بھاجپا کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ اب تقریباً دو سال بعد ہوئی جبکہ اسے ہر تیسرے مہینے ہونا چاہئے۔ اسے نہ کرنے کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ کورونا وبا کے دوران اس کے سینکڑوں ممبر ایک جگہ کیسے اکٹھے ہوتے ؟ ایک جگہ اکٹھے ہونے کی اس دلیل میں کچھ دم نہیں ہے کیونکہ جیسے ابھی ایڈوانی‘ جوشی اور کئی وزرائے اعلیٰ نے گھر بیٹھے اس میٹنگ میں حصہ لے لیا ویسے ہی سارے ممبر اس میٹنگ میں حصہ لے سکتے تھے لیکن اب آناً فاناً یہ میٹنگ کچھ گھنٹو ں کیلئے بلائی گئی۔ یہ بتاتا ہے کہ حال ہی میں ہوئے ضمنی چناؤ نے بھاجپا میں فکر پیدا کردی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ نریندر مودی اتنی ٹھنڈ میںگرم کپڑے لاد کر کیدارناتھ گئے اور ویٹیکن میں جاکر پوپ سے گلے ملتے رہے۔ ان تینوں واقعات‘ ایگزیکٹو کی میٹنگ‘ پوپ سے گلے ملنا اور کیدارناتھ کی یاترا کا سیدھا تعلق پانچ ریاستوں کے آنے والے چناؤ سے ہیں۔ اتر پردیش‘ پنجاب‘ اتراکھنڈ‘ گوا اور منی پور کے چناؤ اگلے کچھ ماہ میں ہی ہونے والے ہیں۔ پوپ سے ملاقات گوا اور منی پور کے عیسائی ووٹروںکو پھسلائے بغیر نہیں رہے گی اور کیدارناتھ یاترا کا اثر اُتر پردیش اور اتراکھنڈ کے ووٹروں پر پڑے بغیر نہیں رہے گا۔ مودی کا یہ قدم بروقت اور معنی خیز ہے کیونکہ سیاست میں ووٹ اور نوٹ یہی دو بڑی سچائیاں ہیں۔اتر پردیش کے مکھیہ منتری آدتیہ ناتھ یوگی کو خاص طور پر دہلی بلا کر غیر معمولی اہمیت اسی لئے دی گئی کہ اگر اترپردیش ہاتھ سے کھسک گیا تو دہلی کی کرسی بھی ہلنے لگے گی۔ خود وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ اگر 2024ء میں مودی کو دہلی میں تیسری بارلانا چاہتے ہیں تو پہلے یوگی کو لکھنؤ میں دوبارہ لاکر دکھائیں۔ ورکنگ کمیٹی کی اس میٹنگ میں سبھی ترجمانوں نے پچھلے دو سال کی سرکار کی کامیابیوں پر اپنے اپنے طریقے سے روشنی ڈالی۔ کسی بھی ترجمان نے یہ نہیں بتایاکہ سرکار کہاں کہاں چوک گئی۔ سبھی مدعوں پر کھلی بحث کا سوال تو اٹھتاہی نہیں ہے۔ کانگرس ہو یا بھاجپا‘ ان دونوں اہم قومی پارٹیوں میں اندرونی بحث کھل کر ہوتی رہی تو بھارتی جمہوریت کو مضبوطی ملے گی۔ بھاجپا سرکار کے منتریوں اور کانگرس کے وزرائے اعلیٰ نے بھی کورونا کے دوران کافی لگن سے کام کیا۔مرکزی سرکار نے بھی کمزوروں کی مدد کے بھی اقدامات کئے‘ لیکن خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی کے معاملوں میں کئی غچے بھی کھا گئے۔ ان تمام مدعوں پر دوٹوک بحث کی بجائے بھاجپا ایگزیکٹو نے اپنا سارا زور پانچ راجیوں کے چناؤ پر لگادیا۔ یہ ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ تھا کہ ملک بھر سے آئے نمائندے سرکار کے کاموں کا واضح طور پر جائزہ لیں اور مستقبل کیلئے تعمیری تجاویز دیں۔
چینی نظام بنام بھارتی نظام
چین میں ماؤ زے تنگ کے بعد چار بڑے رہنما ہوئے۔ڈینگ ژیاؤ پنگ‘ چیانگ جومن‘ ہوجن تاؤ اور شی جن پنگ۔ماؤ کے بعد تنگ کو اسی لئے سب سے بڑا رہنما ماناگیا کیونکہ اس نے چین کو ایک نئی سمت دی تھی۔ماؤ کے ثقافتی انقلاب اور دیگر کمیونسٹ اقدامات کی وجہ سے چین میں لاکھوں کی جانیں چلی گئیں اور معاشی غربت بھی بڑھ گئی لیکن ڈینگ ژیاؤ پنگ نے کافی اصلاحاتی رویہ اپنایا۔ان کے ایک مشہور کہاوت تو چینی تاریخ کا موضوع بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ بلی کالی ہے یا گوری دیکھنا یہ ہے کہ وہ چوہے مار سکتی ہے یا نہیں۔ انہوںنے اپنی معاشی پالیسیوں سے چین کو دنیا کی عظیم طاقتوں کے درمیان لے جا کر بٹھا دیا۔انہیں کی طرح شی جن پنگ نے اپنے پچھلے نو سال کے دور اقتدار میں چین کو عالمی طاقت بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے چین کو اس لائق بنادیا کہ امریکہ اس سے ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہو گیا اور جب چین پھسلانہیں تو آج چین کے ساتھ امریکہ کے ویسے رشتے بنتے جا رہے ہیںجیسے سرد جنگ کے دوران روس اور امریکہ کے ہوگئے تھے۔ شی کے فوجی بلندی کی وجہ سے ہی اس کے آس پاس امریکی چوگٹے (کواڈ) کا جنم ہواہے اور مغربی ایشیا میں بھی ویسا ہی گٹھ بندھن بننے جا رہا ہے۔ شی کی جدید شاہراہ ریشم کی سوچ نے پورے ا یشیا کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ شی کا چین پورے ایشیا اور افریقہ میں چھا گیاہے۔شی نے 2018 ء میں چینی آئین میں ترمیم کروا کر اپنے لئے تاحیات صدر رہنے کا انتظام کروالیا ہے۔اس وقت تین اعلیٰ عہدے ان کے پاس ہیں چینی کمیونسٹ پارٹی کے وہ جنرل سیکرٹری ہیں‘ ملک کے صدر ہیںاور سینٹرل ملٹری کمیشن کے صدرہیں۔ ظاہر ہے اگلے سال وہ پانچ سال کیلئے مزید چن لئے جائینگے۔پچھلے 100 سال کے چینی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ میں ماؤ اور تنگ کے بعد شی ہی ایسے رہنما ہوں گے جن کی تعریف میں پارٹی قصیدے پڑھتی ہے۔ شی کو اس بات کا کریڈٹ تو ہے کہ انہوں نے چین کو سپر پاور بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دنیا کے جمہوری ممالک کیلئے شی جن پنگ ایک پہیلی بھی ہیں۔ وہ یہ سوال بھی سب کے سامنے اچھال رہے ہیں کہ اپنے ملک کی عوام کے بھلے کیلئے کیا اچھا ہے‘ بھارت کی طرح کی جمہوریت یا چین کی طرح کا نظام ؟
یہ پدم شری کے سچے حقدار
اس بار 141لوگوں کو پدم ایوارڈدیا گیا۔جنہیں پدم وبھوشن‘ پدم بھوشن اور پدم شری ایوارڈ ملتا ہے ا نہیں ان کے دوست اور رشتہ دار مبارک باد بھیجتے ہیں لیکن میں یا تو چپ رہتا ہوں یا اپنے کچھ اٹوٹ دوستوں کو ہمدردی کا پیغام بھجواتا ہوں۔ ہمدردی اس لئے کہ ایسے ایوارڈ پانے کیلئے کچھ لوگوں کو پتہ نہیں کتنی اٹھک بیٹھک کرنی پڑتی ہے۔ نہ پسند نیتاؤں اور افسروں کے یہاں دربار لگانا ہوتا ہے اور کئی بار تو رشوت بھی دینی پڑتی ہے‘ حالانکہ تمام ایوارڈ یافتہ لوگ ایسے نہیں ہوتے لیکن اس بار کئی ایسے لوگوں کو یہ ایوارڈ ملا ہے جو نہ تو اپنی سفارش خودکہ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی سے کروا سکتے ہیں۔ انہیںتو اپنے کام سے کام ہوتا ہے۔ ان میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ تو پڑھنا آتا ہے اور نہ ہی لکھنا۔ یا تو ان کے پاس ٹیلی وژن سیٹ نہیں ہوتاہے اور اگر ہوتا بھی تو انہیں سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ خبریں تک نہیں دیکھتے۔ انہیں ہمارے صدر اور وزیر اعظم تک کے نام بھی پتا نہیں ہوتے۔ انہیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ کوئی سرکاری ایوارڈ بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ انہیں کسی ایوارڈکی پروا نہیں ہوتی۔ اس بار بھی ایسے کئی لوگوں کو پدم شری ایوارڈ کیلئے چنے جانے پر میری مبارکباد اور اس سرکاری کمیٹی کیلئے تعریف۔کون ہیں ایسے لوگ ؟ یہ ہیں ہریک کالا حجبہ جو کہ خود ناخواندہ ہیں اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سنترے بیچتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی لگا کر کرناٹک کے اپنے گاؤں میں پہلا سکول کھول دیا۔ دوسرے ہیں ایودھیا کے محمد شریف جنہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کروائیں۔ 1992ء میں ریلوے پٹری پر ان کے بیٹے کی مسخ شدہ لاش نے انہیں اس اچھے کام کیلئے اکسایا۔ تیسرے‘ لداخ کے چلٹم چونجور‘ اتنے دمددار آدمی ہیں کہ اس دشوار گزار علاقے کے ایک گاؤں تک‘ انہوںنے 38 کلومیٹر سڑک پر30 ہزار سے زیادہ درخت لگائے۔پانچویں‘ راجستھان کے ہمتارام بھاموجی بھی اسی طرح کے پرعزم آدمی ہیں۔ انہوں نے جودھپور‘ باڑمیڑ‘ سیکر‘ جیسلمیر اور ناگور وغیرہ شہروں میں ہزاروں پودے لگانے کی کامیابی مہم چلائی ہے۔چھٹا‘ مہاراشٹر کی خاتون بائی پوپرے بھی دیسی بیج خود تیار کرتی ہیں جن کی فصل سے اس علاقے کے کسانوں کو بہتر آمدنی ہو رہی ہے۔ انہیںلوگ ''بیج ماتا‘‘ یا سیڈمدر کہتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کے ساتھ اجین کے امبودیا گاؤں میں ''سیوادھام‘‘چلارہے سدھیر گوئل کا نام جڑ جاتا تو پدم ایوارڈ کے وقار میں چار چاند لگ جاتے۔ اس تنظیم کے بنائے ہوسٹل میں ساڑھے سات سو معذور‘ کوڑھی‘ اندھی‘ بہری‘ لاوارث خواتین‘ سابقہ طوائفیں‘ سابق بھکاری خواتین وغیرہ مفت رہتی ہیں۔اسے کوئی سرکاری مدد نہیں ملتی۔ ایسے متعدد لوگ بھارت میں گمنام سیوا کر رہے ہیں۔ انہیں تلاش کر کے ان کی عزت افزائی کی جانی چاہئے تاکہ ملک میں بے لوث سیوا کی لہر دوڑ سکے۔