"DVP" (space) message & send to 7575

بھارتی لیڈروں کی انتہاپسندی

دہلی پولیس نے ملک میں بغاوت اور بدامنی کو بھڑکانے کے الزام میں تین افراد پر اپنی گرفت سخت کردی ہے۔ بنگلورو میں مقیم ایک سماجی کارکن دیشا روی کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور دہلی پولیس نکیتا جیکب اور شانتنو کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے مل کر سازشیں کیں اور بھارت میں جاری کسان تحریک کو اُکسایا اور 26 جنوری کے لال قلعے کے واقعہ کو ماحولیات کی سرگرم کارکن سویڈش لڑکی گریٹا تھنبرگ کے بھارت کے حوالے سے دیے گئے پیغام کے ساتھ پھیلاتے ہوئے لوگوں کو اُکسایا۔ پولیس نے تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ ان لوگوں نے کینیڈا کی تنظیم پوئٹک جسٹس فائونڈیشن کے اشتراک سے بھارت مخالف سازش کی۔ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے پولیس نے ان تینوں کے مابین فون پر گفتگو ، باہمی پیغامات اور بہت سی دستاویزات تلاش کی ہیں۔ اگر پولیس کے پاس ثبوت موجود ہیں تو پھر اس پر غور کیا جائے گا اور عدالت ان معاملات کا فیصلہ کرے گی اوراس میں کچھ وقت لگے گا‘ لیکن اس واقعے نے بھارت کی حکمران اور مخالف جماعتوں کے مابین سخت مقابلے کاسماں پیدا کردیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کے سخت اور مضحکہ خیز بیانات جاری کر رہی ہیں کہ مجھے حیرت ہوتی ہے۔ بی جے پی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ تینوں غدار ہیں اور انہیں سخت سزا ملنی چاہئے۔ وہ بھارت میں تقسیم کے عمل کو ہوا دے کر بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ ان کی وجہ سے لال قلعے کی توہین کی گئی اور 500 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ دوسری جانب کانگرس، کمیونسٹ پارٹی اور شیوسینا کے رہنما ان لوگوں کے اس کام کو بچوں کی نادانی قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی اور حکومت شخصی آزادی کاگلا گھونٹ دینے پر آمادہ ہے۔ بھارتی حکومت اور حزب اختلاف کے یہ خیالات انتہا پسندی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جہاں تک ٹوئٹر پر متنازع پیغامات کا تعلق ہے تو ان پر قابو رکھنا ضروری ہے۔ ٹوئٹر پر رہنما ایک دوسرے کے ساتھ جوتم پیزارہوں‘ یہ قدرے عجیب معلوم ہوتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ بچ گئے لیکن ...
ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر ہیں جن کا دو بار امریکی پارلیمنٹ نے مواخذہ کیا اور دونوں بار بری کر دیا۔ وہ پہلے صدر ہیں جن کاعہدہ چھوڑنے کے بعد بھی مواخذہ کیا گیا۔ اگر یہ مواخذہ کامیاب ہوتا تو وہ دوبارہ مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، ان کی پنشن اور دیگر سہولیات بھی رک جاتیں‘ لیکن وہ جیت گئے ، مطلب یہ ہے کہ امریکی پارلیمنٹ میں ان کے مخالفین انہیں شکست دینے کے لیے حمایت حاصل نہیں کرسکے۔ اگر امریکی سینیٹ کے 100 ارکان میں سے دو تہائی نے ان کے خلاف ووٹ دیا ہوتاتو وہ ہار گئے ہوتے لیکن 67 کے بجائے 57 ووٹ ان کے خلاف پڑے‘ یوں 10 ووٹوں کے فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کی اس تحریک سے بچ گئے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے 50‘50 ارکان ہیں۔ ٹرمپ کی جماعت کے صرف سات ارکان نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔ سینیٹ میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے رہنما میکانیل نے بھی ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیا لیکن ٹرمپ کے خلاف تقریر کی۔ وہ شروع سے ہی ٹرمپ کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ میکانیل نے امریکی پارلیمنٹ پر چھ جنوری کو ہونے والے ہجوم کے حملے کا ٹرمپ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے ہجوم کو بھڑکایا جس سے ہجوم پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہو گیا اور نائب صدر پرحملہ کردیا۔ یہ سب ہارنے کی جھلاہٹ پرہوا۔ میکانیل کی مخالفت کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ ٹرمپ کی جگہ لینا چاہتے ہوں۔ انہوں نے یقینی طور پر ٹرمپ کے خلاف بات بھی کی لیکن وہ پارٹی کی اکثریت کے ساتھ رہے۔ اب ٹرمپ نے ایک بار پھر متحرک رہنے کا اعلان کردیا ہے۔ وہ ''امریکہ عظیم ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرکے دوبارہ صدر بننے کی کوشش کریں گے۔ یوں بھی انہیں ساڑھے سات کروڑ ووٹ ملے ہیں۔ ان کے کردار ، ان کی تقریر اور ان کی ذاتی بے راہ روی کی شاید پوری دنیا میں مذمت کی جاسکتی ہے لیکن امریکہ کے کروڑوں لوگ انہیں قوم پرستی کا ایک مضبوط داعی سمجھتے ہیں۔ وہ ری پبلکن پارٹی کو دوبارہ کھڑا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اگر ری پبلکن پارٹی نے ان کی قیادت منسوخ کر دی تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ اسے توڑ دیں یا نئی پارٹی تشکیل دیں۔ اس کے لیے ان کے پاس کافی پیسہ بھی ہے اور حامیوں کی تعداد بھی ہے۔ صدر جوزف بائیڈن نے ٹرمپ کی فتح پر کافی متوازن رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ٹرمپ اس مواخذے سے بچ گئے ہیں لیکن اس مقدمے سے ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ جمہوریت کے تحفظ کا معاملہ بہت نازک ہے۔ غفلت اور بے ضابطگی سے جمہوریت کو ہجوم میں تبدیل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ جو وقت گزر چکا ہے وہ کبھی واپس نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو درپیش اصل اور فوری چیلنج کورونا کی وبا ہے۔ بے روزگاری ، اموات اور معاشرتی تناؤ اسی سے پیدا ہوتا ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ کو بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری تیاری کرنا ہوگی۔
احتجاج کس کے خلاف ،کیا عوام کے خلاف؟
عوامی احتجاج سے متعلق انڈین سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ان درخواست گزاروں کو مایوسی ہوئی ہوگی جو احتجاج کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگر عوام کو کسی ریاست میں احتجاج کرنے کا حق نہیں ہے تو پھر یہ جمہوریت نہیں ہو سکتی۔ مخالفت یا احتجاج جمہوریت میں موٹر کار میں بریک کی طرح ہے۔ بغیر احتجاج کے جمہوریت ایک بغیربریک کے کار کی طرح ہے۔ عدالت نے احتجاج، دھرنوں، بھوک ہڑتالوں، جلوسوں وغیرہ کو بھارتی شہریوں کا بنیادی حق سمجھا ہے‘ لیکن اس میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر حکومت سے زیادہ دیر تک لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو مذکورہ بالا تمام اقدامات روکنے کا حکومت کو حق ہے۔ اس معاملے میں عدالت کی یہ بات بالکل سچ ہے، کیونکہ اگر عوام کسی کا حقہ پانی بند کرتے ہیں تو یہ عوام کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ حکومت کی نہیں عوام کی مخالفت ہے۔ مظاہرین تعداد میں محدود ہیں لیکن ان کے اجتماعات سے لاتعداد افراد کی آزادی میں خلل پڑتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو طویل فاصلے کے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، دھرنے کے قریب فیکٹریاں اور سینکڑوں چھوٹے تاجروں کی دکانیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ہسپتال پہنچتے پہنچتے شدید مریض دم توڑ جاتے ہیں۔ اگر بڑے دھرنے ہفتوں تک چلتے رہیں تو ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ''ریل روکو‘‘مہم روڈ بلاکس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ ایسے مظاہرین عوامی ہمدردی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے ، آپ کس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ،سرکارکے خلاف یاعوام کے خلاف؟ اس طرح کا دھرنا دینے سے پہلے پولیس کی اجازت لینا ضروری ہو گی بصورت دیگر پولیس انہیں ہٹادے گی۔ پتہ نہیں دہلی بارڈر پر طویل دھرنے پر بیٹھے کسان عدالت کی سنیں گے یا نہیں۔ اگر ان دھرنوں اور جلوسوں سے سڑکیں ایک سے دو گھنٹے کے لیے بند کر دی جاتی ہیں اور کچھ عوامی مقامات پر مظاہرین کا قبضہ ہو جاتا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن اگر یہ طویل دھرنے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بنیں گے تو پھر پولیس کی کسی بھی قسم کی کارروائی جائز ہو گی۔ میں نے پچھلے 60‘65 سالوں میں اس طرح کے دھرنوں ، مظاہروں ، جلوسوں کے علاوہ خودکئی بار بھوک ہڑتال کی ہے لیکن اندور ، دہلی ، لکھنؤ ، وارانسی ، بھوپال ، ناگ پور وغیرہ شہروں کی پولیس نے ان پر کبھی بھی لاٹھی چارج نہیں کیا۔ مہاتماگاندھی نے یہی سکھایا ہے کہ ہمیں اپنی پرفارمنس کو ہمیشہ غیر متشدد اور نظم و ضبط میں رکھنا چاہئے۔ ان کے ذریعے چوری چورا تحریک روکنے کی وجہ یہی تھی کہ وہاں احتجاجیوں نے قتل اور تشدد کا ارتکاب کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں