"DVP" (space) message & send to 7575

نیپال میں بھارت کی بے بسی

نیپال بھارت کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے۔ وہاں زبردست ہنگامہ برپا ہے۔ ایوانِ نمائندگان (لوک سبھا) تحلیل ہوچکا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کا مضبوط بازو اور اولی کیمپ اقتدار کے لیے لڑرہا ہے‘ لیکن بھارت خاموش ہے اور اس کی بجائے چین اپنی بین بجا رہا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ بھارت ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھا ہوا ہے‘ ان کے کمانڈر اور سیکرٹری خارجہ نے کچھ دن پہلے ہی وزیر اعظم کے پی اولی سے ملاقات کی تھی۔ کھٹمنڈو میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور اولی کے بھارت مخالف مؤقف میں بھی کچھ نرمی آئی ہے۔ ہمارے سفیر بھی اولی سے ملنے کے بعد بھارت آئے اور حکومت کو اس صورتحال سے روشناس کرایا‘ لیکن یہاں یہ دیکھنااہم ہے کہ کٹھمنڈو میں چینی سفیر ہو یانکی کتنی کامیاب ہیں۔ وہ کئی بار پرچنڈا اور اولی سے مل چکی ہیں۔ دونوں فریقوں کے معمولی رہنما یانکی سے ملاقات کے لیے چینی سفارت خانے میں قطار میں لگے رہتے ہیں۔ یانکی کی ہزاروں کوششوں کے باوجود‘ اب جب نیپالی کمیونسٹ پارٹی میں دراڑپڑگئی ہے‘ چینی کمیونسٹ پارٹی کے نائب وزیر گو آ یاچا اب چار دن کے لیے کٹھمنڈو پہنچ گئے ہیں۔ وہ دونوں کیمپوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں گے‘ لیکن اب وہ تحلیل پارلیمنٹ کو کیسے واپس کرسکیں گے؟ کیا نیپال کی سپریم کورٹ اس کو دوبارہ زندہ کرسکے گی؟ اگر پارلیمنٹ ایک بار پھر زندہ ہوجائے گی تو دونوں کیمپوں کے مابین جھگڑا کیسے ختم ہوگا؟قابلِ ذکر ہے کہ چین نیپال کو تبت سے منسلک کرنے کے لیے ریل لائن بچھا رہا ہے۔ وہ ریشم مہاپتھ کے لیے ڈھائی ارب ڈالر دے رہاہے اور نیپال کو آٹھ کروڑ ڈالر کی فوجی امداد بھی دے گا۔ چینی اور نیپالی افواج گزشتہ دو تین سالوں سے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کر رہی ہیں۔ چین نیپال کو اپنی تین بندرگاہوں کو بھارت پر انحصار کم کرنے کے لیے استعمال کرنے میں بھی مدد فراہم کررہا ہے۔وہیں بھارتی حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔ ہماری حکومت اپنی افسر شاہی پر منحصر ہے‘ مگربیوروکریٹس اور سفارت کاروں کی اپنی حد ہوتی ہے۔ اگر وہ زیادہ متحرک ہوتے ہیں تو پھر اسے داخلی امور میں بیرونی مداخلت سمجھا جائے گا۔
چار خصوصی وزرائے اعظم
میرے دو بزرگ قریبی دوستوں کی وفات اور پیدائش کی تاریخ میں صرف دو دن کافاصلہ ہے۔ نرسمہا راو ٔ جی کاانتقال23 دسمبرکوہوا اور اٹل بہاری واجپائی جی کی پیدائش 25 دسمبر کوہوئی۔ ملک کے چار وزرائے اعظم جواہر لعل نہرو‘ اندرا گاندھی‘ نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپائی بے مثال اور منفردوزیراعظم رہے۔ ان کا کردار تاریخی تھا۔ اگر لال بہادر جی شاستری اور چندرشیکھر جی کو بھی پورے پانچ سال مل گئے ہوتے تو وہ بھی کسی سے کم ثابت نہیں ہوتے۔1721ء میں برطانیہ میں رابرٹ والپول کی تقرری سے وزارتِ عظمیٰ کا آغاز ہوا۔ لندن میں اب تک 55 وزرائے اعظم رہ چکے ہیں۔ لوگوں کو ان 55 میں سے کچھ کے نام یاد ہیں لیکن اب تک بھارت کے 15 وزرائے اعظم میں سے‘ مذکورہ بالا چار نام آنے والی کئی نسلوں کے لیے یاد رکھے جائیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان چاروں کے ذریعے نافذ کردہ تمام پالیسیاں یا تو درست تھیں یا وہ سب کامیاب ہو گئیں یا ان کے دور میں کوئی مہلک غلطیاں نہیں ہوئیں۔ لیکن چاروں وزرائے اعظم کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے بھارت کی صرف حال کی ہی نمائندگی نہیں کی‘بلکہ بھارت کا ماضی اور مستقبل کی پالیسیوں میں بھی ہمیشہ اس کاعکس جھلکتا ہے۔ ان کی کچھ کوتاہیوں کے باوجود‘ ان کی شخصیت اور پالیسیاں بھارت کی ترقی اوریکجہتی میں رواں دواں رہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے تھے‘ کرسی ان پر نہیں بیٹھی تھی۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔یہ چاروں وزرائے اعظم کسی ذات‘ فرقہ‘ مذہب‘ زبان یا طبقے کے نمائندے نہیں تھے۔ وہ پورے بھارت کے نمائندہ تھے۔ نہرو جی اور شاستری جی کے علاوہ‘ میں نے تمام وزرائے اعظم سے ذاتی رابطہ کیا ہے۔ اس بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایمرجنسی کے دو سال (1975-77ء) کے علاوہ باقی سالوں میں بھارتی جمہوریت ہمیشہ ترقی کرتی رہی۔ نہ صرف خارجی جمہوریت‘ بلکہ پارٹیوں کی داخلی جمہوریت بھی۔ پڑوسی ممالک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا رہا ہے‘ لیکن بھارت میں یہ ہمیشہ چمکتا رہا ہے۔ بھارتی سیاست میں بحث و مباحثہ‘ احتجاج اور مکالمہ کی جدلیات نے بھارت کو دنیا کی ایک بڑی جمہوریت بنا دیا۔ یہ جدلیاتی تنوع آج بھی باقی ہے۔ میرے پرانے دوستوں کی برسی کے موقع پر‘ میری خواہش ہے کہ یہ بڑھتا رہے۔
موتی لال وورا: بڑے آدمی
20 دسمبر کو کانگریسی لیڈر شری موتی لال وورا کی 93 ویں سالگرہ تھی اور 21 دسمبر کو ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ کبھی نہ صدر بنے اور نہ ہی وزیر اعظم‘ لیکن کیا بات ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے ان کے موت پر تعزیت کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی ملک یا کانگریس کا کوئی بڑا (اعلیٰ) عہدہ نہیں سنبھالا‘ لیکن وہ واقعی بڑے آدمی تھے۔ آج کل کی سیاست میں ان جیسے بڑے لوگ بہت کم ہیں۔ ووراجی جیسے لوگ دنیا کی کسی بھی صحت مند جمہوریت میں مثالی قائدین کی طرح ہیں۔ ان کی پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں میں بھی ان کا اتنا ہی احترام اور پیار تھا۔ وہ میونسپل کارپوریشن کونسلر رہے۔ وہ ایم پی کے وزیر مملکت اور دو بار وزیر اعلیٰ بنے‘ یوپی کے گورنراور چار بار راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ وہ 18سال تک کانگریس پارٹی کے خزانچی بھی رہے۔ درحقیقت‘ زیادہ تر رہنماؤں کی طرح ان کے پاس نہ تو اَنا تھی اور نہ ہی عہدے کا لالچ۔ جو کچھ ملا اسی میں وہ خوش تھے۔ یہی ان کی لمبی عمر اور مقبولیت کا راز ہے۔ ان سے میرا رشتہ پچھلے 60 سال سے برقرارتھا۔ وہ رائے پور اور میں اندور میں سرگرم تھا۔ میں کبھی کسی پارٹی میں نہیں رہا تھا لیکن وہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی مشترکہ سوشلسٹ پارٹی کے کارکن تھے۔ جب مجھے آل انڈیا انگلش ہٹاؤ کانفرنس کا سیکرٹری بنایا گیا تو میں نے ووراجی کو ایم پی کا انچارج بنایا۔ جب میں نے نوبھارت ٹائمز میں کام کرنا شروع کیا تو میں نے انہیں رائے پورمیں اپنا نمائندہ بنا دیا۔ وہ اس قدر شائستہ اور سادگی پسندتھے کہ جب بھی وہ مجھ سے ملنے آتے‘ وہ میرے کمرے کے باہر چپراسی کے سٹول پر ہی بیٹھ جاتے تھے۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے وہ بغیر بتائے میرے گھر آجاتے تھے۔ 1976ء میں‘ جب میں نے ہندی صحافت پر ایک مہاگرنتھ شائع کی تو انہوں نے آگے بڑھ کر سرگرم تعاون کیا۔ وزیر صحت کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ صحافیوں کے علاج میں تعاون کیا۔ وہ مجھ سے بہت بڑے تھے‘ لیکن گورنر بننے کے بعدبھی وہ میٹنگ میں مجھے باس سے خطاب کرتے تھے۔ وہ میرے نامہ نگار تھے اور میں ان کا ایڈیٹر تھا لیکن میں نے ہمیشہ ان کی خوبیوں کو کسی شاگرد یا چھوٹے بھائی کی طرح سمجھنے کی کوشش کی۔ ووراجی کو میرا دلی خراج عقیدت!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں