کانگریس پارٹی آج کل نظریاتی انحطاط کی مثال بن رہی ہے۔ نہرو کی کانگریس، جس نے ملک میں سیکولرازم کا جھنڈا بلندکیا تھا۔ وہ جھنڈا آج بھی اسی کانگریس کے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ جھنڈا سیکولرازم کے فروغ کے بجائے اب فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے۔ فرقہ واریت بھی کیسی؟ تمام اقسام کی، الٹی بھی سیدھی بھی۔ یعنی جو بھی ووٹ دلا سکے۔ کانگریس نے محسوس کیا کہ بی جے پی ملک میں اس لئے دندنا رہی ہے کہ وہ ہندو فرقہ واریت کو فروغ دے رہی ہے۔ پھر انہوں نے بھی ہندو مندروں، مٹھوں، مقدس ندیوں، سَنتوں اور سَنتوں کے آشرموں کے چکر لگانے شروع کر دیئے، لیکن اس ساری سرگرمی کا کوئی ٹھوس اثر نہیں ہوا۔ اب انہوں نے بنگال، آسام اور کیرالہ کی مسلم پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ کانگریس نے بنگال میں عباس صدیقی کے 'انڈین سیکولر فرنٹ‘، آسام میں بدرالدین اجمل کے 'آل انڈیا یونائیٹڈ فرنٹ‘ اور کیرالا میں 'ویلفیئر پارٹی‘ کے ساتھ اتحاد کیوں کیا؟ اس لیے کہ جہاں ان جماعتوں کے امیدوار نہ ہوں، وہاں مسلم ووٹ کانگریس کو ملے۔ کیا کانگریس ان ووٹوں سے الیکشن جیت سکتی ہے؟ بالکل نہیں! پھر کانگریس نے اس طرح کے سمجھوتے اور معاہدے کیوں کیے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ اس نے ان تمام ریاستوں میں اپنا سپورٹ بیس کھو دیا ہے لہٰذا، کانگریس چاہتی ہے کہ جو بھی ووٹ، جیسے بھی سمیٹا جا سکے، سمیٹ لیا جائے۔ میں نے ان پارٹیوں کے ساتھ کانگریس کے اتحاد کو ٹھگ بندھن کا نام دیا ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے کانگریس اپنے کارکنوں کو دھوکا دے رہی ہے، وہ ان مسلم ووٹرز کو بھی دھوکہ دے رہی ہے۔ میرے خیال میں کانگریس کو ووٹ دینے سے ان ریاستوں کے مسلم ووٹر اقتدار سے بہت دور ہو جائیں گے۔ کانگریس کی شکست یقینی ہے۔ اگر یہ مسلم ووٹر دیگر غیر بی جے پی پارٹیوں کے ساتھ رہتے تو وہ کسی بھی حکمران جماعت کے ساتھ ہوتے یا انہیں اسی ریاست کی با اثر جماعت کی سرپرستی حاصل ہوتی۔ کانگریس کے اس چال چلن کی مخالفت آنند شرما جیسے سینئر رہنمائوں نے دوٹوک الفاظ میں کی ہے۔ کانگریس ایک آل انڈیا پارٹی ہے لیکن اس کی پالیسیوں میں پورا ہندوستان کہاں ہے؟ وہ بنگال میں جس کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ہیں‘ کیرالہ میں اسی کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ مہاراشٹرا میں، وہ سخت گیر ہندو مذہبی سیاسی پارٹی شیو سینا کے ساتھ حکومت میں اور تین صوبوں میں مسلم اداروں کے ساتھ اتحاد میں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، کانگریس کسی بھی قیمت پر اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مرتا، کیا نہیں کرتا؟
دنیا میں پدر سری معاشرہ
ہم کتنے ہی دعوے کر لیں کہ ہمارے بھارت میں خواتین کی پوجا کی جاتی ہے کہ ہم ہندوئوں کے خیال میں خواتین کی پوجا میں دیوتا بستے ہیں 'یترا نارائستو پوجینتے تترا رمنتے تترا دیوتا‘۔حال ہی میں عالمی بینک کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ عورت کی پوجا کرنا تو کافی دور کی بات ہے، بھارت میں اس کو مرد کے برابر کا درجہ دینے میں بھی اس کا نمبر 123واں ہے‘ یعنی دنیا کے 122 ممالک میں خواتین کی پوزیشن بھارت میں بسنے والی خواتین کی نسبت کہیں بہتر ہے۔ اب ان 190 ممالک میں سے 180 ایسے ہیں جن میں مرد عورت کے درمیان مساوات غائب ہے۔ صرف دس ممالک ہیں جہاں خواتین اور مردوں کے حقوق برابر ہیں۔ یہ بلجیم، فرانس، ڈنمارک، لٹویا، لکسمبرگ، سویڈن، آئس لینڈ، کینیڈا، پرتگال اور آئرلینڈ ہیں۔ یہ ممالک یا تو بھارت کے صوبوں کے برابر ہیں یا اضلاع کے برابر۔ ان ممالک میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے، جس کی ثقافت اور تہذیب بھارت سے قدیم ہو۔ درج بالا دس ممالک میں سے زیادہ تر عیسائیت کی پیروی کرتے ہیں۔ بعض معاشروں میں عورت کو خرابیوں کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔ پوپ کی حکمرانی تقریباً ایک ہزار سال تک یورپ میں جاری رہی۔ تاریخ میں اسے تاریک عہد کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن پچھلے دو تین سو سالوں میں، یورپ نے مرد اور خواتین کی مساوات کے معاملے میں انقلاب برپا کیا ہے‘ لیکن بھارت، چین اور روس جیسے بڑے ممالک میں اب بھی حکمرانی، معاشرہ، انتظامیہ اور تعلیم وغیرہ میں مرد بالا دستی والا نظام ہے اور یہ نظام حاوی ہے۔ کیرالہ اور منی پور کو چھوڑ کر، کیا وجہ ہے کہ پورے بھارت میں ہر شادی شدہ عورت کو اپنی کنیت تبدیل کر کے اپنے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا پڑتا ہے؟ شوہر بیوی کی کنیت کیوں نہیں لیتا؟ شادی کے بعد، کیا وجہ ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کے گھر ہی رہنا پڑتا ہے؟ شوہر بیوی کے گھر کیوں نہیں جاتا ہے؟ باپ کی املاک موجود ہے لیکن 'ماں‘ کی جائیداد کیوں نہیں؟ باپ کی جائیداد اس کے بیٹوں میں تقسیم ہوتی ہے، بیٹیوں میں کیوں نہیں؟ بچوں کے نام کے سامنے صرف ان کے والد کا نام لکھا ہوتا ہے، ماں کا کیوں نہیں؟ دنیا کے کتنے ممالک میں خواتین بطور صدر اور وزیر اعظم ہیں؟ اندرا جی بھارت میں اس لیے وزیر اعظم نہیں بنیں کہ وہ ایک عورت تھیں، بلکہ اس لئے کہ وہ نہرو جی کی بیٹی تھیں۔ بھارت میں کچھ سادھو اور سَنت رہے ہیں، لیکن دنیا کے دوسرے ممالک اور مذاہب میں بھی برگزیدہ ہستیاں آتی رہی ہیں۔ دنیا کے بہت سے معاشروں میں، کثیر زوجی کا نظام ہے۔ خواتین ہی 'ستی‘ کیوں ہوتی رہیں، مرد 'ستا‘کیوں نہیں ہوئے؟ اس مردانہ حکمرانی والی دنیا کی تبدیلی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا انقلاب ثابت ہو گی۔
دو اچھی خبریں
پچھلے دنوں بھارت کے معاملے میں امریکہ اور یورپ سے دو اچھی خبریں آئیں۔ ایک امریکہ کی اعلیٰ ویزا پالیسی اور دوسری عالمی پالیسی جو جی 7 ممالک کے اجلاس سے نکلی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنی ویزا پالیسی کو سخت بنانے کا اعلان کیا تھا تاکہ بھارتی لوگ امریکہ نہ جائیں، اور جو پہلے سے موجود ہیں، واپس لوٹ جائیں اور ان کے بچے بھی جب بالغ ہو جائیں تو وہاں نہ رہ سکیں۔ ٹرمپ نے یہ سب اس لئے کیا کہ اگر بھارتی لوگ امریکہ سے بھاگ گئے تو گوروں کو ان کی جگہ نوکری مل جائے گی، لیکن امریکہ میں اتنا شور مچا کہ ٹرمپ کو انتخابی مہم کے دوران ہی جھکنا پڑا؛ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کی ویزا پالیسی کو پلٹ دیا۔
اب بھارتیوں کے لیے ورک ویزا اور گرین کارڈز حاصل کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا دوسرا اعلان امریکہ کی پوری دنیا کی پالیسی کے بارے میں ہے۔ یہ اعلان جی سیون ممالک کی ٹیلی میٹنگ (ورچوئل میٹنگ) میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان اور کینیڈا نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں تمام ممالک کے رہنمائوں نے پہلی بار کورونا کی وبا کے بعد دنیا کی معیشت کی بحالی کا عزم کیا۔ دوسرا، اس نے غریب ممالک میں کورونا ویکسین تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ نے 400 کروڑ خرچ کرنے کا وعدہ کیا۔ عالمی ادارہ صحت کے ساتھ معاہدے کو بحال کیا۔ تیسرا، امریکہ نے پیرس موسمی معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا اعلان کیا۔ چوتھا، بائیڈن نے میونخ کی سکیورٹی میٹنگ میں کہا کہ چین کی غلط اور خود غرضانہ پالیسیوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا‘ لیکن بائیڈن کا رویہ اتنا جارحانہ نہیں تھا‘ جیسا ٹرمپ کا تھا۔ پانچواں، نیٹو کے 30 ممبر ممالک کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے، بائیڈن نے روس اور چین کے دائو سے نمٹنے کا بھی اعلان کیا۔ چھٹا، ایران کے ساتھ ختم ہونے والے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ ساتواں، جب امریکہ اور یورپ چین پر جمہوری بننے کے لئے دبائو ڈالیں گے، تب اس دبائو سے بھارت چین تعلقات پر اثر پڑے گا۔ بھارت اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔