"DVP" (space) message & send to 7575

ان کی تجوریاں کب کھلیں گی؟

پچھلے پانچ سات سالوں میں بھارت میں غریبی اور امیری دونوں نے ہی بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔ عالمی عدم مساوات کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی 57 فیصد قومی دولت پر صرف 10 فیصد امیر ترین بھارتی شہریوں کا قبضہ ہے جبکہ ملک کی 50 فیصد آبادی مجموعی دولت کے 13 فیصد پر ہی گزارہ کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں برس امیر ترین بھارتی شہریوں نے اپنی دولت مولت کے تناسب میں کافی فرق پیدا ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کا متوسط طبقہ بھی نسبتاً غریب ہے جس کی اوسط دولت تقریباً آٹھ لاکھ روپے یا کل قومی آمدن کا 29.5 فیصد بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اعلیٰ 10 فیصد اور سب سے اعلیٰ ایک فیصد طبقہ 65 فیصد دولت کا مالک ہے جن کی آمدن متوسط طبقے سے کہیں زیادہ ہے۔ جب سے نرسمہا راو ٔسرکار نے لبرلائزیشن کی اقتصادی پالیسی چلائی تھی اور بھارتی معیشت پر سرکار ی شکنجے کو ڈھیلا کیا تھا بھارت کے سب سے نچلے 20 فیصد غریبوں کی آمدنی سالانہ حساب سے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس 25‘ 26 سال کے عرصے میں بھاجپا اور کانگرس کی گٹھ بندھن سرکاریں بھی آئیں لیکن غریبوں کی آمدنی گھٹی نہیں جبکہ 2020-21ء میں ان کی جتنی سالانہ آمدنی تھی وہ آدھی سے بھی کم رہ گئی۔ اس میں 53 فیصد کی گراوٹ ہوئی۔ یہ گراوٹ 2015-16ء کے مقابلے میں تھی۔ پانچ سال کے دوران بھارت کے 20 فیصد سب سے مال دار لوگوں کی آمدنی میں 39 فیصد سالانہ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ بھارت کے ایک سرکاری ادارے نے بھی حال ہی میں جو انڈیکس جاری کیا تھا اس کے مطابق بھارت میں ہر چار میں سے ایک فرد کسی نہ کسی سطح پر غربت کا شکار ہے۔ اس فہرست میں ریاست بہار میں لوگوں کا سب سے زیادہ تناسب ہے‘ دوسرے نمبر پر ریاست جھاڑ کھنڈ ہے جبکہ تیسرے پر ریاست اتر پردیش ہے جہاں تقریباً 40 فیصد سے زیادہ افراد غربت زدہ ہیں۔ کورونا عالم گیر وبا کے قہر نے اس عدم مساوات کی کھائی کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔ ملک کے مال دار لو گ بیرونی ممالک میں بڑی بڑی جائیدادیں خرید رہے ہیں‘ زیادہ تر بینک لمبی چوڑی رقموں کے جمع ہونے کے اشتہارات دے رہے ہیں‘ صنعت کار لوگ بھارت اور باہر نئی نئی سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ چھپر پھاڑ کر آئی اس پونجی کا استعمال وہ کیسے کریں اور دوسری طرف شہروں کے مزدور اپنے اپنے گاؤں بھاگ رہے ہیں۔ شہروں میں یا تو تعمیری کام بند ہو گئے ہیں یا جو چل رہے ہیں ان میں مزدوری پوری نہیں مل رہی۔ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہ محفوظ ہے لیکن کروڑوں غیر سرکاری تنخواہ داروں کی آمدنی میں کافی کٹوتی ہو رہی ہے۔ انہیں اپنے روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ چھوٹے دکان دار بھی پریشان ہیں۔ ان کی بکری کم ہو گئی ہے۔ نائیوں‘ دھوبیوں‘ درزیوں‘ پینٹروں‘ جوتا پالش والوں کے لیے کام ہی نہیں بچا ہے کیونکہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ چھوٹے کسان بھی دقت میں ہیں۔ لوگوں نے سبزیوں اور پھلوں کی خریداری کم کر دی ہے۔ راجستھان کے مشہور لوک فنکار اسماعیل خان سے ایک بڑی تقریب میں کسی مہمان خصوصی نے پوچھا کہ سبھی فنکاروں نے پگڑی پہن رکھی ہے‘ آپ کے سر پر پگڑی کیوں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ کووڈ کے دور میں پہلے مکان بکا‘ پھر بیٹی کی شادی کا قرض ماتھے چڑھا‘ اب پگڑی کا بوجھ یہ ماتھا کیسے برداشت کرے گا؟ اسماعیل خان کی بیوی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اب گھر میں کبھی کبھی سبزی بنتی ہی نہیں ہے۔ بچوں کو چائے میں ڈبو ڈبو کر روٹی کھلانی پڑتی ہے۔ پراٹھے کی ضد کرنے والا بچہ بھوکا ہی سو جاتا ہے۔ سرکار نے 80 کروڑ لوگوں کو اناج بانٹنے کی جو مہم چلائی ہے اس سے غریبوں کو تھوڑی راحت تو ملی ہے لیکن جن امیروں کی آمدنی کروڑوں‘ اربوں اور کھربوں بڑھی ہیں وہ کیا کر رہے ہیں؟ وہ اپنی تجوریاں کب کھولیں گے؟
مہاماری معاوضہ: ریاستوں کی کھچائی
بھارتی سپریم کورٹ نے ان ریاستی حکومتوں کو سخت پھٹکار لگائی ہے جنہوں نے کورونا مہاماری کے شکار لوگوں کے کنبوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا آرڈر تھا کہ ہر ایک مرنے والے کے کنبے کو پچاس ہزار روپے کا معاوضہ دیا جائے۔ سبھی ریاستوں نے کارروائی شروع کر دی لیکن اس میں دو پریشانیاں دکھائی پڑیں‘ ایک تو یہ کہ مرنے والوں کی تعداد کم تھی لیکن معاوضوں کی مانگ بہت زیادہ ہو گئی۔ دوسری پریشانی یہ کہ مرنے والوں کی جتنی تعداد حکومتوں نے اعلان کی تھی ان کے مقابلے میں معاوضے کی عرضیاں بہت کم آئیں۔ جیسے ہریانہ میں مرنے والوں کا سرکاری آنکڑہ تھا 10,077 لیکن عرضیاں آئیں صرف 3003 اور پنجاب 16,557 کے لیے عرضیاں صرف 8786‘ جبکہ کچھ ریاستوں میں اس کا الٹا ہوا جیسے مہاراشٹر میں کورونا سے مرنے والوں والوں کی تعداد 141,737 تھی لیکن عرضیاں آ گئیں 2 لاکھ 13 ہزار۔ ایسا زیادہ تر ریاستوں میں ہوا ہے۔ اسی بات پر عدالت نے سخت ناراضگی ظاہر کی۔ اس نے بہار اور آندھرا پردیش کے چیف سیکرٹریوں کو تگڑی پھٹکار لگائی اور انہیں کہا کہ وہ اپنی ذمہ داری جلد نہیں پوری کریں گے تو عدالت اگلا سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائے گی۔ ججوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کی سرکار نے عالم گیر وبا کے شکار لوگوں کے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان کی تعداد شک کے دائرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہار جیسے صوبے میں مرنے والوں کی تعداد صرف 12 ہزار کیسے ہو سکتی ہے؟ عدالت نے گجرات سرکار سے پوچھا کہ اس نے 4000 عرضیوں کو کس بنیاد پر رد کیا ہے؟ عدالت نے کہا کہ کسی بھی عرضی کو رد کیا جائے تو اس کی وجہ بتائی جائے اور عرضی بھیجنے والے کو سمجھایا جائے کہ اس کمی کو وہ کیسے دور کریں۔ عدالت نے سب سے زیادہ فکر ان بچوں کی کی ہے جن کے ماں اور باپ دونوں ہی مہاماری کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایسے یتیم بچوں کی پرورش‘ تعلیم اور رکھ رکھائو کے نظام کا سوال بھی عدالت نے اٹھایا ہے۔ اس نے سرکاروں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ گائوں اور شہروں میں رہنے والے غریب اور غیر تعلیم یافتہ کنبوں کو معاوضے کی بات سے واقف کرانے کی خاص کوشش کریں۔ مان لیں کہ عدالت نے ان کچھ عرضیوں کا ذکر نہیں کیا جو فرضی بھی ہو سکتی ہیں‘ تو بھی کیا ایسی غیر کورونا اموات کے نام پر معاوضہ شاید ہی کوئی لینا چاہے گا۔ اور چاہے گا تو بھی وہی چاہے گا جو بہت زیادہ غریب ہو گا۔ ایسے میں بھی حکومت عوام کے ساتھ تعاون دکھا دے تو کچھ غیر مناسب نہیں ہو گا۔ میرے خیال میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو سخت پھٹکار کے مثبت نتائج نکلنے چاہئیں تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہو سکے اور مرنے والوں کے لواحقین کی کچھ داد رسی ہو سکے کہ وہ مصیبت کے مارے ہیں اور پریشانی کا شکار بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں