بھارت میں بیماروں اور بیماریوں کا علاج معالجہ ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے تاہم آنے والے دنوں میں اس شعبے میں بہتری پیدا ہونے کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں اور یہ دعویٰ میں ''علاج پتر‘‘ کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔ بھارتی حکومت نے جسے ''آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن‘‘ کہہ کر شروع کیا ہے‘ اسے میں ہندی میں ''علاج پتر‘‘ کہتا ہوں۔ نوکر شاہوں کے ذریعے یہ انگریزی میں گھڑا گیا نام اگر سادہ زبان میں ہوتا تو عام آدمی کی زبان پر آسانی سے چڑھ جاتا اور وہ اسے زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ جاتا‘ لیکن جو بھی ہو یہ ''علاج پتر‘‘ بھارت کی عام جنتا کے لیے بہت مفید ثابت ہو گا۔ بھارت سرکار کی اس پہل کا سواگت کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں ''علاج پتر‘‘ ایسا ہو گا جو مریضوں اور ڈاکٹروں کی دنیا ہی بدل دے گا۔ دونوں کو مغز ماری سے بچائے گا اور علاج کو آسان بنا دے گا۔ ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی مریض اپنی طبیعت بگڑنے پر کسی ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو دوائی دینے سے پہلے ڈاکٹر اس کی صحت کی ہسٹری پوچھتا ہے اور پھر اس کے مطابق اسے ادویات تجویز کرتا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ مریض کو یاد رہے کہ اسے کب کیا تکلیف ہوئی تھی اور اُس وقت ڈاکٹر نے اسے کیا دوا دی تھی اور وہ کب‘ کیسے‘ کتنی دیر میں ٹھیک ہوا تھا۔ اب جبکہ یہ علاج پتر اس کے جیبی فون کی ایپ میں ملے گا تو مریض فوراً وہ ڈاکٹر کو دکھائے گا اور اس کو دیکھ کر ڈاکٹر فوراً جان جائے گا کہ اسے ماضی میں کیا بیماریاں لاحق رہی ہیں اور ان بیماریوں کے علاج کے لیے اسے کون کون سی ادویات دی جاتی رہی ہیں۔ ان ساری معلومات کی بنیاد پر وہ اسے دوا دے گا۔ اس مقصد کے لیے ضروری نہیں کہ مریض اور ڈاکٹر آمنے سامنے ہی بیٹھ کر بات کریں۔ یہ ساری پوچھ تاچھ گھر بیٹھے بیٹھے آن لائن منٹوں میں نمٹ جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہسپتال میں اور ڈاکٹروں کے یہاں بھیڑ بھی کم ہو جائے گی اور مریضوں اور ان کے لواحقین کے لیے کچھ آسانی بھی پیدا ہو گی۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بھارت میں میڈیکل کے دھندے میں فی زمانہ ٹھگی کا بول بالا ہے‘ حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں وہ بھی گھٹے گا کیونکہ اس ''علاج پتر‘‘ میں ہر چیز درج رہے گی۔ ہمارے ملک میں دوا کمپنیوں کے ساتھ اکثر ڈاکٹروں کی سانٹھ گانٹھ کے قصے بھی سننے میں آتے رہے ہیں‘ ان کمپنیوں سے پیسے لے کر یا کمیشن کھا کر کچھ ڈاکٹر اور دوا فروش مریضوں کو نقلی یا بے مطلب دوائیں خریدنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اب چونکہ ہر دوا کا اس ''علاج پتر‘‘ میں نام اور قیمت درج رہے گی‘ اس لئے فرضی علاج اور لوٹ پاٹ سے مریضوں کی حفاظت ہو گی اور ان کے لیے علاج کرانا آسان ہو جائے گا۔ بھارت میں علاج اتنا مہنگا اور مشکل ہے کہ وہ بیماری سے زیادہ جاں لیوا بن جاتا ہے۔ ایک مریض تو جاتا ہی ہے‘ اس کے کئی گھر والے جیتے جی مر جاتے ہیں۔ ان کی زمینیں‘ جائیدادیں بک جاتی ہیں اور وہ قرض کے کنوئیں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کے شعبہ صحت میں یہ علاج پتر انقلاب برپا کر دے گا لیکن اس میں کچھ اہم سدھار ضرور کرے گا۔ ملک کی صحت سیواؤں میں مجموعی سدھار کے لیے بہت سے بنیادی قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت کے روایتی طبی نظام میں نئی تحقیق کو بڑھایا جائے تو یقینی طور پر وہ ایلوپیتھی سے زیادہ اثر دار اور سستا ثابت ہو گا۔ گھریلو علاج سے ڈاکٹروں کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایلوپیتھی کے فائدے اٹھانے میں چوک جائیں۔ مطلب صرف یہ ہے کہ بھارت کے 140 کروڑ لوگوں کو مناسب علاج اور تعلیم تقریباً اسی طرح دستیاب ہو جیسے ہوا اور روشنی ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو سکے تو جنتا کے لیے بہت اچھا ہو گا اور ظاہر ہے کہ ملک کے لیے بھی کہ اس کے لیے ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔
بھارت میں لیڈی ججز کی کمی
بھارت کے چیف جسٹس این وی رمن نے گزشتہ دنوں بھارت کی وزارت انصاف کو بھارتی زبانوں میں چلانے کی وکالت کی تھی۔ اس کی اس بات کی خاصی تعریف کی گئی تھی۔ اب انہوں نے ایک اور کمال کی بات کہہ دی ہے۔ انہوں نے بھارت کی عدالتوں میں لیڈی ججز کی کمی پر حکومت کا دھیان مبذول کرایا ہے اور کہا ہے کہ بھارت کی سبھی کورٹس کے ججوں میں لیڈیز کی 50 فیصد تقرری کیوں نہیں ہوتی؟ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ملک میں قانون کی پڑھائی میں لیڈیز کو کیوں نہیں شامل کیا جاتا؟ یہ بھی اہم سوال ہے کہ خواتین وکلا کی تعداد مرد وکلا کے مقابلے اتنی کم کیوں ہے؟ ان کی رائے ہے کہ ملک کی وزارت قانون میں خواتین کی کمی اس لئے ہے کہ ہزاروں سالوں سے انہیں دبایا جاتا رہا ہے۔ جسٹس رمن نے مانگ کی ہے کہ ریاستی سرکاریں اور مرکزی سرکار اس غلطی کو سدھارنے پر فوراً دھیان دیں۔ اگر بھارت کے سیاست دانوں اور لوگوں کو یہ بات ٹھیک سے سمجھ میں آ جائے کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور کس چیز کی مانگ کی ہے تو بھارت میں عدالتوں کی شکل ہی بدل جائے۔ سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ اعداد و شمار کیا کہتے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ میں اس وقت 34 ججز ہیں۔ ان میں سے صرف چار خواتین ہیں۔ ابھی تک صرف 11 خواتین اس عدالت میں جج بن سکی ہیں۔ چھوٹی عدالتوں میں خاتون ججز کی تعداد زیادہ ہے لیکن وہ بھی 30 فیصد سے زیادہ نہیں۔ بھارت کی عدالتوں میں کل ملا کر 677 ججز ہیں‘ ان میں خاتون ججز صرف 81 ہیں‘ یعنی صرف 12 فیصد۔ ہائی کورٹس میں 1098ججز ہونے چاہئیں لیکن 465 عہدے خالی پڑے ہیں۔ ان عہدوں پر خواتین کو تعینات کرنے کو ترجیح کیوں نہیں دی جاتی؟ ترجیح دینے کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ نااہل کو بھی اہل مان لیا جائے۔ خواتین کو یا کسی کو بھی جو 50 فیصد ریزرویشن ملے اس میں اہلیت کی شرط لازمی ہونی چاہئے اور میرٹ کے مطابق ہی چلنا چاہئے۔ بھارتی وکلا میں خواتین کی تعداد صرف 15 فیصد ہے‘ ریاستوں کی بار ایسوسی ایشنز میں ان کی ممبر شپ صرف دو فیصد ہے اور بھارت کی مرکزی بار کونسل میں ایک بھی خاتون نہیں ہے۔ بھارت میں 60 ہزار عدالتیں ہیں لیکن تقریباً 15 ہزار میں خواتین کے لیے بیت الخلا نہیں۔ دنیا کے کئی چھوٹے موٹے اور پچھڑے ہوئے دیشوں میں بھی ان کی پارلیمنٹ میں بھارت کے مقابلے زیادہ خواتین ہیں۔ بھارت فخر کر سکتا ہے کہ صدر‘ وزیر اعظم وزیر اور لوک سبھا سپیکر عہدے پر خواتین رہ چکی ہیں لیکن ملک کی کابینہ میں‘ پارلیمنٹ اور عدالتوں میں خواتین کو مناسب نمائندگی ملے یہ آواز اب زوروں سے اٹھنی چاہئے۔ اس مرد عورت برابری کا آغاز سیاسی جماعتوں سے ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے بھارت کے چیف جسٹس این وی رمن نے جو معاملات اٹھائے ہیں‘ وہ سراہے جانے کے قابل ہیں اور ان پر فوری طور پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ بھارتی عدالتوں میں آنے کیسوں کی ایک بڑی تعداد خواتین سے متعلق ہوتی ہے۔ ان کیسز کی خواتین سماعت کریں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اور معاشرے میں انصاف کی فراہمی کی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔