"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت‘ روس تعلقات میں دراڑ

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے۔ انہوں نے کچھ ایسا کہا ہے جو روس کی بین الاقوامی کونسل برائے سیاست سے خطاب کرتے ہوئے ابھی تک کسی روسی رہنما یا سفارت کار یا سکالر نے نہیں کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا‘ چین اور روس کو محکوم بنانا چاہتا ہے‘ وہ پوری دنیا پر اپنی شان و شوکت قائم کرنا چاہتا ہے‘ وہ عالمی سیاست کو یک طرفہ بنانا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے اور اس نے ہندوستان‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور امریکا کا ایک اتحاد کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے بحر الکاہل کے خطے کا نام 'ہند بحر الکاہل‘ رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ ہندوستان اور چین کے مقابلوں کا سلسلہ بدستور جاری رہے۔ ان کی کوشش ہے کہ روس کے ساتھ ہندوستان کے روایتی دوستی کے تعلقات بھی تعطل کا شکار ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کی اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے روس کے ایس 400 میزائل کی ہندوستانی خرید کی مخالفت کرے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں چلتے چلتے بھارت کے ساتھ بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ(بیکا) کے نام سے ایک سٹریٹیجک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی کریں گے۔ اس حساس ڈیٹا کی مدد سے ہندوستان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ میزائلوں‘ ڈرونز اور دیگر اہداف کو درست اور بالکل ٹھیک ٹھیک انداز سے نشانہ بنے سکے گا۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر نے اس معاہدے کے لیے خصوصی طور پر بھارت کا دورہ کیا تھا۔بہرکیف روسی وزیر خارجہ کے مندرجہ بالا شبہات بے بنیاد نہیں ہیں۔ انہیں اس حقیقت سے بھی تقویت ملی ہے کہ اسرائیل‘ خلیجی ممالک‘ جو ریاست ہائے متحدہ کے کٹر حامی ہیں‘ آج کل بھارت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت کے آرمی چیف نے گزشتہ دنوں میں خلیجی ممالک کا دورہ بھی کیا تھا‘ لیکن کیا روسی وزیر خارجہ یہ بھول گئے کہ بھارت نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو کبھی ختم نہیں کیا۔ حال ہی میں‘ ہندوستان کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ ماسکو گئے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان براہِ راست بات چیت ہوئی تھی‘ تاہم یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت ہندوستان اور چین کے مابین تنائو ہے اور امریکا کسی حد تک اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
آسام کی سرکاری مدرسوں پرٹیڑھی نظر
آسام کے وزیر تعلیم ہمنتا وشوا شرما نے سرکاری مدرسوں کے خلاف جو کارروائی کی ہے وہ ترکی کے رہنما کمال پاشا اتا ترک کی طرح ہی ہے۔ انہوں نے اپنی کابینہ میں اعلان کیا ہے کہ نئے اجلاس سے آسام کے تمام سرکاری مدرسوں کو سرکاری سکولوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ریاست کا مدرسہ تعلیمی بورڈ اگلے سال سے تحلیل کر دیا جائے گا۔ یہ مدرسے اب صرف قرآن شریف‘ حدیث‘ اصول الفقہ‘ تفسیر حدیث اور دعا وغیرہ کی تعلیم نہیں دیں گے‘بلکہ یہاں عربی زبان کے طور پر پڑھائی جائے گی۔ سکول میں تبدیل ہونے والے چھوٹے اور بڑے مدرسوں کی تعداد بالترتیب 189 اور 542 ہے۔ حکومت ہر سال کروڑوں روپے جدید تعلیم پر خرچ کرے گی۔ بظاہر اس اقدام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب کے مخالف کوئی سازش ہے‘ لیکن حکومت کا ماننا ہے کہ حقیقت میں یہ سوچ صحیح نہیں ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلے‘ مدرسوں کے ساتھ‘ یہ حکومت سنسکرت کے 97 مراکز کو بھی بند کر رہی ہے۔ اب ان میں ثقافتی اور لسانی تعلیم دی جائے گی‘ مذہبی تعلیم نہیں۔ جب میں آج سے تقریباً 70 سال قبل سنسکرت کی کلاس میں جاتا تھا‘ تب مجھے کالی داس‘ بھاس اور بانی بھٹ پڑھایا جاتا تھا‘ وید‘ اپنشد اور گیتا نہیں! دوسری بات یہ کہ غیر سرکاری مدرسوں کو جو چاہیں‘ وہ پڑھانے کی اجازت ہو گی۔ تیسرا‘ ان مدرسوں اور سنسکرت مراکز میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی بے روزگاری اب کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ وہ جدید تعلیم کے ذریعے ملازمت اور عزت‘ دونوں حاصل کریں گے۔ چوتھا‘ آسام حکومت کے اس اقدام سے متاثر ہوکر‘ 18 ریاستوں کی مرکزی حکومت‘ جن کے مدرسوں کو کروڑوں روپے کی مدد ملتی ہے‘ کی شکل بھی بدل جائے گی۔ صرف 4 ریاستوں میں 10 ہزار مدرسے ہیں جن میں کم و بیش 20 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان پر پابندی لگانا غیر منصفانہ ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آسام حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے‘ اس کا پس منظر کیا ہے۔ آسام کے مدرسوں اور سنسکرت مراکز سے ایک بھی استاد کو برخاست نہیں کیا جائے گا۔ ان کی ملازمت برقرار رہے گی۔ اب وہ نئے اور جدید مضامین کی تعلیم دیں گے۔ آسام حکومت کا یہ ترقی پسند اقدام ملک کے غریب‘ ناخواندہ اور اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کے لئے ایک نیا وژن لے کر آ رہا ہے۔
پارلیمانی اجلاس سے کیوں ڈرتے ہیں؟
پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب صرف بجٹ سیشن ہوگا‘اگرچہ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ حزب اختلاف کے رہنمائوں کی رضا مندی کے بعد لیا ہے‘مگر پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد پٹیل کی یہ دلیل کچھ حد تک وزن دار ہے کہ پارلیمنٹ کے آخری اجلاس میں ممبرانِ پارلیمنٹ کی شرکت بہت کم تھی اور کچھ ارکانِ پارلیمنٹ اور وزرا کی کورونا کی وجہ سے موت بھی ہو گئی ہے۔ اب اگلا اجلاس بجٹ سیشن ہو گا جو چند ہی دنوں بعد‘ جنوری 2021ء سے شروع ہونے والا ہے۔ پٹیل نے کانگریس اور ترنمول کے کچھ ممبران کے اعتراضات پر بھی سوال کیا ہے کہ جو لیڈر بی جے پی پر جمہوری اقدار کی نافرمانی کا الزام لگاتے ہیں‘ وہ کم از کم اپنی پارٹیوں میں خاندانی آمریت کے خلاف جرأت کا مظاہرہ کر کے دکھائیں۔ ان دلائل کے باوجود حکومت اگر چاہتی تو سردیوں کے اجلاس کے لئے پارٹی کے تمام رہنمائوں کو راضی کر سکتی تھی۔ اگر وہ اس سیشن کا بائیکاٹ کرتے تو اس کی ناک کٹ جاتی۔ اگر پارلیمنٹ کا یہ اجلاس بلایا جاتا تو کچھ ایسے معاملات پر شدید بحث ہوتی جو حکومت اور پورے ملک کو حیرت میں ڈال دیتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس بحث میں اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ‘ صحیح یا غلط‘ حکومت کی ٹانگیں کھینچنے سے بازنہیں آتے‘ لیکن اس بحث میں کچھ تعمیری تجاویز‘ مستند شکایات اور کارآمد مشورے بھی سامنے آتے ہیں۔ اس وقت کورونا ویکسین کی ملک گیر تقسیم‘ اقتصادی فزیبلٹی‘ بے روزگاری‘ کسانوں کی تحریک‘ بھارت چین تنازع وغیرہ ایسے جلتے ہوئے سوالات ہیں جن پر کھلی بحث ہوتی۔ وہ لوگ‘ جو ہندوستان اور اس کی جمہوریت کے بارے میں فکر مند ہیں‘ وہ چاہیں گے کہ آئندہ ماہ ہونے والا بجٹ اجلاس تھوڑا طویل ہو اور اس میں ایک صحت مند مباحثہ ہونا چاہئے تاکہ ملک کے مسائل کا بروقت حل نکالا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں