پٹرول اور ڈیزل کے دام آج جتنے بڑھے ہوئے ہیں ‘ پہلے کبھی نہیں بڑھے۔وہ جس رفتار سے بڑھ رہے ہیں اگر اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو دیش کی کاریں ‘ بسیں ‘ ٹریکٹر ‘ ریلیں وغیرہ کھڑے کھڑے زنگ کھانے لگیں گی ‘ معیشت چوپٹ ہوجائے گی‘ مہنگائی آسمان چھونے لگے گی۔ اپوزیشن اس بارے میں کچھ شور ضرور مچارہی ہے لیکن ان کی آواز کا اثر کچھ نہیں ہورہاہے۔ کورونا مہاماری نے اتنی زور کا ڈنکا بجارکھا ہے کہ اس وقت کوئی بھی کتنا ہی چلائے اس کی آواز کوئی کپکپی پیدا نہیں کرپارہی۔ اس وقت چھ ریاستوں میں پٹرول کی قیمت 100 روپے سے اوپر پہنچ گئی ہے۔راجستھان کے گنگا نگر میں یہی پٹرول 110 روپے تک چلا گیاہے۔ پچھلے سوا مہینے میں پٹرول کی قیمتوں میں 22 بار اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کی قیمت کو بوندبوند کرکے بڑھایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں چانٹا مارنے کی بجائے چپت لگائی جاتی ہے۔ راجستھان نے کسانوں کو راحت دینے کیلئے ان کی فصلوں کی کم سے کم قیمت خرید کو بڑھادیا ہے۔ یہ اچھا کیا ہے لیکن کتنا بڑھایا ہے؟ ایک سے چھ فیصد تک !جبکہ پٹرول کی قیمتیں ایک سال میں تقریباً 35فیصد اور ڈیزل کی 25فیصد بڑھ چکی ہیں۔کاشتکاری کی ہر چیز پر بڑھے ٹیکس کے اس دور میں تیل کی قیمت کا بڑھنا کوڑھ میں کھاج کا کام کرے گا۔ آج کے دور میں پٹرول اور ڈیزل کے بغیر آمد و رفت اور ٹریفک کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کے ایک کونے میں پیدا ہونے والے مال دوسرے کونے میں بکتے ہیں یعنی اسے دو سے تین ہزار کلومیٹر تک سفر کرنا پڑتا ہے۔ اب تو حال یہ ہوگا کہ کسی چیز کی اصل قیمت سے زیادہ قیمت اس کی ٹرانسپورٹیشن کی ہوجایاکرے گی۔ دوسرے الفاظ میں مہنگائی آسمان چھونے لگے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سرکار کو کورونا سے نپٹنے کا موٹا خرچ کرنا پڑرہاہے لیکن اس خرچ کی بھرپائی کیا جنتا کی کھال ادھیڑنے سے ہی ہوگی؟ من موہن سنگھ کی کانگریسی سرکار پٹرول پر تقریباً نو روپے فی لٹر ٹیکس وصولتی تھی جو مودی راج میں بڑھ کر 32روپے ہو گیا ہے۔ سرکار نے اس سال پٹرول‘ ڈیزل پر ٹیکس کے طور پر2.74 لاکھ کروڑ روپے وصولے ہیں۔ اتنے موٹے پیسے سے کورونا کا علاج پوری طرح سے مفت ہوسکتا تھا۔ آج سے سات آٹھ سال پہلے بین الاقوامی بازار میں پٹرول کی قیمت فی بیرل 110 ڈالر تھی جبکہ آج وہ صرف 70 ڈالر ہے۔ اس کے باوجود ان آسمان چھوتی قیمتوں نے پٹرول اور ڈیزل کو بھارت میں جنتاکا سر درد بنا دیا ہے۔ سرکار ذرا حساس ہوتی تو اپنی فضول خرچی میں زبردست کمی کرتی اور پٹرول پہلے سے زیادہ سستا کردیتی تاکہ لڑ کھڑاتی معیشت دوڑنے لگتی۔
ملاوٹ مافیاکوسزا کیوں نہیں ؟
ان دنوں کھانے پینے کی اشیااور ادویات میں ملاوٹ کی خبریں بہت آرہی ہیں۔ ملاوٹ مافیا بے رحمی سے پیسے کما رہے ہیں ‘ جس کی وجہ سے سینکڑوں ہزاروں لوگ بے موت مارے جارہے ہیں۔ تمام ممالک میں ملاوٹ کرنے والوں کو سزا دینے کا انتظام موجود ہے لیکن بھارت میں ان کی سزا ان کے جرم سے بہت کم ہے۔ یہ مجرم بڑے پیمانے پر قتل کے مجرم ہیں‘ انہیں سزا کیوں نہیں دی جاتی ؟ کیوں ان کی جائیداد ضبط نہیں کی گئی؟ بھارت کے عوام اپنے ممبران پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیوں نہیں کرتے؟ وہ انہیں اس معاملے پر سخت قوانین بنانے پر مجبور کیوں نہیں کرتے؟ عدالتیں ان ملاوٹ کرنے والوں کو صرف اسی صورت میں سزا دے سکیں گی جب کوئی قانون موجود ہو۔اس کے باوجود دوحالیہ معاملات میں سپریم کورٹ نے ملاوٹ مافیا پر سخت تنقید کی ہے۔ نیمچ کے دو تاجروں کو پولیس نے اس لئے پکڑا کہ انہوں نے گندم کو سنہری پالش (ناقابل خوردن) کرکے فروخت کیا تھا۔ ایک اور تاجر نے گھی میں اس طرح ملاوٹ کی تھی کہ اب یہ کھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ان دونوں معاملات میں فریقین کی طرف سے جو وکلا پیروی کررہے تھے ان سے ججوں نے پوچھا کہ کیا آپ خود بھی وہی گندم اور و ہی گھی کھانا پسند کریں گے؟ دونوں وکلا کی ہوا کھسک گئی۔ انہوں نے وکلا سے کہا کہ آپ ان ملاوٹ کرنے والوں کا دفاع کرنے کیلئے یہاں کھڑے ہیں ‘ جو لوگوں کو بڑی تعداد میں قتل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔عدالت کیا کرے گی؟ انہیں جیل بھیج دے گی۔ وہ جیل میں عوام کی کمائی کی مفت روٹی کھائیں گے اور جب وہ آزاد ہوں گے تو پھر وہی کاروبار بڑے پیمانے پر شروع کردیں گے۔ کھانے پینے کی ملاوٹ کرنے والوں سے بھی زیادہ خطرناک وہ ہیں جو ادویات میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ جو لوگ دوائیں کھاتے ہیں وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اندور شہر میں 10 افراد جنہیں ریمیڈیسویر کے جعلی انجکشن لگائے گئے تھے‘ اچانک دم توڑ گئے۔ بھارت میں پچھلے ڈھائی مہینوں میں جعلی انجکشن ‘ جعلی گولیاں اور جعلی کورونا کٹس کے سینکڑوں معاملات منظر عام پر آئے ہیں۔یہ ظالمانہ کاروبارنہ صرف بھارت میں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں تیزی سے چل رہا ہے۔ 92 ممالک نے ایسے کاروباریوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کردی ہے۔ انٹرپول نے ایک لاکھ 13 ہزار ویب سائٹس بند کردی ہیں کیونکہ وہ جعلی ادویات کا کاروبار کررہی تھیں۔ اس ظالمانہ تجارت پر قابو پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ان مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
اراولی کو بچائیں
سپریم کورٹ نے اراولی پہاڑیوں کے جنگلاتی علاقے کے تحفظ کیلئے ایک سخت حکم نامہ جاری کیا ہے۔ انہوں نے فرید آباد کے ضلعی عہدیداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان 10ہزار کچے مکانات کو ‘ جو اراولی کے گاؤں کھوری کے آس پاس تعمیر ہوئے ہیں ‘ ڈیڑھ ماہ میں مسمار کردیں۔ یہ مکانات غیر قانونی ہیں۔ جنگل کے تقریباً 100 ایکڑ رقبے میں بنائے گئے یہ مکانات پنجاب لینڈ کنزرویشن ایکٹ 1900ء کے خلاف ہیں کیونکہ اس علاقے میں اگنے والے درختوں کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہو سکتا۔ ان مکانوں میں بسنے والے ہزاروں افراد کو کچھ جعلی ٹھیکیداروں نے پلاٹ بیچے۔ ان مکانوں میں رہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو قریبی پتھر کی کانوں میں مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔ جب سے یہ پتھرکی کانیں بند کردی گئی ہیں ‘ یہ لوگ آس پاس کے علاقوں میں مزدور کی حیثیت سے کام کرکے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے بھی حکومت کو اس جنگل کی اراضی کو صاف کرنے کا حکم دیا تھا ‘ لیکن اس پر بہت کم عمل کیا گیا۔ پچھلے سال تین سو مکانات مسمار کردیے گئے تھے لیکن لوگوں نے سرکاری ملازمین پر پتھراؤ کیا اور ان کی ساری مہم تعطل کا شکار ہوگئی۔ اس بار حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو سخت ہدایات دی ہیں اور ساتھ ہی ملازمین کی مکمل حفاظت کا حکم بھی دیا ہے۔ ان 10 ہزار کچے اور پکے مکانات کے علاوہ ‘ ارب پتی اور ملک کے رہنمائوں نے اراولی کے جنگلاتی علاقوں جیسے رئیسہ ‘ گارٹ پور باس ‘ سانپ کی نانگلی ‘ دمدامہ ‘ سوہنا ‘ گوالپہاری ‘ باندھواڑی وغیرہ میں اپنے پرتعیش فارم ہائوسز بنائے ہیں۔ کیا وہ بھی بلڈوز کیے جائیں گے؟ اگر ہاں تو یہ ان کا بڑا نقصان ہو گا لیکن وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوگا کہ کچے مکانات والے ہزاروں افراد سڑک پر آجائیں گے۔ اس شدید تپش میں وہ اپنا سر کہاں چھپائیں گے؟ حکومت ان کیلئے کچھ متبادل انتظامات کرے ‘ یہ ضروری ہے؛تاہم عدالت نے متبادل انتظامات کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن حکومت متعلقہ لینڈ مافیا لوگوں کو کیوں گرفتار نہیں کر سکتی‘ کیوں ان کی جائیداد ضبط نہیں کی جاسکتی؟ اس کے علاوہ عدالت اور حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ ان افسران کو سزا دیں جن کے دور میں یہ غیر قانونی تعمیرات ہوئیں۔ ان کی جائیداد ضبط کی جائے‘ جو ریٹائر ہو چکے ہیں ان کی پنشن کو بھی روکا جائے اور جوبرسر خدمت ہیں انہیں فارغ کیا جائے۔ یہ غیر قانونی کام صرف ہریانہ میں نہیں ہوا بھارت کے ہر حصے میں اندھا دھند ہورہا ہے۔ یہ صحیح وقت ہے ‘ جب مجرموں کو سخت سزا دی جائے۔