ناگالینڈ کا مسئلہ ایک بار پھر پیچیدہ ہوگیا ہے۔ 2015ء میں‘ وزیراعظم نریندر مودی نے خود ناگا رہنمائوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا‘ وہ آج تنازع کا شکار ہو گیا ہے۔ ناگا باغیوں کی سب سے بڑی تنظیم نگالیم کی نیشنل سوشلسٹ کونسل کے رہنما ٹی موئیوا ان دنوں دہلی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں کہ انہیں دوبارہ ہندوستان کے خلاف ہتھیار اٹھانا پڑے گا۔ یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ ناگالینڈ کے موجودہ گورنر آر این روی اور موئیوا کے مابین تلواریں کھنچ گئی ہیں۔ روی حکومت ہند کے ایک افسر رہے ہیں اور وہ برسوں سے ناگا باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک کامیاب مذاکرات کار کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن پچھلے سال جولائی میں انہیں ناگالینڈ کا گورنر بنایا گیا تھا۔ جب سے وہ گورنر بنے ہیں‘ انہیں ناگا حکومت کی اندرونی حقیقتوں کا پتا چلنے لگا ہے۔ انہوں نے ناگالینڈکے وزیراعلیٰ این ریوکو بھی واضح طور پر اور صاف صاف کہ دیا ہے اور یومِ آزادی کی تقریر میں بھی کھل کر بات کی کہ ناگا ریاست انتشار اور بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مرکز سے آنے والی رقم ناگا لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کی جانی چاہئے‘ لیکن اس تک پہنچنے سے پہلے یہ ختم ہو جاتی ہے۔ ناگا تنظیم کا نام لئے بغیر، انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ناگا پردیش میں ''مسلح گروہ‘‘ متوازی حکومت چلا رہے ہیں۔ ادھر‘ ناگا تنظیم نے گورنر روی کے خلاف تلخ مہم شروع کر دی ہے۔ جب2015 ء میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، تب اس کا انکشاف نہیں کیا گیا تھا، لیکن موئیوا کا کہنا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد تب ہی ہوگا جب درج ذیل ان تینوں مطالبات پر عمل درآمد ہوگا۔٭آس پاس کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ناگا علاقوں کو جوڑ کر عظیم ناگالینڈ بنایا جائے۔٭ناگالینڈکا اپنا آئین ہو۔٭اس کا اپنا جھنڈا ہو۔
روی نے بحیثیت مذاکرات کار، ناگا رہنمائوں کو کچھ پیش رفت کے طور پر بھروسا دلایا ہے، لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران ان کے ناگا رہنمائوں سے بطور گورنر اختلافات پائے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح بات چیت کرنے والے کی غیر رسمی اور دوستانہ حیثیت اور گورنر کی باضابطہ حیثیت میں بہت فرق ہے۔ شخصی تال میل کے خراب ہونے سے ناگا لینڈ سمجھوتہ بھی متاثر ہو جائے‘ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر مرکزی حکومت چاہے تو وہ ناگا رہنمائوں کے ساتھ ایک نئی بات چیت کا آغاز کر سکتی ہے اور روی کو کسی دوسری ریاست میں بھی منتقل کر سکتی ہے۔
امریکہ میں کملا ہیریس
ڈیموکریٹک پارٹی آف امریکہ نے کملا ہیریس کو نائب صدارتی امیدوار قرار دیتے ہوئے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر بن جائیں گی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن ہیں‘ جو خود دو بار نائب صدر رہ چکے ہیں۔ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو وہ دوسری بار انتخاب نہیں لڑیں گے کیونکہ ان کی عمر 77 سال ہے ۔ یعنی یہ ناممکن نہیں ہے کہ 2024ء میں کملا ہیریس امریکہ کی پہلی صدر بھی بنیں۔ ان کی عمر صرف55 سال ہے ۔ کملا اس وقت امریکی سینیٹ کی ممبر ہیں۔ انہوں نے یہ نشست الیکشن لڑ کر جیتی ہے۔ اس سے پہلے وہ کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل تھیں۔ ان کی والدہ شیاملہ گوپالن ہمارے تامل ناڈو سے اور ان کے والد ڈونلڈ ہیرس جمیکا سے تھے۔ وہ ہندوستانی نژاد اور لاطینی امریکی اور افریقی نسل کی بھی ہیں۔ انہیں امریکہ میں سیاہ فام سمجھا جاتا ہے۔ وہ نہ سیاہ فام ہیں اور نہ ہی سفید فام۔ وہ گندمی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب گندم کا رنگ امریکہ کے سر پر چڑھ جائے گا۔ جارج فلائیڈ کے قتل عام پر اس نے اتنی آواز اٹھائی کہ امریکی عوام کے دلوں میں اس کی پہچان ایک بہادر عورت کی حیثیت سے درج ہو گئی۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے جو بائیڈن کی مخالفت کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ بائیڈن کے حریف ہونے کے باوجود‘ بائیڈن نے انہیں نائب صدر کا امیدوار بنایا ہے۔ انہیں یقینی طور پر ان کے انتخاب میں فائدہ ملے گا۔ بیرونِ ملک مقیم ہندوستانیوں کے پاس قریب 18 لاکھ ووٹ ہیں اور وہ ووٹوں سے کہیں زیادہ اثر انداز ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ میں ہندوستانیوں میں بھی مقبول رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف ان کا جھکائو یہاں بڑھ گیا ہے، لیکن کملا ہیرس اس اثر کو بائیڈن کی طرف موڑ سکیں گی۔ توقع کی جاتی ہے کہ جب وہ نائب صدر بنیں گی تو کملا ہیرس کا ہندوستان کے ساتھ انتہائی تعمیری رویہ ہوگا، لیکن وہ کشمیر اور شہریت ترمیمی ایکٹ جیسے معاملات پر ہندوستان سے واضح اختلاف رکھتی ہیں۔ وہ بے خوف اور نڈر خاتون ہیں۔ یہ ان کا پختہ اعتماد ہی ہے جس نے انہیں اس اعلیٰ مقام پر پہنچایا ہے۔ کملا کی وجہ سے، امریکہ کے ہندوستانی عوام میں ایک نیا شعور پیدا ہوگا۔ امریکی ثقافت میں ایک نئی جہت شامل کی جائے گی۔ کملا ہیرس کو نیک خواہشات!
بیٹیاں حقدارلیکن کئی مشکلیں
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ملک کی بیٹیوں کو اپنے والد کی املاک میں برابر کا حقدار بنا دیا ہے۔ عدالت کے پرانے فیصلوں کو بدل دیا گیا ہے، جس میں بہت سی بیٹیوں کو ان کے آبائی املاک میں شرطیہ حقوق دیے گئے تھے۔ متاکشرا نظام یا ہندو قانون میں، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جیسے ہی بیٹی کی شادی ہوئی‘ وہ پرائی ہو گئی۔ اس کا والدین کی جائیداد میں کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن اب آبائی املاک میں بیٹیوں کا حق بیٹوں کے برابر ہوگا۔ یہ فیصلہ مرد و عورت کی مساوات کا پیغام ہے۔ اس سے خواتین کی عزت اور سہولتوں کا تحفظ ہوگا۔ اس کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، لیکن اس تاریخی فیصلے سے بہت سے نئے سوالات کو بھی جنم ملے گا۔ مثال کے طور پر، والد کی جائیداد پر ان کے بچوں کے مساوی حقوق ہوں گے، لیکن کیا یہ اصول ماں کی جائیداد پر بھی لاگو ہوگا؟ آج کل بہت سارے لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی جائیداد اپنے نام کرنے کے بجائے اپنی بیوی کے نام پر رکھتے ہیں۔ کیا عدالت میں اس طرح کا نیا اصول ایسی جائیدادوں پر بھی لاگو ہوگا؟ کیا ساری بہنیں واقعی اپنے بھائیوں کو آبائی املاک کی نگرانی کی تاکید کریں گی؟ کیا وہ عدالتوں کی پناہ لیں گی؟ اگر ہاں! تو یقینی طور پر جان لیں کہ ہر سال ملک کی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات بڑھتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اگر بہنیں اپنے بھائیوں کو جائیداد بانٹنے کی ترغیب نہ بھی دیں تو بھی، ان کے شوہر اور ان کے بچے لالچ میں پھنس سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، عدالت کا یہ نیا فیصلہ خاندانی جھگڑوں کی سب سے بڑی جڑ بن سکتا ہے۔ کیا ہماری عدلیہ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ چھ چھ ماہ میں ان قانونی چارہ جوئی کو نپٹا سکے؟ ان معاملات کی وجہ سے، تین تین نسلیں گزر جائیں گی۔ بیٹیوں کے میکے کے ساتھ کوئی باضابطہ معاشی تعلقات نہیں رہے، شاید اسی وجہ سے جہیز کو رواج دیاگیا تھا۔ جہیز کا نظام اب بھی مضبوط ہے، لیکن اب راکھی کا کیا بنے گا؟ کیا کوئی بھائی قانونی چارہ جوئی کر نے والی بہن سے راکھی بندھوائے گا؟ بھائی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے باپ کی دولت سازی میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ اس میں کسی بہن یا بہنوئی کو مداخلت کیوں کرنی چاہئے؟ اس مسئلے کے توڑکے لئے یہ بھی کیا جائے گا کہ اپنے اثاثوں کو اپنے نام کرنے کے بجائے وہ پہلے دن سے ہی اپنے بیٹوں کے نام کرنا شروع کر دیں گے۔ وہ عدالت کو کہیں گے ''توڈال ڈال تو میں پات پات‘‘۔