بھارت کی سپریم کورٹ کا یہ اقدام بالکل صحیح ہے کہ اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی سکیورٹی کے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ مرکزی سرکار اور پنجاب سرکار‘ دونوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے جانچ بٹھا دی تھی کہ مودی کا راستہ روکنے کے لیے کون ذمہ دار ہے۔ پنجاب کی پولیس یا مرکز کی سپیشل پروٹیکشن سکواڈ (ایس پی جی)؟ مودی گزشتہ ہفتے بھارتی پنجاب کے ضلع فیروزپور میں ایک ریلی سے خطاب کرنے جا رہے تھے جب کچھ مظاہرین نے سڑک بلاک کر دی اور بھارتی وزیر اعظم کا قافلہ سرحدی گاؤں حسینی والا سے 30 کلومیٹر پہلے ایک فلائی اوور پر 15 سے 20 منٹ تک پھنسا رہا تھا۔ یاد رہے کہ بھارتی وزیر اعظم پانچ جنوری کی صبح بٹھنڈہ ایئرپورٹ پہنچے تھے اور شیڈول کے تحت انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے جانا تھا مگر یہ دورہ خراب موسم کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔ جب حدِ نگاہ بہتر نہ ہوئی تو مودی کا قافلہ سڑک کے راستے روانہ ہوا مگر اپنی منزل سے قریب 30 کلومیٹر دور مظاہرین کی وجہ سے پھنس گیاکیونکہ آگے جانے کے راستے کو کسان مظاہرین نے گھیر رکھا تھا۔ وزرائے اعظم کی سکیورٹی کا معاملہ بہت سنگین ہے کیونکہ سرکاری لاپروائی کی وجہ سے ہی مہاتما گاندھی‘ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی موت ہوئی تھی۔ ضابطے کے مطابق جس راستے سے وزیر اعظم کو گزرنا ہوتا ہے اسی پوری طرح سے صاف ستھرا بنائے رکھنا اس ریاستی سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مودی کا راستہ روکا گیا‘ یہ اپنے آپ میں سنگین واقعہ ہے لیکن محفوظ لوٹنے کے باوجود مودی کا یہ بیان کہ (وزیر اعلیٰ) چنی کا شکریہ کہ میں زندہ لوٹ آیا ہوں‘ زبردست تنازع اور مذاق کا موضوع بن گیا ہے۔ کانگرسی کہہ رہے ہیں کہ آپ بھیڑ سے بہت دور تھے۔ آپ پر نہ کسی نے پتھر پھینکے‘ نہ تلوار‘ نہ گولی چلائی اور نہ ہی دھکا مکی کی تو بچے کس سے؟ بھیڑ نے آپ کو اور آپ نے بھیڑ کو دیکھا تک نہیں تو یہ بات آپ نے کیسے کہہ دی؟ آپ کے بیچ سے ہی لوٹ آنے کی وجہ تو یہ تھی کہ آپ کے جلسے میں 700 لوگ بھی نہیں آئے تھے جبکہ آپ کی سکیورٹی کے لیے 10 ہزار پولیس والے تعینات تھے۔ مایوسی سے جب آپ کو لوٹنا پڑا تو آپ نے اپنا راستہ روکنے کی رام کہانی چھیڑ دی۔ اس کا مقصد پنجاب سرکار کو بدنام کرنا اور سیاسی پینترا مارنا تھا۔ ان کانگرسی بیانوں کا بھاجپا نے بھی منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کی۔ بھاجپائیوں نے سکھوں کی جانب سے خالصتان کی تحریک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پنجاب سرکار کے سر الزام ڈالتے ہوئے بھاجپائیوں نے الزام لگایا کہ پنجاب کی سرکار نے شدید لاپروائی برتی ہے۔ اس نے ہوائی راستے کے متبادل زمینی راستے کو یکدم خالی کیوں نہیں رکھا؟ اس نے ضابطہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس نے جان بوجھ کر وزیر اعظم کے سیاسی جلسے پر پانی پھیرنے کی سازش رچائی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ مودی کا یہ جلسہ پنجاب میں انتخابی ہوا کو پلٹا کھلا دے گا۔ کل ملا کر یہ کہ مرکز اور پنجاب‘ دونوں سرکاروں نے اپنی اپنی جانچ بٹھا دی۔ مرکزی سرکار نے پنجابی افسران کو اپنی صفائی دینے کے لیے نوٹس بھی جاری کر دیے۔ سپریم کورٹ نے دونوں جانچوں پر روک لگا دی ہے اور اپنی آزادانہ جانچ بٹھا دی ہے۔ یہ جانچ کمیٹی پتہ کرے گی کہ اصلی قصور کس کا تھا۔ پنجاب کی پولیس کا ہے یا پردھان منتری کے سپیشل سکیورٹی سکواڈ کا؟ پردھان منتری کی سکیورٹی بہت زیادہ اہم موضوع ہے۔ اس معاملے کی مناسب جانچ پرکھ ہونی چاہئے تاکہ پتہ چل سکے کہ مودی کو کس وجہ سے خفت کا سامنا کرنا پڑا اور پھر واپس لوٹ آنا پڑا۔ واقعی یہ سکیورٹی کا مسئلہ تھا یا جلسہ ناکام ہونے کے اندیشوں میں بھی کچھ صداقت ہے‘ لیکن بہرحال اس موضوع پر سیاست مناسب نہیں ہے۔
اتر پردیش کا منتری کون؟
اتر پردیش کی سیاست میں آج کل بڑی اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ اسے دیکھ کر لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ اتر پردیش کا اگلا وزیر اعلیٰ کون ہو گا؟ مایا وتی کا تو سوال ہی نہیں اُٹھتا۔ اب بچے یوگی آدتیہ ناتھ اور اکھلیش یادو۔ دونوں کا نام 'ا‘ سے ہی شروع ہوتا ہے۔ آدتیہ ناتھ اور اکھلیش۔ بڑا 'آ‘ بنے گا یا چھوٹا 'ا‘۔ یہ چھوٹا 'ا‘ برابر بڑا 'آ‘ بنتا جا رہا ہے۔ یوگی کابینہ کے اہم ممبر سوامی پرساد موریہ اور ان کے ساتھیوں نے لکھنؤ میں چھوٹا موٹا زلزلہ پیدا کر دیا ہے۔ موریہ نے اپنے استعفے کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ تو صرف بتانے کے لیے ہیں لیکن ان کے استعفے کا اصلی پیغام یہ ہے کہ اتر پردیش کے چناؤ میں اونٹ دوسری کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ جس کروٹ اونٹ بیٹھے گا اسی کروٹ ہم پہلے سے لیٹنے لگیں گے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ موریہ جیسے کئی نیتا بار بار اپنی پارٹیاں بدلنے لگتے ہیں۔ ایسے نیتا ہی آج کی سیاست کو مکمل طور پر برہنہ ظاہر کرتے ہیں۔ سیاست میں سرگرم ہونے کے پیچھے وچار دھارا یا لوگوں کی سیوا اصلی وجہ نہیں ہوتی۔ اس کی ایک‘ محض ایک وجہ ہوتی ہے‘ اپنی دولت میں اضافہ کرنا۔ اسی لئے جب بستر مرگ پر پڑے ایک سیاست دان سے یمراج کے دوستوں نے پوچھا کہ آپ کا پونیہ اسین ہے۔ بتایئے آپ کدھر چلیں گے؟ سورگ میں یا نرک میں؟ نیتا جی نے کہا کہ سورگ اور نرک کو میں کیا جاؤں گا۔ مجھے تو وہیں لے چلو جہاں کرسی ملے یعنی کرسی ہی برہم ہے باقی سب متھیا ہے۔ سوامی پرساد کو یہ بات کھلتی رہی کہ وہ پچھڑوں کے اتنے سینئر نیتا ہیں لیکن مکھیہ منتری کی کرسی ان کے بجائے بھاجپا کے پرانے نیتا کیشو پرساد موریہ کو مل گئی۔ اب وہ اکھلیش سے بھی وعدہ لینا چاہیں گے کہ جیتنے پر انہیں وزیر اعلیٰ تو بنائیں ہی۔ وہ یہ بھی دعویٰ کریں گے کہ اتر پردیش کے 35 فیصد پچھڑوں کے تھوک ووٹ ایک جھٹکے میں وہ سپا کو دلا دیں گے۔ وہ شاید بھول گئے کہ جولائی میں مرکزی کابینہ میں توسیع میں 27 ایسے وزرا مقرر ہوئے تھے جو ملک کے پچھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مودی نے اس بات کا خوب پرچار بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ پلوامہ اور حسینی والا جیسی درجنوں نوٹنکیوں کا ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ پھر اگر موریہ کے بعد جیسا کہ اعلان ہوا ہے 10‘ 15بھاجپا حامی بھی پالا بدلنے والے ہیں تو یقینی طور پر وہ اکھلیش یادو کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ بالکل یہی منظر ہم نے 2017ء میں بھی دیکھا تھا۔ بھاجپا نے اس چناؤ میں پارٹی بدلنے والے 67 لوگوں کو ٹکٹ دیے تھے۔ ان میں سے 54 جیتے تھے۔ اب دیکھنا ہے کہ ان میں سے کتنے اس بار بھاجپا میں ٹکے رہتے ہیں‘ جن کے ٹکٹ نہیں کٹتے وہ تو کسی دوسرے پالے میں کودیں گے ہی۔ اتر پردیش آج بھی بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور بہار کے بعد وہ بھارت میں جاتی واد کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ اندھا تھوک ووٹ اس کی پہچان ہے۔ اسی سچائی کے دم پر سوامی پرساد موریہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایسا گولہ ماریں گے جو گھمنڈی نیتاؤں کی توپ کو بھی اُڑا دے گا۔ دیکھتے ہیں آگے آگے کیا ہوتا ہے۔ اسی لئے ابھی یہ بتانا مشکل ہے کہ اتر پردیش کا اگلا مکھیہ منتری کون بنے گا۔