سپریم کورٹ آف انڈیا میں مہاراشٹر سرکار کی اس پٹیشن کو رد کر دیا گیا ہے جس میں یہ مانگ کی گئی تھی کہ مرکزی سرکار اسے پچھڑی جاتیوں کے اعداد و شمار دستیاب کرائے تاکہ وہ اپنے مقامی چنائو میں مہاراشٹر کے پچھڑے ہوؤں کو 27 فیصد ریزرویشن دے سکے۔ جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے اپنے حکم میں کہا کہ ریزرویشن کے معاملے میں کمیشن کی تشکیل اور مقامی سطح کی حکومت میں نمائندگی سے متعلق اعداد و شمار جمع کئے بغیر او بی سی کے لیے 27 فیصد ریزرویشن کا نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ مہاراشٹرا ریاستی الیکشن کمیشن نے ریاستی حکومت کے آرڈیننس کی بنیاد پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا‘ جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ مہاراشٹرا ریاستی الیکشن کمیشن او بی سی ریزرویشن کے التزامات کی بنیاد پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے عمل کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ ریاستی حکومت نے ستمبر میں ایک آرڈیننس کے ذریعے مہاراشٹرا ضلع پریشد اور پنچایت سمیتی ایکٹ 1961 اور ضلع پریشدوں، پنچایت سمیتی اور گرام پنچایتوں کے لیے مہاراشٹرا گرام پنچایت ایکٹ میں ترمیم کی تھی۔ اس ترمیم کے ذریعے او بی سی کے لیے 27 فیصد نشستیں ریزرو کرنے کا التزام کیا گیا تھا۔ بھارت کی مرکزی سرکار نے 2011ء میں جو مجموعی مردم شماری کروائی تھی اس میں شہریوں کی سماجی‘ معاشی صورت حال پر بھی اعداد و شمار اکٹھے کیے گئے تھے۔ ججوں نے مہاراشٹر سرکار کی پٹیشن کو رد کرتے ہوئے کہا کہ خود مرکزی سرکار نے ان اعداد و شمار کو اسی لئے شائع نہیں کیا کہ وہ مستند اور قابل اعتبار نہیں تھے۔ دس سال پہلے کی گئی ذاتوں کی مردم شماری سے پتہ چلا کہ بھارت میں کل 46 لاکھ الگ الگ جاتیا ں ہیں‘ ان میں کون ترقی یافتہ ہے اور کون پچھڑی ہوئی‘ یہ طے کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ ایک صوبے میں جس ذات کو ترقی یافتہ مانا جاتا ہے دوسرے صوبے میں انہیں ہی پچھڑی مانا جاتا ہے۔ ایک ہی گوت کئی ترقی یافتہ اور پچھڑی جاتیوں میں ایک ساتھ پایا جاتا ہے۔ کئی نام نہاد ترقی یافتہ جاتی کے لوگ بے حد غریب ہوتے ہیں اور پچھڑی جاتیوں کے کئی لوگ کافی امیر ہوتے ہیں۔ جب انگریزوں نے بھارت میں ذاتوں کی مردم شماری شروع کی تھی تو ان کا ارادہ بھارت کی ایکتا کو ذاتوں کی بنیاد پر بانٹنے کا تھا تاکہ 1857ء کی آزادی کی جدوجہد میں ابھری علاقائی سوچ دب جائے‘ لیکن انگریز حکمرانوں کے اس رجحان کے خلاف گاندھی جی کی قیادت میں ذاتوں کی مردم شماری کی اتنی سخت مخالفت ہوئی کہ 1931ء سے اسے بند کر دیا گیا‘ لیکن بھارت کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اپنی جیت کی بنیاد جاتی کو بنا لیا۔ اسی لئے ان کے زور دینے پر کانگرس سرکار نے ذاتوں کی مردم شماری پھر سے شروع کر دی‘ لیکن اس مردم شماری کی مخالفت کرنے کے لیے جب میں نے ''میری جاتی ہندوستانی‘‘ تحریک شروع کی تو تقریباً سبھی جماعتوں نے اس کی حمایت کی۔ کانگرس صدر سونیا گاندھی کی پہل پر وہ جاتیہ مردم شماری درمیان میں ہی رکوا دی گئی۔ اس کے اعداد و شمار نہ تو کانگرس سرکار نے ظاہر کئے اور نہ ہی بھاجپا سرکار نے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ موجودہ سرکاری وکیل نے جاتیہ مردم شماری کو غیر سائنسی اور غیر خالص بتایا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ مہاراشٹرا سرکار نے کسی منظم جانکاری کے بغیر ہی 27 فیصد ریزرویشن پچھڑوں کو دے دیا‘ جس پر سپریم کورٹ نے جو روک لگائی ہے وہ ٹھیک ہے۔ اس وقت بہار‘ اتر پردیش اور جنوب کے بھی کچھ سیاسی رہنما جاتیہ مردم شماری کی مانگ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ بھارت سیاسی جماعتیں نظریاتی اور عملی طور پر تقریباً دیوالیہ ہو چکی ہیں اس لئے وہ جاتی اور مذہب کے نام پر تھوک ووٹ بٹورنے کے لئے مجبور ہیں۔ یہ بھارتیہ جمہوریت کی کمزوری کی علامت ہے۔ بھارت کے غریب اور کمزور لوگوںکو جاتیہ بنیاد پر نوکریوں میں نہیں بلکہ تعلیم اور علاج میں ضرورت کی بنیاد پر ریزرویشن پر ضرور دیا جانا چاہئے۔
بھارت میں شادی کی عمر
بھارت کی مرکزی کابینہ نے طے کیا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر کو 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کر دی جائے گی۔ اب لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی شادی کی عمر 21 سال ہو جائے گی۔ اس فیصلے کی کئی لوگ مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ یہ فیصلہ بھی زرعی قوانین کی طرح من مانی والا ہے۔ کیا سرکار نے اس کے بارے میں بھارت کی لڑکیوں سے بھی پوچھا ہے؟ کسی کانگرسی خاتون رہنما نے سوال کیا ہے کہ جب آپ نے 18 سال کی لڑکیوں کو ووٹ کا حق دیا ہے تو انہیں 18 سال میں شادی کا حق کیوں نہیں دیتے؟ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ قانون ناکام رہے گا‘ جیسے شراب پر پا بندی کا قانون رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کی دلیل یہ بھی ہے کہ گاؤں کی غریب اور غیر تعلیم یافتہ لڑکیاں اگر 21 سال تک غیر شادی شدہ رہیں گی تو انہیں بے کاری اور بد سلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب سب دلائل کو ہم ایک ساتھ بے بنیاد نہیں کہہ سکتے ہیں۔ لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ سرکار نے یہ فیصلہ اچانک نہیں کیا ہے۔ اس مدعے پر اچھی طرح غور کرنے کے لیے پچھلے دو سال سے ایک کمیشن کام کرتا رہا ہے۔ 1929ء میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 14 سال طے کی گئی تھی اور 1978ء میں اسے 18 سال کر دیا گیا۔ بھارت میں تو لڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان کی پیدائش سے بھی پہلے طے ہوجایا کرتی تھیں۔ اس بال وواہ یعنی بچپن کی شادی کی غلط روایت کی مخالفت آریہ سماج نے جم کر کی جس کے نتیجے میں 1929ء میں شاردا ایکٹ کا جنم ہوا۔ اب جو فیصلہ ہوا ہے وہ مرد عورت کی برابری کی علامت ہے۔ اگر لڑکوں کی شادی کی کم از کم عمر 21 سال ہے تو لڑکیوں کی بھی وہی عمر کیوں نہ ہو؟ ناریوں کو نروں سے کمزور کیوں سمجھا جائے؟ ابھی بھی بھارت کی 23‘ 24 فیصد خواتین کی شادی 18 سال سے پہلے ہی ہو جاتی ہے۔ جب سے لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھی ہے‘ ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کافی گھٹی ہے اور پیدا ہوتے ہی مرنے والے بچوں کی تعداد بھی گھٹ گئی ہے۔ ان کی صحت بھی بہتر ہوئی ہے۔ لڑکیاں دیر سے شادی کرتی ہیں تو ان کی تعلیم کا لیول بھی اونچا ہو سکتا ہے اور ان کا روزگار بھی۔ ان کا آتم وشواس بھی زیادہ ہو گا۔ اس سے آبادی پر کنٹرول بھی ہو گا۔ بھارت شاید دنیا کا واحد اور پہلا ملک ہو گا جہاں لڑکیوں کی شادی کی عمر 21 سال ہو گی۔ چین میں یہ 20 سال ہے۔ امریکہ‘ فرانس‘ جرمنی اور جاپان وغیرہ میں یہ 18 سال ہے۔ روس میں 16 سال اور ایران میں 13 سال ہے۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں اس سے بھی کم ہے۔ ویسے بھارتیہ حساب سے شادی کی کم از کم عمر 25 سال ہونی چاہئے۔ اس طرح کا قانون تبھی کارآمد ہو سکتا ہے جبکہ ملک میں سماجی بیداری کی کوئی بڑی تحریک چلے۔ بھارت میں اگر کروڑوں لوگ اس کا مطالبہ کریں تو اس پر بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔