"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت کیسے بنے سچی جمہوریہ

نو اور دس دسمبر کو امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے عالمی جمہوری کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں دنیا کے تقریباً 100 ممالک نے شرکت کی لیکن اس میں روس‘ چین‘ ترکی‘ پاکستان اور میانمار جیسے کئی ممالک نے شرکت نہیں کی۔ کچھ کو امریکہ نے مدعو نہیں کیا تھا جبکہ پاکستان اس میں خود شامل نہیں ہوا۔پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ہم مستقبل میں مناسب وقت پر اس موضوع پر امریکہ سے شریکِ گفتگو ہو سکتے ہیں‘ اس دوران پاکستان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت‘ تعمیری کردار اور بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے تمام کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ امریکہ کی جمہوری کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کی ایک وجہ چین کے بجائے تائیوان کو اس کانفرنس میں مدعو کرنا تھا جس پر چین نے کافی تاؤ کھایا۔ جمہوریت پر کوئی بھی چھوٹی یا بڑی کانفرنس ہو وہ خوش آئند ہے لیکن ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ اس کانفرنس میں کون کون سے مسائل اٹھائے گئے‘ ان کے کیا کیا حل سجھائے گئے اور انہیں نافذ کرنے کا عزم کن کن ممالک نے کیا ہے۔ اگر اس پیمانے پر اس کنونشن کو دیکھیں تو مایوسی ہی ہاتھ لگے گی۔ خاص طورسے امریکہ کے تناظر میں‘ پہلا سوال تو یہی ہوگا کہ بائیڈن نے یہ کانفرنس کیوں منعقد کی؟ان سے پہلے تو کسی امریکی صدرکو یہ بات کیوں نہیں سوجھی؟ اس کی وجہ صاف ہے۔ بائیڈن سے صدارتی چناؤ میں ہارنے والے ڈونلڈ ٹرمپ ا بھی تک یہی پرچار کررہے ہیں کہ بائیڈن کی جیت امریکی جمہوریت کا قتل تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر امریکہ کاانتخاب خوفناک دھاندلی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس معاملے کولے کر واشنگٹن میں تخریب پر مبنی توڑ پھوڑ بھی ہوئی تھی۔ اس پرچار کی کاٹ بائیڈن کے لیے ضروری تھی۔امریکہ کی جانب سے جمہوریت کا جھنڈا اٹھانے کی دوسری بڑی وجہ چین اور روس کو نشانہ بناناتھا۔ دونوں ملکوں سے امریکہ کی کافی تنا تنی چل رہی ہے۔ یوکرائن کو لے کر روس سے اور تائیوان وغیرہ کولے کر چین سے۔ ان دونوں سابق کمیونسٹ اقوام کو جمہوریت کا دشمن بتاکر امریکہ اپنی نئی سرد جنگ کو تقویت دینا چاہتا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ روس اور چین جیسے درجنوں ممالک میں مغربی طرز کی جمہوریت نہیں ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ بھارت ‘ امریکہ اور یورپی ممالک میں کیا سچی جمہوریت ہے؟ بائیڈن نے اپنے بھاشن میں چناؤ کی درستی‘ تانا شاہی حکومتوں کی مخالفت‘ آزاد صحافت اور انسانی حقوق کی حفاظت پر زور دیا اوربھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کرپٹو کرنسی اور انٹرنیٹ پر چلنے والی افراتفری کو نشان زد کیا۔ یہاں سوال یہی ہے کہ کیا ان سطحی معیارات پر بھارت اور امریکہ کی جمہوریت کھری اترتی ہے؟ ایک دنیا کی سب سے بڑی اور دوسری دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت کہلاتی ہے۔ کیا ان جمہوری ممالک میں ہر شہری کو زندگی جینے کی کم سے کم سہولیات دستیاب ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان دونوں ملکوں میں کروڑ پتیوں اور کوڑی پتیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے؟ ذات پات کی تفریق اور رنگ بھید کی وجہ سے بھارت اور امریکہ کی جمہوریت کیا بے ڈھب طرز حکومت میں نہیں بدل گئی؟ کیا بھارت اور امریکہ میں لوک شاہی کے بجائے نیتا شاہی اور نوکر شاہی کا بول بالا نہیں ہے؟ جو لوگ اپنے آپ کو پبلک سرونٹ اور پرنسپل سرونٹ کہتے ہیں کیا ان میں خدمت کا جذبہ کبھی دکھائی دیتا ہے؟ جس دن نوکرشاہوں اور نیتا شاہوں میںسیوا کا جذبہ دکھائی پڑ جائے گا اسی دن بھارت سچی جمہوریت کا دعویٰ کرنے کے قابل ہو گا۔
بھارتیہ خارجہ پالیسی کی اچھی پہل
پڑوسی ممالک کے بارے میں بھارت نے کافی اچھی پہل کی ہے۔ اگست میں افغانستان کے بارے میں بھارتی پالیسی یہ تھی کہ ''لیٹے رہو اور دیکھتے رہو‘‘ لیکن مجھے خوشی ہے کہ اب بھارت نہ صرف 50ہزار ٹن گیہوں کابل بھیج رہاہے بلکہ ڈیڑھ ٹن دوائیاں بھی بھجوا رہا ہے۔ یہ سارا سامان 500 سے زیادہ ٹرکوں پر لد کر کابل پہنچے گا۔ سب سے زیادہ اچھا یہ ہوا کہ ان سارے ٹرکوں کو پاکستان سے ہوکر جانے کا راستہ مل گیا ہے۔حکومت پاکستان نے یہ بڑی وسعت نظری کا فیصلہ کیا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد جوراستہ بند ہوگیاتھاوہ اب کم از کم افغان بھائی بہنوں کی مدد کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ کیا معلوم یہی شروعات بن جائے دونوں ملکوں میں رشتے ٹھیک ٹھاک کرنے کی۔بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے افغانستان بحران پر پڑوسی ملکوں کے سکیورٹی صلاح کاروں سے جو بات چیت دہلی میں کی تھی وہ بھی قابلِ ستائش پہل تھی۔ اس کاچین اور پاکستان نے بائیکاٹ ضرور کیالیکن اس میں مدعو وسطی ایشیا کے پانچوں مسلم ممالک کے سلامتی صلاح کاروں کی آمد نے بھارتی خارجہ پالیسی کی ایک نئی جہت کھول دی ۔ اب بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر نے آگے بڑھ کر ان پانچوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ بھی اگلے ہفتے بلائی ہے۔میں پچھلے کئی سال سے کہتا رہا ہوں کہ وسط ایشیا کی یہ پانچوں جمہوریہ صدیوں تک آریہ ورت کا اٹوٹ انگ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ قربتیں بڑھانا ان ترقی پذیر ممالک کے لیے فائدہ مند ہے ہی‘ بھارت کے لیے ان کی بے پناہ دولت کا فائدہ اٹھانا بھارتیوں کے لیے کروڑوں نئے روزگار پیدا کرے گا اور جنوب اور وسط ایشیا کے ممالک میں دوستی کا نیا شعور بھی بیدار کرے گا۔ ان تمام ممالک میں پچھلے 50سال میں مجھے کئی بار رہنے کا اور ان کے اعلیٰ سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں کئی دہائی تک سوویت حکمرانی رہی لیکن ان میں بھارت کے تئیں ایک غیر متزلزل کشش ہے۔ تاجکستان نے بھارت کو اہم فوجی سہولیات بھی دے رکھی تھیں۔ قزاقستان اور ازبکستان کے صدور بھارت کے دورے بھی کرچکے ہیں۔ اب کوشش یہ ہے کہ ان پانچوں ممالک کے صدورکو 26جنوری کو بھارت مدعو کیا جائے۔ اس طرح کی دعوت دینے کی تجویز میں نے نریندر مودی کی موجودگی میں ایک اجلاس میں ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی دی تھی۔اب کیونکہ پچھلے 5‘6 سال سے سارک ٹھپ ہے‘ میں نے پیپلز سارک نامی ادارے کاحال ہی میں قیام کیا ہے جس میں میانمار‘ ایران اور موریشئس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا کے پانچوں ری پبلکس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اگر 16ممالک کی یہ تنظیم یورپی یونین کی طرح کوئی مشترکہ بازار‘ مشترکہ پارلیمنٹ‘ مشترکہ فیڈریشن بنواسکے تو اگلے 10سال میں بھارت سمیت یہ سارے ممالک یورپ سے بھی آگے نکل سکتے ہیں۔ان قوموں کے پاس گیس‘ تیل‘ یورینیم‘ سونا‘ چاندی‘ لوہا اور تانبا جیسی دھاتوں کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ انہیں اپنے آپ کو خوشحال بنانے کے لیے یورپی اقوام کی طرح دیگر قوموں کا خون چوسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں صرف بھارت کے تعاون کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں