گزشتہ دنوں بھارت‘ امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا‘ چاروں ممالک کی چوکڑی کا جو پہلا سربراہی اجلاس ہوا اس میںسب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ تھی کہ کوئی بھی رہنما چین کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا جبکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چوکڑی چین کے خلاف بنی ہے۔ اس کا نام ہے ''کواڈ‘‘ یعنی Quadrilateral Security Dialogue‘ جس کا مطلب سٹریٹیجک مساوات ہے لیکن اس کے شرکا بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی‘ امریکی صدر جو بائیڈن‘ جاپان کے وزیر اعظم یوشی ہائڈ سوگا اور آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے کورونا کی وبا سے لڑنے پر توجہ دی ہے۔ پچھلے مہینے جب اس چوکڑی کی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقد کی گئی اس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین کے خلاف کچھ بیانات دیے تھے لیکن تب چاروں وزرائے خارجہ کا کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں ہوا تھا کیونکہ ہندوستان نہیں چاہتا تھا کہ یہ چوکڑی چین کے خلاف ہو جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے 10‘ 15 برسوں میں چین کے چیلنج سے امریکہ لرز اٹھا ہے اور اسی وجہ سے اس نے بحرالکاہل کے خطے کو ہند بحرالکاہل قرار دیا۔ بائیڈن خود چین سے مسابقت میں ہیں لیکن وہ ٹرمپ کی طرح بے لگام نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ‘ وہ جانتے ہیں کہ چین‘ جاپان اور آسٹریلیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ چین امریکہ کے یورپی ساتھی فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ کی معیشتوں کے لئے بھی ایک بہت بڑا معاون ہے۔ اسی لئے اس سربراہی اجلاس کے مشترکہ بیان میں کواڈ اتحاد کے چاروں ممالک نے کہا ہے کہ یہ گروپ ہم خیال ممالک کی لچکدار تنظیم ہے جس میں کچھ نئے ممالک کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بحرالکاہل اور بحر ہند کے خطے میں امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے اپنے سٹریٹیجک اڈے ہیں اور چین اور ان کے مفادات میں مقابلہ ہے لیکن میرے خیال میں بھارت کو کسی بھی قوم یا دھڑے کا پیادہ نہیں بننا چاہیے۔ بھارت اور چین کی سرحد پر آج بھی تناؤ برقرار ہے‘ لیکن بات چیت جاری ہے‘ اس کے علاوہ‘ بھارت اور چین ''برکس‘‘ اور ''ایس سی او‘‘ تنظیموں کے مشترکہ ممبر بھی ہیں۔ بھارت اور چین آپس میں نمٹنے کے قابل ہیں اس لیے بھارت کو ''کواڈ‘‘ جیسے کسی اتحاد کے ذریعے کسی کا مہرہ نہیں بننا چاہیے۔
قابلِ تکریم ہیں یہ ڈاکٹر!
آج کل ڈاکٹری‘ ایڈووکیسی اور تعلیم‘ یہ تینوں شعبے برائے خدمت نہیں بلکہ کاروبار کے طور پر سمجھے جاتے ہیں اور اگر کاروبار ہے تو پھر اس سے پیسہ کمایا ہی جائے گا‘ ان تین خدمات کو سیکھنے کے دوران ایک بڑی رقم جو خرچ کی جاتی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر اس کی وصولی نہیں کی جائے گی تو کیسے کام چلے گا؟ وصولی کے اس عرصے میں شہری اور امیر لوگ اپنا کام کسی طرح سے چلا لیتے ہیں لیکن بھارت میں تقریباً 100 کروڑ افراد اب بھی مناسب تعلیم‘ صحت اور انصاف کے لئے ترس رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک انگریزی اخبار نے پانچ صوبوں کے پانچ ڈاکٹروں کے بارے میں ایک تفصیلی خبر چھاپی تھی جو اپنے مریضوں سے فیس کے نام پر کچھ بھی نہیں لیتے ہیں یا اتنی فیس لیتے ہیں جو ایک کپ چائے کی قیمت سے بھی کم ہے۔ بھارت میں پہلے سینکڑوں کی تعداد میں اس طرح کے ڈاکٹر‘ وید‘ حکیم اور ہومیوپیتھ پائے جاتے تھے۔ دہلی کے علاقے نظام الدین میں ویدیا راج برسپتی دیو ترگونی جی کا نام کس نے نہیں سنا ہو گا؟ ان کی ویدیہ شالہ میں کوئی کروڑ پتی آئے‘ کوئی وزیر اعظم آئے یا کوئی کوڑی پتی‘ انہوں نے کسی سے کوئی فیس نہیں لی۔ اندور میں ڈاکٹر مکھرجی لوگوں میں بے حد مقبول ہیں‘ 60‘ 70 سال پہلے وہ ہمارے پڑوس میں کسی کے گھر جاتے تھے تو مجھ سے پوچھتے تھے کہ ان سے فیس لوں یا نہیں؟ یہی حال گروکل کا تھا۔ ہم نے اپنے سنسکرت سکول میں کسی بھی برہمچاری کو کوئی فیس دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر اور اساتذہ کو ان کے ہسپتال اور سکول سے جو تنخواہ ملتی اسی میں وہ گزارا کرتے تھے‘ لیکن اپنے عیش و آرام کیلئے انہوں نے اپنی خدمت کو کاروبار میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جی ہاں‘ تعلیم اور طبی اداروں کو خیرات اور عطیہ کیلئے دروازہ پر ایک عطیہ باکس رکھا ہوتا تھا‘ جس کا جتنا دل چاہتا دے دیتا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ حکومت (بھارت) کی طرف سے کورونا کاٹیکہ کروڑوں لوگوں کومفت دیا جارہاہے لیکن یہ طریقہ ملک کے پورے طبی نظام پر لاگو نہیں ہے؟ نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار پر پابندی کیوں نہیں ہے؟ اگر بھارت کا تعلیمی نظام اعلیٰ ترین سطح پر مفت ہو اور مادری زبان میں ہوتو بھارت کو یورپ کی طرح آگے بڑھنے میں بہت کم وقت لگے گا۔ اگر جسم کیلئے صحت اور دماغ کیلئے تعلیم تک لوگوں کی رسائی ہوتو ملکوں کو مضبوط اور خوشحال ہونے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ اگر ہماری حکومتیں ان دونوں معاملات میں مستعدی نہ دکھائیں توبھی ان قابلِ تکریم ڈاکٹرز سے لاکھوں ڈاکٹر یقینی طور پر کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اس کاروبار کو دوبارہ خدمت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
اتراکھنڈ: ایک کی جگہ دوسرا راوت
چند روز قبل اتراکھنڈ میں بی جے پی نے اپنے وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت کوکیوں بدلا؟ ان کی جگہ تیرتھ سنگھ راوت کو وزیر اعلیٰ کیوں بنایا؟ تیرتھ سنگھ ایم ایل اے بھی نہیں ہیں‘ رکن پارلیمنٹ ہیں‘ پھر بھی انہیں کیوں لایا گیا؟ ایک راوت کی جگہ دوسرا راوت کیوں؟ جب ہمیں ان سوالوں کے جواب ملیں گے تو اس میں بی جے پی ہی نہیں ملک کی تمام جماعتوں کے اعلیٰ قائدین کیلئے بھی بہت سے اسباق ہوں گے۔ پہلا سبق یہ ہے کہ کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ یہ نہ سمجھے کہ وہ حکمران ہے‘ یعنی وہ بادشاہ بن گیا ہے۔ وزیر اعظم بنتے ہی مودی نے خود کو ملک کا پردھان سیوک کہا تھا‘ یہی کسوٹی ہے۔ ہر برسر اقتدار قائد کو خود کو اس کسوٹی پر قائم رکھنا چاہئے‘ لیکن تریویندر راوت نے اس کسوٹی کوطاق پر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اتراکھنڈ کے عام شہریوں کی التجا سننا بند کردی تھی۔ انہوں نے اپنے ارکان اسمبلی کو بھی نظرانداز کرنا شروع کردیا تھا۔ بی جے پی کے یہ ایم ایل اے اس بات پر ناراض تھے۔ اب بی جے پی نے ایک رکن پارلیمنٹ کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے کیونکہ اگر وہ ایک ممبر اسمبلی کو بناتی تو اس کا باہمی مقابلہ اور حسد حکومت پر غالب آجاتا۔ تیرتھ سنگھ راوت کو یہ موقع اس لئے ملا کہ وہ اجات شترو ہیں۔ وہ شائستہ اور نرم ہیں۔ وہ عوام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اتراکھنڈ کے 70 ایم ایل اے میں سے 30 کا تعلق گڑھوال سے ہے۔ تیرتھ گڑھوالوں کے ایک محبوب رہنما ہیں۔ وہ افسران کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہیں ہیں۔ اگر وہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ صحیح طور پر ہم آہنگی قائم کرلیتے ہیں تو 2022ء کے انتخابات میں بی جے پی دوبارہ جیت سکتی ہے۔ تیرتھ سنگھ راوت کو کوالیفائنگ امتحان کے لئے صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ ملا ہے۔ اس مختصر عرصہ میں اتراکھنڈ کی ترقی اور پارٹی اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کئی بڑے چیلنجز ان کے سامنے ہیں۔ وہ اتراکھنڈ بی جے پی کے صدر رہ چکے ہیں اور بچپن سے ہی قومی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ مرکزی قائدین کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ انتخابی چیلنج کے اس دور میں بی جے پی کے ایم ایل اے ان کی مخالفت نہیں کر سکیں گے۔ اگلے انتخابات کے بعد اتراکھنڈ کی بی جے پی میں بہت سے سینئر رہنما موجود ہیں جو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر قبضہ کرنا چاہیں گے۔ تریویندر سنگھ راوت بھی گڑھوالی ہیں۔ کیا وہ خاموشی سے اپنے اس وقتی صدمہ کو برداشت کرلیں گے؟ وہ کچھ بھی کریں لیکن ان کی رخصتی سے ملک کے سبھی عہدوں پربیٹھے لیڈرز کو سخت سبق مل گیا ہے۔