن لڑ سکے اور نہ ہی کسی سرکاری عہدے پر رہ سکے۔ ساتواں‘ جو بھی شخص کسی بھی پارٹی کا رکن بننا چاہے اس کے لئے کم سے کم ایک سال تک ذہن سازی لازمی ہو۔ وہ پارٹی کے تاریخ، لیڈروں کے زندگی، پارٹی اصول و ضوابط، پالیسیوں اور پروگراموں سے خوب واقف ہو جائے، اس کیلئے اسے باقاعدہ ایک امتحان پاس کرنا چاہئے۔ آٹھواں‘ تھوک ووٹ یا ووٹ بینک کی سیاست پر پابندی ہونی چاہئے۔ کسی بھی پارٹی کو ذات یا فرقے کی بنیاد پر سیاست نہیں کرنے دی جانی چاہئے۔ اگر اس ضابطے پر سختی سے عمل ہوتو ملک کی کئی سیاسی پارٹیوں کو اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑے گا۔ نواں‘ کسی بھی پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر ایک خاندان کا ایک ہی ممبر رہے، اس سے زیادہ نہیں۔ اس ضابطے کی وجہ سے ہماری سیاسی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بننے سے کافی حد تک بچ سکیں گے۔ دسواں‘ حکمران طبقہ بیدار رہے اور مخالف پارٹی تعمیری رول ادا کرے، اس کیلئے ضروری ہے کہ سبھی سیاسی پارٹی اپنے سبھی کارکنوں کیلئے تین روزہ یا پانچ روزہ ٹریننگ کیمپ لگائیں جن میں ان کے ساتھ نظریے، اصول اور پالیسیوں پر کھلی بحث ہو۔